(حديث موقوف) اخبرنا حجاج بن منهال، حدثنا حماد، عن قيس، عن مجاهد، قال: قيل لابن عباس رضي الله عنهما: إن ارضها ارض باردة، فقال:"تؤخر الظهر وتعجل العصر، وتغتسل غسلا، وتؤخر المغرب، وتعجل العشاء، وتغتسل غسلا، وتغتسل للفجر غسلا".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا: إِنَّ أَرْضَهَا أَرْضٌ بَارِدَةٌ، فَقَالَ:"تُؤَخِّرُ الظُّهْرَ وَتُعَجِّلُ الْعَصْرَ، وَتَغْتَسِلُ غُسْلًا، وَتُؤَخِّرُ الْمَغْرِبَ، وَتُعَجِّلُ الْعِشَاءَ، وَتَغْتَسِلُ غُسْلًا، وَتَغْتَسِلُ لِلْفَجْرِ غُسْلًا".
مجاہد سے مروی ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا گیا کہ ان کا علاقہ ٹھنڈا علاقہ ہے تو انہوں نے فرمایا: (تب پھر) ظہر کو تاخیر اور عصر کو جلدی پڑھ لے، اور ایک بار غسل کر لے، مغرب دیر سے اور عشاء جلدی ایک غسل سے پڑھ لے، اور فجر کے لئے ایک بار غسل کر لے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 937]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [شرح معاني الآثار 101/1 -102]
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا حجاج، حدثنا حماد، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن زينب بنت ام سلمة رضي الله عنها: ان ابنة جحش كانت تحت عبد الرحمن بن عوف "وكانت تستحاض، فكانت تخرج من مركنها وإنه لعاليه الدم فتصلي".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا: أَنَّ ابْنَةَ جَحْشٍ كَانَتْ تَحْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ "وَكَانَتْ تُسْتَحَاضُ، فَكَانَتْ تَخْرُجُ مِنْ مِرْكَنِهَا وَإِنَّهُ لَعَالِيهِ الدَّمُ فَتُصَلِّي".
سیدہ زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جحش کی بیٹی عبدالرحمٰن بن عوف کے نکاح میں تھیں اور انہیں خون جاری رہتا تھا، اور جب وہ تسلے یا ٹب سے نکلتیں تو خون پانی کے اوپر آ جاتا تھا، پھر وہ نماز پڑھتی تھیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 938]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 128/1]، [اسد الغابة 69/7 -71]، [الاصابة 191/12] و [الاستذكار 228/3]
(حديث مقطوع) اخبرنا وهب بن سعيد الدمشقي، عن شعيب بن إسحاق، حدثنا الاوزاعي، قال: سمعت الزهري، ويحيى بن ابي كثير، يقولان: "تفرد لكل صلاة اغتسالة"، قال الاوزاعي: وبلغني عن مكحول، مثل ذلك.(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ سَعِيدٍ الدِّمَشْقِيُّ، عَنْ شُعَيْبِ بْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، وَيَحْيَى بْنَ أَبِي كَثِيرٍ، يَقُولَانِ: "تُفْرِدُ لِكُلِّ صَلَاةٍ اغْتِسَالَةً"، قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: وَبَلَغَنِي عَنْ مَكْحُولٍ، مِثْلُ ذَلِكَ.
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا: میں نے امام زہری اور یحییٰ بن ابی کثیر رحمہما اللہ سے سنا: وہ کہتے تھے کہ وہ (مستحاضہ) ہر نماز کے لئے علاحدہ غسل کرے گی۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا: اور مکحول سے بھی مجھے یہی روایت پہنچی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 939]» یہ سند تو صحیح ہے، لیکن دوسری جگہ کہیں نہیں ملی۔ مکحول کی روایت ضعیف ہے۔ نیز دیکھئے حديث رقم (791)۔
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا وهب بن سعيد، عن شعيب، حدثنا الاوزاعي، اخبرني عطاء، ان ابن عباس رضي الله عنه كان، يقول: "لكل صلاتين اغتسالة، وتفرد لصلاة الصبح اغتسالة".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعَيْبٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ كَانَ، يَقُولُ: "لِكُلِّ صَلَاتَيْنِ اغْتِسَالَةٌ، وَتُفْرِدُ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ اغْتِسَالَةً".
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ مجھے عطاء رحمہ اللہ نے خبر دی کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے تھے: ہر دو نماز کے لئے غسل ہے، صرف نماز فجر ایک غسل سے پڑھے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 940]» اس اثر کی سند صحیح ہے، اور یہ روایت (930) میں گذر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [بيهقي 89/1]
(حديث مقطوع) اخبرنا عفان بن مسلم، حدثنا محمد بن دينار، حدثنا يونس، عن الحسن في المطلقة التي ارتيب بها "تربص سنة، فإن حاضت وإلا تربصت بعد انقضاء السنة ثلاثة اشهر، فإن حاضت وإلا فقد انقضت عدتها".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دِينَارٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ الْحَسَنِ فِي الْمُطَلَّقَةِ الَّتِي ارْتِيبَ بِهَا "تَرَبَّصُ سَنَةً، فَإِنْ حَاضَتْ وَإِلَّا تَرَبَّصَتْ بَعْدَ انْقِضَاءِ السَّنَةِ ثَلَاثَةَ أَشْهُرٍ، فَإِنْ حَاضَتْ وَإِلَّا فَقَدْ انْقَضَتْ عِدَّتُهَا".
امام حسن رحمہ اللہ سے اس مطلقہ کے بارے میں مروی ہے جس کے حیض کا پتہ نہ چل سکے (یعنی آتا ہے یا رک گیا ہے)، انہوں نے کہا: پورے سال وہ انتظار کرے گی، حیض آیا تو ٹھیک ورنہ ایک سال کے بعد تین مہینے عدت گزارے گی، پھر حیض آیا تو ٹھیک ہے، نہیں آیا تو اس کی عدت پوری ہو گئی۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 942]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 11098]
وضاحت: (تشریح احادیث 932 سے 938) مطلب یہ ہے کہ حیض رک گیا ہے اور طلاق ہوگئی تو ایک سال تک حیض کا انتظار کرے گی، اور پھر تین مہینے عدت کے گذارے گی، ان تین مہینوں کے اندر حیض آجائے تو حیض کے حساب سے عدت گذارے گی، اور تین ماہ کے دوران پھر حیض رک جائے تو تین مہینے گزار لے تو اس کی عدت پوری مانی جائے گی۔ جیسا کہ مصنف عبدالرزاق میں تفصیلاً ذکر ہے۔
(حديث مقطوع) اخبرنا عبد الله بن مسلمة، قال: سئل مالك عن عدة المستحاضة إذا طلقت، فحدثنا مالك، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، انه قال: "عدتها سنة"، قال ابو محمد: هو قول مالك.(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، قَالَ: سُئِلَ مَالِكٌ عَنْ عِدَّةِ الْمُسْتَحَاضَةِ إِذَا طُلِّقَتْ، فَحَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ قَالَ: "عِدَّتُهَا سَنَةٌ"، قَالَ أَبُو مُحَمَّد: هُوَ قَوْلُ مَالِكٍ.
امام مالک رحمہ اللہ سے مستحاضہ کی طلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے ابن شہاب (زہری) عن سعید بن المسیب رحمہما اللہ سے نقل کیا کہ اس کی عدت ایک سال ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 943]» اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الموطا الطلاق 71]، [ابن أبى شيبه 158/5]، نیز رقم (944)۔
(حديث مقطوع) اخبرنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا عمرو بن دينار، قال: سئل جابر بن زيد عن المراة تطلق وهي الشابة فترتفع حيضتها من غير كبر، قال: "من غير حيض تحيض؟!"، وقال طاوس:"ثلاثة اشهر".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: سُئِلَ جَابِرُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ الْمَرْأَةِ تُطَلَّقُ وَهِيَ الشَّابَّةٌ فترتفع حيضتها من غير كبر، قَالَ: "مِنْ غَيْرِ حَيْضٍ تَحَيَّضُ؟!"، وَقَالَ طَاوُسٌ:"ثَلَاثَةَ أَشْهُرٍ".
عمرو بن دینار نے کہا: جابر بن زید سے ایسی نوجوان لڑکی کی طلاق کے بارے میں دریافت کیا گیا، بنا کبر سنی کے جس کا حیض رک گیا ہو، (اس کی عدت کیا ہو گی؟) تو انہوں نے فرمایا: بنا حیض کے حیض کی طرح کی مدت گزارے گی۔ امام طاؤوس رحمہ اللہ نے (وضاحت کی) فرمایا: تین مہینے عدت گزارے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 944]» اس روایت کی سند تو صحیح ہے، لیکن جابر کا قول اور کہیں نہیں مل سکا، طاؤوس کا قول البتہ اسی سند سے [مصنف عبدالرزاق 11122] میں موجود ہے جو صحیح ہے۔
(حديث مقطوع) اخبرنا نصر بن علي، حدثنا عبد الاعلى، عن معمر، عن الزهري، قال: "إذا طلق الرجل امراته فحاضت حيضة او حيضتين، ثم ارتفعت حيضتها إن كان ذلك من كبر، اعتدت ثلاثة اشهر، وإن كانت شابة وارتابت، اعتدت سنة بعد الريبة".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: "إِذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ فَحَاضَتْ حَيْضَةً أَوْ حَيْضَتَيْنِ، ثُمَّ ارْتَفَعَتْ حَيْضَتُهَا إِنْ كَانَ ذَلِكَ مِنْ كِبَرٍ، اعْتَدَّتْ ثَلَاثَةَ أَشْهُرٍ، وَإِنْ كَانَتْ شَابَّةً وَارْتَابَتْ، اعْتَدَّتْ سَنَةً بَعْدَ الرِّيبَةِ".
معمر سے مروی ہے امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا: جب آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے اور ایک یا دو مرتبہ حیض آنے کے بعد رک جائے، اور یہ رکاوٹ زیادہ عمر کی وجہ سے ہو تو تین مہینے عدت کے پورے کرے گی، اور کم عمر ہے اور شبہ میں پڑ گئی تو شک پڑنے کے بعد ایک سال تک عدت گزارے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 945]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 11097] و [تفسير طبري 140/28]
(حديث مقطوع) اخبرنا خليفة بن خياط، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن عكرمة، قال: "المستحاضة والتي لا يستقيم لها حيض فتحيض في شهر مرة وفي الشهر مرتين، عدتها ثلاثة اشهر".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا خَلِيفَةُ بْنُ خَيَّاطٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: "الْمُسْتَحَاضَةُ وَالَّتِي لَا يَسْتَقِيمُ لَهَا حَيْضٌ فَتَحِيضُ فِي شَهْرٍ مَرَّةً وَفِي الشَّهْرِ مَرَّتَيْنِ، عِدَّتُهَا ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ".
قتادہ سے مروی ہے: عکرمہ (مولى سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما) نے کہا: مستحاضہ اور وہ عورت جس کا حیض برقرار نہ رہے، کبھی مہینے میں ایک بار کبھی دو بار حیض آئے، اس کی عدت تین مہینے ہو گی (یعنی طلاق کی عدت)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 946]» اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 11123] و [تفسير طبري 141/28] و [مصنف ابن أبى شيبه 158/5 -159]