ابوعبیدہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدہ ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات سے آگاہ کیجئے، انہوں نے کہا: بیٹے! اگر تم انہیں صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے تو سمجھتے کہ سورج طلوع ہو گیا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن موسى الطلحي التيمي، [مكتبه الشامله نمبر: 61]» اس روایت کی سند ضعیف ہے اور اسی سند سے طبرانی نے اسے [معجم كبير 696] و [اوسط 4455] اور بیہقی نے [الدلائل 551] میں ذکر کیا ہے۔ [مجمع البحرين 187/6، 188 (3563)] میں بھی یہ روایت موجود ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خوبصورت شمس و قمر کے مانند روشن چہرہ مُسلّم ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن موسى الطلحي التيمي
(حديث مرفوع) اخبرنا حجاج بن منهال، حدثنا حماد بن سلمة، اخبرنا ثابت، عن انس رضي الله عنه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم "ازهر اللون كان عرقه اللؤلؤ، إذا مشى تكفا، وما مسست حريرة ولا ديباجة الين من كفه، ولا شممت رائحة قط اطيب من رائحته: مسكة ولا غيرها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "أَزْهَرَ اللَّوْنِ كَأَنَّ عَرَقَهُ اللُّؤْلُؤُ، إِذَا مَشَى تَكَفَّأَ، وَمَا مَسِسْتُ حَرِيرَةً وَلَا دِيبَاجَةً أَلْيَنَ مِنْ كَفِّهِ، وَلَا شَمِمْتُ رَائِحَةً قَطُّ أَطْيَبُ مِنْ رَائِحَتِهِ: مِسْكَةً وَلَا غَيْرَهَا".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چمکیلے صاف رنگ کے تھے، آپ کا پسینہ موتی کی طرح تھا، چلتے تو آگے کی طرف جھکے ہوئے اور میں نے ریشم سے زیادہ آپ کی ہتھیلیوں کو نرم و ملائم پایا اور میں نے مشک و عنبر میں بھی وہ خوشبو نہ پائی جو آپ کے جسد مبارک میں تھی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 62]» یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 3561]، [صحيح مسلم 2330]، [مسند أحمد 107/3] و [مسند ابي يعلى 2784]
وضاحت: (تشریح احادیث 58 سے 62) ان تمام روایات و احادیث سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ، چلنے کا انداز، خوبصورتی و ملائمت ثابت ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال اور خوبصورتی کا نقشہ اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بڑے پیارے انداز میں کھینچا ہے۔ «وشمس الناس تطلع بعد فجرٍ .... و شمس تطلع بعد العشاء» ”لوگوں کا سورج فجر کے بعد طلوع ہوتا ہے، لیکن میرا سورج تو عشاء کے بعد نکلتا ہے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معجزہ تھا کہ بدن اور پسینے سے ایسی خوشبو پھوٹتی تھی جو مشک و عنبر سے بھی زیادہ اچھی و بہتر ہوتی۔ سچ ہے: حسنِ یوسف دمِ عیسی یدِ بیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو النعمان، اخبرنا حماد بن زيد، عن ثابت، عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال: "خدمت رسول الله صلى الله عليه وسلم فما قال لي: اف قط، ولا قال لي لشيء صنعته: لم صنعت كذا وكذا او هلا صنعت كذا وكذا، وقال: لا والله ما مسست بيدي ديباجا، ولا حريرا الين من يد رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا وجدت ريحا قط او عرفا كان اطيب من عرف او ريح رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "خَدَمْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا قَالَ لِي: أُفٍّ قَطُّ، وَلَا قَالَ لِي لِشَيْءٍ صَنَعْتُهُ: لِمَ صَنَعْتَ كَذَا وَكَذَا أَوْ هَلَّا صَنَعْتَ كَذَا وَكَذَا، وَقَالَ: لَا وَاللَّهِ مَا مَسِسْتُ بِيَدِي دِيبَاجًا، وَلَا حَرِيرًا أَلْيَنَ مِنْ يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا وَجَدْتُ رِيحًا قَطُّ أَوْ عَرْفًا كَانَ أَطْيَبَ مِنْ عَرْفِ أَوْ رِيحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال تک خدمت کی، کبھی آپ نے مجھ سے ”اُف“ تک نہ کہا۔ نہ کسی چیز کے کر گزرنے پر یہ کہا کہ تم نے ایسا کیوں کیا، ایسا کیوں نہیں کیا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم میں نے دیباج و حریر سے زیادہ نرم ملائم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کو پایا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینے کی خوشبو کو ہر قسم کی خوشبو سے اچھا پایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 63]» یہ متفق علیہ روایت ہے، تخریج پچھلی حدیث میں گزر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [مسند ابي يعلی 2992] و [صحيح ابن حبان 2893]
وضاحت: (تشریح حدیث 63) اس حدیث سے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، جنہوں نے دس سال تک پیغمبرِ اسلام کی خدمت کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ کریمانہ اور حسنِ سلوک کی واضح دلیل کہ خادم کو بھی کبھی اُف نہ کہا، اور نہ کبھی یہ کہا: ایسا کیوں کیا، ایسا کیوں نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک کا نرم و ملائم ہونا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینے کی خوشبو کا بے حد خوشبودار ہونا بھی اس صحیح حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يزيد الرفاعي، حدثنا ابو بكر، عن حبيب بن خدرة، حدثني رجل من بني حريش، قال: كنت مع ابي حين رجم رسول الله صلى الله عليه وسلم ماعز بن مالك رضي الله عنه، فلما اخذته الحجارة ارعبت، "فضمني إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسال علي من عرق إبطه مثل ريح المسك".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الرِّفَاعِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ خُدْرَةَ، حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي حُرَيْشٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ أَبِي حِينَ رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاعِزَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَلَمَّا أَخَذَتْهُ الْحِجَارَةُ أُرْعِبْتُ، "فَضَمَّنِي إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَالَ عَلَيَّ مِنْ عَرَقِ إِبْطِهِ مِثْلُ رِيحِ الْمِسْكِ".
حبیب بن خدرہ سے مروی ہے کہ بنوحریش کے ایک آدمی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کو رجم کیا تو میں اپنے والد کے ساتھ تھا جب ماعز رضی اللہ عنہ کے پتھر لگا میرے اوپر خوف طاری ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چمٹا لیا، آپ کی بغل سے میرے اوپر آپ کا پسینہ آ گیا جس کی خوشبو مشک کی خوشبو کے مثل تھی۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير حبيب بن خدرة، [مكتبه الشامله نمبر: 64]» حبیب بن خدره تابعی کے علاوہ تمام راوی اس روایت کے ثقہ ہیں۔
وضاحت: (تشریح حدیث 64) اس روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بچوں سے محبت و شفقت ثابت ہوتی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير حبيب بن خدرة
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا زهير، عن ابي إسحاق، عن البراء، قال: ساله رجل: ارايت كان وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم مثل السيف؟، قال: "لا، مثل القمر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ: سَأَلَهُ رَجُلٌ: أَرَأَيْتَ كَانَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ السَّيْفِ؟، قَالَ: "لَا، مِثْلَ الْقَمَرِ".
سیدنا براء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو تلوار کی طرح دیکھا (یعنی کیا آپ کا چہرہ تلوار کی طرح لمبا اور پتلا تھا؟) انہوں نے کہا: نہیں، آپ کا چہرہ مبارک تو چودہویں کے چاند کی طرح (گول اور خوبصورت) تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 65]» یہ روایت صحیح ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 3552] و [صحيح ابن حبان 6287]
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا شريك، عن الاعمش، عن إبراهيم، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم: "يعرف بالليل بطيب الريح".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يُعْرَفُ بِاللَّيْلِ بِطيبِ الرِّيحِ".
ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں بھی اپنی خوشبو کی وجہ سے پہچان لئے جاتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن إلى إبراهيم وهو موقوف عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 66]» یہ روایت موقوف ہے اور اس کو [ابن ابي شيبة 25/9] نے ذکر کیا ہے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو صحيح احادیث سے ثابت ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن إلى إبراهيم وهو موقوف عليه
روایت ہے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی راستے سے گزر جاتے تو آپ کے پیچھے جو بھی اس راستے سے گزرتا وہ آپ کی خوشبو یا آپ کے پسینے کی خوشبو کی وجہ سے پہچان لیتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس راستے سے گزرے ہیں۔
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 67]» اس روایت کی سند میں دو راوی ایسے نئے ہیں جن کے بارے میں کوئی جرح و تعدیل نہیں، اور وہ ہیں اسحاق الہاشمی اور مغیره بن عطيہ اور اسے امام بخاری نے [التاريخ الكبير 399/1] میں ذکر کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 65 سے 67) ان تمام روایات سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو ثابت ہے، گرچہ ان روایات میں کچھ کلام ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینے کی خوشبو حدیث سے ثابت ہے، جیسے حدیث سیدہ اُم انس اور سیدہ اُم سلیم رضی اللہ عنہما میں ہے جو صحيح مسلم (2331) میں ہے، اور امام بخاری رحمۃ الله علیہ (3061) نے بھی ایسا ہی ذکر کیا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
(حديث مرفوع) اخبرنا جعفر بن عون، اخبرنا محمد بن عمرو الليثي، عن ابي سلمة، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم: ياكل الهدية، ولا يقبل الصدقة، فاهدت له امراة من يهود خيبر شاة مصلية، فتناول منها، وتناول منها بشر بن البراء، ثم رفع النبي صلى الله عليه وسلم يده، ثم قال: "إن هذه تخبرني انها مسمومة"، فمات بشر بن البراء فارسل إليها النبي صلى الله عليه وسلم:"ما حملك على ما صنعت؟"، فقالت: إن كنت نبيا لم يضرك شيء، وإن كنت ملكا، ارحت الناس منك، فقال: في مرضه:"ما زلت من الاكلة التي اكلت بخيبر، فهذا اوان انقطاع ابهري".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو اللَّيْثِيُّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَأْكُلُ الْهَدِيَّةَ، وَلَا يَقْبَلُ الصَّدَقَةَ، فَأَهْدَتْ لَهُ امْرَأَةٌ مِنْ يَهُودِ خَيْبَرَ شَاةً مَصْلِيَّةً، فَتَنَاوَلَ مِنْهَا، وَتَنَاوَلَ مِنْهَا بِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ، ثُمَّ رَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ، ثُمَّ قَالَ: "إِنَّ هَذِهِ تُخْبِرُنِي أَنَّهَا مَسْمُومَةٌ"، فَمَاتَ بِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"مَا حَمَلَكِ عَلَى مَا صَنَعْتِ؟"، فَقَالَتْ: إِنْ كُنْتَ نَبِيًّا لَمْ يَضُرَّكَ شَيْءٌ، وَإِنْ كُنْتَ مَلِكًا، أَرَحْتُ النَّاسَ مِنْكَ، فَقَالَ: فِي مَرَضِهِ:"مَا زِلْتُ مِنْ الْأَكْلَةِ الَّتِي أَكَلْتُ بِخَيْبَرَ، فَهَذَا أَوَانُ انْقِطَاعِ أَبْهَرِي".
سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ (کی چیز) کھا لیتے تھے لیکن صدقہ قبول نہیں فرماتے تھے، خیبر کی ایک یہودی عورت نے بھنی ہوئی زہریلی بکری کا ہدیہ پہنچایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا بشر بن البراء رضی اللہ عنہ نے اس میں سے کچھ تناول فرما لیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اٹھا لیا اور فرمایا: ”اس بکری نے مجھے خبر دی ہے کہ اس میں زہر ملایا گیا ہے۔“ چنانچہ اس کے اثر سے سیدنا بشر بن براء رضی اللہ عنہ تو فوت ہو گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو بلایا اور دریافت کیا کہ ”تم نے ایسا کیوں کیا؟“ اس عورت نے جواب دیا: اگر آپ (سچے) نبی ہیں تو یہ آپ کو کوئی تکلیف نہیں دے گی اور اگر بادشاہ ہیں تو ہمیں آپ سے (چھٹکارہ) راحت مل جائے گی۔ آپ اپنے مرض الموت میں فرمایا کرتے تھے: ”خیبر میں میں نے جو گوشت کھایا تھا اس کا اثر اور الم اب محسوس کرتا ہوں اور اب میری شریان پھٹنے کا وقت آگیا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن وهو مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 68]» یہ روایت مرسل ہے لیکن حسن ہے۔ اسے [أبوداؤد 4511]، [ابن سعد 112/1] اور بیہقی نے [دلائل النبوة 262/4] میں ذکر کیا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن وهو مرسل
(حديث مرفوع) اخبرنا الحكم بن نافع، اخبرنا شعيب بن ابي حمزة، عن الزهري، قال: كان جابر بن عبد الله رضي الله عنه يحدث، ان يهودية من اهل خيبر سمت شاة مصلية، ثم اهدتها إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فاخذ النبي صلى الله عليه وسلم منها الذراع فاكل منها، واكل الرهط من اصحابه معه، ثم قال لهم النبي صلى الله عليه وسلم: "ارفعوا ايديكم"، وارسل النبي صلى الله عليه وسلم إلى اليهودية فدعاها، فقال لها:"اسممت هذه الشاة؟"، فقالت: نعم، ومن اخبرك؟، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"اخبرتني هذه في يدي: للذراع"، قالت: نعم، قال:"فماذا اردت إلى ذلك؟"، قالت: قلت: إن كان نبيا لم يضره، وإن لم يكن نبيا، استرحنا منه،"فعفا عنها رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولم يعاقبها"، وتوفي بعض اصحابه الذين اكلوا من الشاة،"واحتجم النبي صلى الله عليه وسلم على كاهله من اجل الذي اكل من الشاة"، حجمه ابو هند مولى بني بياضة، بالقرن والشفرة، وهو من بني ثمامة، وهم حي من الانصار.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: كَانَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يُحَدِّثُ، أَنَّ يَهُودِيَّةً مِنْ أَهْلِ خَيْبَرَ سَمَّتْ شَاةً مَصْلِيَّةً، ثُمَّ أَهْدَتْهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا الذِّرَاعَ فَأَكَلَ مِنْهَا، وَأَكَلَ الرَّهْطُ مِنْ أَصْحَابِهِ مَعَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "ارْفَعُوا أَيْدِيَكُمْ"، وَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَهُودِيَّةِ فَدَعَاهَا، فَقَالَ لَهَا:"أَسَمَمْتِ هَذِهِ الشَّاةَ؟"، فَقَالَتْ: نَعَمْ، وَمَنْ أَخْبَرَكَ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَخْبَرَتْنِي هَذِهِ فِي يَدِيَ: لِلذِّرَاعِ"، قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ:"فَمَاذَا أَرَدْتِ إِلَى ذَلِكَ؟"، قَالَتْ: قُلْتُ: إِنْ كَانَ نَبِيًّا لَمْ يَضُرَّهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ نَبِيًّا، اسْتَرَحْنَا مِنْهُ،"فَعَفَا عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يُعَاقِبْهَا"، وَتُوُفِّيَ بَعْضُ أَصْحَابِهِ الَّذِينَ أَكَلُوا مِنْ الشَّاةِ،"وَاحْتَجَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى كَاهِلِهِ مِنْ أَجْلِ الَّذِي أَكَلَ مِنْ الشَّاةِ"، حَجَمَهُ أَبُو هِنْدٍ مَوْلَى بَنِي بَيَاضَةَ، بِالْقَرْنِ وَالشَّفْرَةِ، وَهُوَ مِنْ بَنِي ثُمَامَةَ، وَهُمْ حَيٌّ مِنْ الْأَنْصَارِ.
امام زہری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے کہ خیبر کی ایک یہودی عورت نے بھنی ہوئی بکری زہر آلود کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ کی، آپ نے اس کا دستانہ لے کر کچھ گوشت تناول فرمایا اور آپ کے ساتھ چند صحابہ نے بھی کھایا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”(بس) اپنے ہاتھ روک لو“، اور آپ نے اس عورت کو بلایا اور دریافت کیا: ”کیا تم نے اس بکری میں زہر ملایا تھا؟“ اس نے جواب دیا ہاں، لیکن آپ کو کس نے بتایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ سے خود اس دستانے (دست کا گوشت) نے کہا جو میرے ہاتھ میں ہے“، اس نے کہا: بیشک میں نے زہر ملایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تیرا ارادہ کیا تھا؟“، وہ بولی میں نے سوچا اگر آپ نبی ہیں تو زہر آپ کو نقصان نہ دے گا اور اگر نبی نہیں ہیں تو ہم کو آپ کی طرف سے راحت مل جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا قصور معاف فرما دیا اور اس کو کچھ سزا نہ دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے بعض وہ لوگ جنہوں نے وہ گوشت کھا لیا تھا، وفات پا گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی زہر کی وجہ سے اپنے پچھنے لگوائے۔ ابوہند نے گائے کی سینگ اور چھری سے پچھنے لگائے (ابوہند انصار کے ایک قبیلہ بنو بیاضہ کے آزاد کردہ غلام تھے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه الزهري لم يسمع من جابر فيما نعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 69]» یہ حدیث منقطع اور ضعیف ہے۔ [أبوداؤد 4510] اور [دلائل النبوة للبيهقي 262/4] میں اسی سند سے مذکور ہے۔ لیکن آنے والی حدیث اس کی شاہد ہو سکتی ہے جسے امام احمد و بخاری وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه الزهري لم يسمع من جابر فيما نعلم
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: لما فتحت خيبر، اهديت لرسول الله صلى الله عليه وسلم شاة فيها سم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اجمعوا لي من كان ها هنا من اليهود"، فجمعوا له، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إني سائلكم عن شيء فهل انتم صادقي عنه؟"، قالوا: نعم، يا ابا القاسم، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم:"من ابوكم؟"، قالوا: ابونا فلان، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"كذبتم، بل ابوكم فلان"، قالوا: صدقت وبررت، فقال لهم:"هل انتم صادقي عن شيء إن سالتكم عنه؟"، فقالوا: نعم، وإن كذبناك، عرفت كذبنا كما عرفته في آبائنا، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم:"فمن اهل النار؟"، فقالوا: نكون فيها يسيرا ثم تخلفوننا فيها، قال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم:"اخسئوا فيها، والله لا نخلفكم فيها ابدا"، ثم قال لهم:"هل انتم صادقي عن شيء إن سالتكم عنه؟"، قالوا: نعم، قال:"هل جعلتم في هذه الشاة سما؟"، قالوا: نعم، قال:"ما حملكم على ذلك؟"، قالوا: اردنا إن كنت كاذبا ان نستريح منك، وإن كنت نبيا لم يضرك.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا فُتِحَتْ خَيْبَرَ، أُهْدِيَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاةٌ فِيهَا سُمٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اجْمَعُوا لِي مَنْ كَانَ هَا هُنَا مِنْ الْيَهُودِ"، فَجُمِعُوا لَهُ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنِّي سَائِلُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَهَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْهُ؟"، قَالُوا: نَعَمْ، يَا أَبَا الْقَاسِمِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"مَنْ أَبُوكُمْ؟"، قَالُوا: أَبُونَا فُلَانٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"كَذَبْتُمْ، بَلْ أَبُوكُمْ فُلَانٌ"، قَالُوا: صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ، فَقَالَ لَهُمْ:"هَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْ شَيْءٍ إِنْ سَأَلْتُكُمْ عَنْهُ؟"، فَقَالُوا: نَعَمْ، وَإِنْ كَذَبْنَاكَ، عَرَفْتَ كَذِبَنَا كَمَا عَرَفْتَهُ فِي آبَائِنَا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"فَمَنْ أَهْلُ النَّارِ؟"، فَقَالُوا: نَكُونُ فِيهَا يَسِيرًا ثُمَّ تَخْلِفُونَنا فِيهَا، قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"اخْسَئُوا فِيهَا، وَاللَّهِ لَا نَخْلِفُكُمْ فِيهَا أَبَدًا"، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ:"هَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْ شَيْءٍ إِنْ سَأَلْتُكُمْ عَنْهُ؟"، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:"هَلْ جَعَلْتُمْ فِي هَذِهِ الشَّاةِ سُمًّا؟"، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:"مَا حَمَلَكُمْ عَلَى ذَلِكَ؟"، قَالُوا: أَرَدْنَا إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا أَنْ نَسْتَرِيحَ مِنْكَ، وَإِنْ كُنْتَ نَبِيًّا لَمْ يَضُرَّكَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب خیبر فتح ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک زہر آلود بکری ہدیہ کی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہاں جتنے یہودی ہیں سب کو میرے پاس جمع کرو“، چنانچہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع کئے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم سے ایک بات پوچھنے والا ہوں، کیا تم مجھے صحیح صحیح جواب دو گے؟“ انہوں نے کہا ہاں اے ابوالقاسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہارا پردادا کون ہے؟“ انہوں نے جواب دیا کہ فلاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے جھوٹ کہا، تمہارا پردادا تو فلاں ہے“، اس پر وہ بولے آپ نے سچ اور درست فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”اگر میں تم سے کوئی اور سوال کروں تو کیا تم سچ سچ بتاؤ گے؟“ انہوں نے کہا ہاں اور اگر ہم جھوٹ بولیں بھی تو آپ ہمارا جھوٹ پکڑ لیں گے، جیسا کہ ابھی پردادا کے بارے میں آپ نے ہمارا جھوٹ پکڑ لیا، آپ نے ان سے پوچھا: ”دوزخ میں رہنے والے کون لوگ ہیں؟“ انہوں نے کہا: کچھ دن کے لئے تو ہم اس میں رہیں گے پھر آپ لوگ ہماری جگہ لے لیں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس میں ذلت کے ساتھ پڑے رہو گے، واللہ ہم اس میں تمہاری جگہ کبھی نہ لیں گے“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”اگر میں تم سے ایک اور بات پوچھوں تو کیا تم مجھے صحیح بات بتا دو گے؟“ انہوں نے کہا: ہاں (ضرور) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”تم نے اس بکری میں زہر ملایا تھا؟“ انہوں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں اس کام پر کس (جذبے) نے ابھارا؟“ انہوں نے کہا: ہمارا مقصد یہ تھا کہ اگر آپ جھوٹے ہوں گے تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپ ”سچے“ نبی ہوں گے تو آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 70]» اس حدیث کی یہ سند ضعیف ہے لیکن ہو بہو یہی حدیث [مسند أحمد 451/2] و [صحيح بخاري 5777] میں دوسری سند سے موجود ہے اور اسے بغوی نے [شرح السنة 3807] اور بیہقی نے [دلائل النبوة 256/4] میں ذکر کیا ہے اس لئے حدیث صحیح ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 67 سے 70) اس حدیث سے یہود کی دروغ گوئی ثابت ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ کہ مذبوحہ بھنی ہوئی بکری اور گوشت نے خبر دے دی کہ مسمومہ (زہریلی) ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عالم الغیب نہ ہونا ثابت ہوتا ہے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم ہوتا تو کیوں تناول فرماتے، اور جیسا کہ یہ پچھلی روایت میں مذکور ہے مرض الموت میں اس کا اثر محسوس فرماتے رہے۔ فرمانِ الٰہی ہے: ﴿وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ﴾[الاعراف: 188] ”اگر میں غیب جانتا تو بہت سی بھلائیاں جمع کر لیتا اور مجھ کو کوئی برائی نہ چھو سکتی۔“ ایک روایت میں ہے کہ زہر آلود کرنے والی یہودیہ عورت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بشر بن البراء رضی اللہ عنہ کے قتل کے بدلے قتل کرادیا تھا، دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو معاف کر دیا تھا، جیسا کہ امام زہری کی روایت میں ہے۔ اگرچہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے، لیکن اگر صحیح مان بھی لیا جائے تو ہو سکتا ہے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کر دیا، لیکن جب سیدنا بشر رضی اللہ عنہ اس کے زہر سے فوت (شہید) ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی عورت کو قصاصاً قتل کر دیا ہو۔ واللہ اعلم
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح ولكن الحديث صحيح