سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
مقدمہ
حدیث نمبر: 311
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا يحيى بن حسان، حدثنا عبد الله بن إدريس، عن إسماعيل بن ابي حكيم، قال: سمعت عمر بن عبد العزيز، يقول: "من جعل دينه غرضا للخصومات، اكثر التنقل".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي حَكِيمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، يَقُولُ: "مَنْ جَعَلَ دِينَهُ غَرَضًا لِلْخُصُومَاتِ، أَكْثَرَ التَّنَقُّلَ".
اسماعیل بن ابی حکیم نے کہا: میں نے عمر بن عبدالعزیز کو سنا، وہ فرماتے تھے: جس نے اپنے دین کو جھگڑوں کا نشانہ بنایا (اس کا) تنقل زیادہ ہو گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 312]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 273/5]، [إبانة 566-569]، [أصول اعتقاد أهل السنة 216]، [الشريعة ص: 62]، [الفقيه 235/1]، [جامع بيان العلم 1770]

وضاحت:
(تشریح احادیث 301 سے 311)
تنقل کا معنی ایک جگہ سے دوسری جگ منتقل ہونا یا ایک رائے سے دوسری رائے کی طرف منتقل ہونا ہے، یعنی بار بار اپنی رائے یا قول بدلنا ہے۔
«كما قاله الدارمي» ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 312
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا مروان بن محمد، حدثنا سعيد بن عبد العزيز، قال: كتب عمر بن عبد العزيز إلى اهل المدينة: "انه من تعبد بغير علم، كان ما يفسد اكثر مما يصلح، ومن عد كلامه من عمله، قل كلامه إلا فيما يعنيه، ومن جعل دينه غرضا للخصومات، كثر تنقله".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: كَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِلَى أَهْلِ الْمَدِينَةِ: "أَنَّهُ مَنْ تَعَبَّدَ بِغَيْرِ عِلْمٍ، كَانَ مَا يُفْسِدُ أَكْثَرَ مِمَّا يُصْلِحُ، وَمَنْ عَدَّ كَلَامَهُ مِنْ عَمَلِهِ، قَلَّ كَلَامُهُ إِلَّا فِيمَا يَعْنِيهِ، وَمَنْ جَعَلَ دِينَهُ غَرَضًا لِلْخُصُومَاتِ، كَثُرَ تَنَقُّلُهُ".
عمر بن عبدالعزيز رحمہ اللہ نے اہل مدینہ کو لکھا کہ جو شخص بنا علم عبادت کرے (یا عبادت کے لئے علاحدگی اختیار کرے) وہ اصلاح سے زیادہ بگاڑ پھیلائے گا، اور جو اپنے کلام کا عمل سے موازنہ کرے تو اس کا کلام بقدر ضرورت ہو جائے گا، اور جو اپنے دین کو جھگڑوں کا نشانہ بنائے اس کا تنقل زیادہ ہو جائے گا۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع سعيد بن عبد العزيز لم يدرك عمر بن عبد العزيز فيما نعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 313]»
اس روایت کی سند میں انقطاع ہے، لیکن رجال ثقات ہیں۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 132]، [الفقيه 19/1]، [الزهد لأحمد 302] خطیب کا شاہد صحیح ہے اس لئے اس روایت کا معنی صحیح ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع سعيد بن عبد العزيز لم يدرك عمر بن عبد العزيز فيما نعلم
حدیث نمبر: 313
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن جعفر بن برقان، عن عمر بن عبد العزيز، قال: ساله رجل عن شيء من الاهواء، فقال: "عليك بدين الاعرابي، والغلام في الكتاب، واله عما سوى ذلك"، قال ابو محمد: كثر تنقله، اي: ينتقل من راي إلى راي.(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: سَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ شَيْءٍ مِنْ الْأَهْوَاءِ، فَقَالَ: "عَلَيْكَ بِدِينِ الْأَعْرَابِيِّ، وَالْغُلَامِ فِي الْكُتَّابِ، وَالْهَ عَمَّا سِوَى ذَلِكَ"، قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: كَثُرَ تَنَقُّلُهُ، أَيْ: يَنْتَقِلُ مِنْ رَأْيٍ إِلَى رَأْيٍ.
جعفر بن برقان سے مروی ہے عمر بن عبدالعزيز رحمہ اللہ سے کسی شخص نے خواہشات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا: اعرابی اور غلام کے دین کو لازم پکڑو، اور جو اس کے ماسوا ہے اسے بھول جاؤ۔ امام دارمی نے کہا: «كثر تنقله» سے مراد: ایک رائے سے دوسری رائے کی طرف منتقل ہونا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده منقطع جعفر بن برقان لم يدرك عمر بن عبد العزيز، [مكتبه الشامله نمبر: 314]»
اس روایت کی سند منقطع ہے، اور صرف لالکائی نے [شرح أصول أهل السنة 250] میں ذکر کیا ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 311 سے 313)
ان تمام روایات اور احادیث سے معلوم ہوا کہ عالمِ دین کو باعمل، متواضع، مخلص اور باوقار ہونا چاہئے، غرور، گھمنڈ، ہٹ دھرمی، خودغرضی، فضول قسم کی قیل و قال سے اسے دور رہنا چاہئے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده منقطع جعفر بن برقان لم يدرك عمر بن عبد العزيز
30. باب في اجْتِنَابِ الأَهْوَاءِ:
30. خواہشات سے پرہیز کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 314
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن كثير، عن الاوزاعي، قال: قال عمر بن عبد العزيز: "إذا رايت قوما ينتجون بامر دون عامتهم، فهم على تاسيس الضلالة".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ: "إِذَا رَأَيْتَ قَوْمًا يُنْتِجُونَ بِأَمْرٍ دُونَ عَامَّتِهِمْ، فَهُمْ عَلَى تَأْسِيسِ الضَّلَالَةِ".
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا: عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا: تم لوگوں کو جب کسی بارے میں دوسرے عام لوگوں سے کانا پھوسی کرتے دیکھو تو سمجھ لو کہ وہ گمراہی کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده منقطع الأوزاعي لم يدرك ابن عبد العزيز، [مكتبه الشامله نمبر: 315]»
اس روایت کی سند منقطع ہے۔ دیکھئے: [الزهد لأحمد ص: 289]، [شرح أصول اعتقاد أهل السنة 251]، [جامع بيان العلم 1774]

وضاحت:
(تشریح حدیث 313)
کانا پھوسی یا سرگوشی نصِ قرآنی سے منع ہے: « ﴿فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ [المجادلة: 9] » یعنی گناه و سرکشی میں کانا پھوسی نہ کرو۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده منقطع الأوزاعي لم يدرك ابن عبد العزيز
حدیث نمبر: 315
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا إبراهيم بن إسحاق، عن ابن المبارك، عن الاوزاعي، قال: "قال إبليس لاوليائه: من اي شيء تاتون بني آدم؟، فقالوا: من كل شيء، قال: فهل تاتونهم من قبل الاستغفار؟، قالوا: هيهات! ذاك شيء قرن بالتوحيد، قال: لابثن فيهم شيئا لا يستغفرون الله منه، قال: فبث فيهم الاهواء".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: "قَالَ إِبْلِيسُ لِأَوْلِيَائِهِ: مِنْ أَيِّ شَيْءٍ تَأْتُونَ بَنِي آدَمَ؟، فَقَالُوا: مِنْ كُلِّ شَيْءٍ، قَالَ: فَهَلْ تَأْتُونَهُمْ مِنْ قِبَلِ الِاسْتِغْفَارِ؟، قَالُوا: هَيْهَاتَ! ذَاكَ شَيْءٌ قُرِنَ بِالتَّوْحِيدِ، قَالَ: لَأَبُثَّنَّ فِيهِمْ شَيْئًا لَا يَسْتَغْفِرُونَ اللَّهَ مِنْهُ، قَالَ: فَبَثَّ فِيهِمْ الْأَهْوَاءَ".
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے فرمایا: ابلیس نے اپنے احباب سے کہا کہ تم انسان کو کیسے پھسلاتے (گمراہ کرتے) ہو؟ انہوں نے کہا: ہم ہر طرح سے اسے پھسلاتے ہیں، ابلیس نے کہا: کیا تم استغفار کے ذریعہ ان پر حاوی ہوتے ہو؟ (یعنی استغفار سے روک کر)، انہوں نے کہا: ہائے افسوس استغفار تو توحید سے جڑا ہے، اس سے کیسے روکیں؟ ابلیس نے کہا: میں ان کے درمیان ایسی چیزیں رائج کر دوں گا کہ وہ اس کی مغفرت طلب نہیں کریں گے، چنانچہ اس نے وہ چیزیں خواہشات کی صورت میں پھیلا دیں (یعنی خواہشات نفسانی میں انہیں الجھا کر استغفار سے بھی دور کر دیا)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 316]»
اس روایت کی یہ سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [شرح اعتقاد 237]، [العلم 389/3]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 316
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا إبراهيم بن إسحاق، عن المحاربي، عن الاعمش، عن مجاهد، قال: "ما ادري اي النعمتين علي اعظم: ان هداني للإسلام، او عافاني من هذه الاهواء".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ الْمُحَارِبِيِّ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: "مَا أَدْرِي أَيُّ النِّعْمَتَيْنِ عَلَيَّ أَعْظَمُ: أَنْ هَدَانِي لِلْإِسْلَامِ، أَوْ عَافَانِي مِنْ هَذِهِ الْأَهْوَاءِ".
مجاہد رحمہ اللہ نے فرمایا: مجھے پتہ نہیں دو میں سے کون سی نعمت میرے لئے عظیم تر ہے، مجھے الله تعالیٰ نے اسلام کی روشنی بخشی یا ان خواہشات سے محفوظ رکھا یہ عظیم نعمت ہے۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات ولكن عبد الرحمن بن محمد المحاربي مدلس وقد عنعن، [مكتبه الشامله نمبر: 317]»
اس روایت کی سند میں عبدالرحمٰن مدلس ہیں اور ”عن“ سے روایت کیا ہے۔ یہ روایت [حلية الأولياء 392/3] میں موجود ہے، اور اس کی سند بھی ضعیف ہے، لیکن اس کا شاہد [شرح اعتقاد أهل السنة 230] اور [حلية الأولياء 218/2] میں موجود ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات ولكن عبد الرحمن بن محمد المحاربي مدلس وقد عنعن
حدیث نمبر: 317
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا موسى بن خالد، حدثنا عيسى بن يونس، عن الاعمش، عن مسلم الاعور، عن حبة بن جوين، قال: سمعت عليا، او قال: قال علي رضي الله عنه: "لو ان رجلا صام الدهر كله، وقام الدهر كله، ثم قتل بين الركن والمقام، لحشره الله يوم القيامة مع من يرى انه كان على هدى".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ الْأَعْوَرِ، عَنْ حَبَّةَ بْنِ جُوَيْنٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا، أَوْ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: "لَوْ أَنَّ رَجُلًا صَامَ الدَّهْرَ كُلَّهُ، وَقَامَ الدَّهْرَ كُلَّهُ، ثُمَّ قُتِلَ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ، لَحَشَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ مَنْ يَرَى أَنَّهُ كَانَ عَلَى هُدًى".
حبہ بن جوین نے کہا: میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا یا یہ کہا: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: کوئی آدمی پوری زندگی روزے رکھے اور قیام کرے، پھر رکن یمانی اور مقام ابراہیم کے پاس قتل کر دیا جائے تو بھی اس کو الله تعالیٰ قیامت کے دن ان لوگوں کے ساتھ اٹھائے گا جن کو وہ ہدایت پر سمجھتا تھا۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 318]»
اس اثر کی سند میں مسلم بن کیسان اعور ضعیف ہیں، اور دارمی کے علاوہ کسی نے اسے روایت نہیں کیا، اس کی تائید آنے والی روایات سے ہوتی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 314 سے 317)
یعنی ہمیشہ روزہ رکھنے اور قیام کرنے والا اور شہید بھی ان لوگوں کے ساتھ نیت کے مطابق اٹھایا جائے گا جن کو وہ محبوب رکھتا تھا، جیسا کہ آگے صحیح روایت میں آ رہا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 318
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن حميد، عن هارون هو ابن المغيرة، عن شعيب، عن سلمة بن كهيل، عن ابي صادق، قال: قال سلمان رضي الله عنه: "لو وضع رجل راسه على الحجر الاسود، فصام النهار، وقام الليل، لبعثه الله يوم القيامة مع هواه".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ هَارُونَ هُوَ ابْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِي صَادِقٍ، قَالَ: قَالَ سَلْمَانُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: "لَوْ وَضَعَ رَجُلٌ رَأْسَهُ عَلَى الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ، فَصَامَ النَّهَارَ، وَقَامَ اللَّيْلَ، لَبَعَثَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ هَوَاهُ".
ابوصادق سے مروی ہے کہ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر کوئی آدمی اپنا سر حجر اسود پر رکھے اور دن کو روزہ رات کو قیام کرے تب بھی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو اس کی نیت کے مطابق اٹھائے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن حميد، [مكتبه الشامله نمبر: 319]»
اس روایت کی سند میں محمد بن حمید ضعیف ہیں، اور صرف امام دارمی کی روایت ہے، لیکن حدیث: «يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى نِيَّاتِهِمْ» سے اس کی تائید ہوتی ہے جو متفق علیہ حدیث ہے۔ دیکھئے: [بخاري: 2118]، [مسلم: 2882]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن حميد
حدیث نمبر: 319
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن الصلت، حدثنا منصور هو ابن ابي الاسود، عن الحارث بن حصيرة، عن ابي صادق الازدي، عن ربيعة بن ناجذ، قال: قال علي رضي الله عنه: "كونوا في الناس كالنحلة في الطير: إنه ليس من الطير شيء إلا وهو يستضعفها، ولو يعلم الطير ما في اجوافها من البركة، لم يفعلوا ذلك بها، خالطوا الناس بالسنتكم واجسادكم، وزايلوهم باعمالكم وقلوبكم، فإن للمرء ما اكتسب، وهو يوم القيامة مع من احب".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ هُوَ ابْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ حَصِيرَةَ، عَنْ أَبِي صَادِقٍ الْأَزْدِيِّ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِذٍ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: "كُونُوا فِي النَّاسِ كَالنَّحْلَةِ فِي الطَّيْرِ: إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ الطَّيْرِ شَيْءٌ إِلَّا وَهُوَ يَسْتَضْعِفُهَا، وَلَوْ يَعْلَمُ الطَّيْرُ مَا فِي أَجْوَافِهَا مِنْ الْبَرَكَةِ، لَمْ يَفْعَلُوا ذَلِكَ بِهَا، خَالِطُوا النَّاسَ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَأَجْسَادِكُمْ، وَزَايِلُوهُمْ بِأَعْمَالِكُمْ وَقُلُوبِكُمْ، فَإِنَّ لِلْمَرْءِ مَا اكْتَسَبَ، وَهُوَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ مَنْ أَحَبَّ".
ابوصادق نے ربیعہ بن ناجذ سے روایت کیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم لوگوں کے درمیان ایسے رہو جیسے پرندوں میں شہد کی مکھی رہتی ہے کہ ہر پرندہ اسے ضعیف و ناتواں سمجھتا ہے، اور اگر پرندے یہ جان لیں کہ اس کے پیٹ میں کیسی برکت ہے تو وہ اس کو حقیر نہ جانیں، لوگوں سے اپنی زبان، اجسام کے ساتھ میل ملاپ رکھو اور اپنے اعمال و قلوب کے ساتھ علاحدگی رکھو کیونکہ آدمی کے لئے وہی ہے جو اس نے کمایا، اور وہ قیامت کے دن اس کے ساتھ ہو گا جس سے اس نے محبت کی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو موقوف على علي، [مكتبه الشامله نمبر: 320]»
اس اثر کی سند صحیح ہے، لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے، اس لئے ہوسکتا ہے انہیں کا قول ہو، اور یہ بہترین اقوال زرین کا مجموعہ ہے، آخری جملہ «المرء مع من أحب» کے مطابق ہے۔ اس روایت کو صرف امام دارمی نے روایت کیا ہے۔ ابوصادق عبداللہ بن ناجذ الازدی ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو موقوف على علي
حدیث نمبر: 320
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا الوليد بن شجاع، حدثني بقية، عن الاوزاعي، عن الزهري، قال: "نعم وزير العلم الراي الحسن".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعٍ، حَدَّثَنِي بَقِيَّةُ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: "نِعْمَ وَزِيرُ الْعِلْمِ الرَّأْيُ الْحَسَنُ".
امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا: اچھی رائے علم کا بہترین وزیر ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 321]»
اس قول کی سند صحیح ہے، اور یہ اثر [جامع بيان العلم 1615] میں موجود ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    28    29    30    31    32    33    34    35    36    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.