سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا بات ہے میں دیکھتا ہوں تمہارے علماء اٹھتے جا رہے ہیں اور جاہل علم بھی حاصل نہیں کرتے؟ علم حاصل کرو اس سے پہلے کہ وہ اٹھا لیا جائے، علم کا اٹھنا علماء کا اٹھ جانا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه سالم لم يدرك أبا الدرداء فيما نعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 251]» اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [أحمد فى الزهد ص:144]، [جامع بيان العلم 1036، 1044]، [الحلية 212/1، 221] اس طرح مجموع طرق سے یہ صحیح ہو جاتی ہے۔ واللہ اعلم۔ نیز دیکھئے: [مجمع الزوائد 1005]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه سالم لم يدرك أبا الدرداء فيما نعلم
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں: عالم اور متعلم، جو ان کے علاوہ ہیں ان میں کوئی خیر نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه سليمان بن موسى لم يدرك أبا الدرداء، [مكتبه الشامله نمبر: 252]» اس اثر کی سند ضعیف ہے، اور [الزهد لأحمد ص: 136]، [مصنف ابن أبى شبية 6172]، [حلية الأولياء 212/1]، [جامع بيان العلم 138، 140]، [إبانة 210] میں یہ اثر موجود ہے اور «الدُّنْيَا مَلْعُوْنَةٌ مَلْعُوْنٌ مَا فِيْهَا إِلَّا ذِكْرَ اللهِ وَمَا وَالَاهْ وَعَالِمٌ وَمُتَعَلِّمٌ» سے اس قول کی تائید ہوتی ہے۔ یہ حدیث آگے (330) پر آ رہی ہے۔ اس لئے معنی صحیح ہے۔ دیکھئے: [شرح السنة 4028]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه سليمان بن موسى لم يدرك أبا الدرداء
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: بھلائی کی تعلیم دینے والا اور (بھلائی) سیکھنے والا اجر میں دونوں برابر ہیں، اور ان دونوں کے علاوہ کسی میں خیر نہیں۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 253]» اس روایت میں انقطاع ہے، لیکن معنی صحیح ہے جیسا کہ گزر چکا ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبة 6173]، [جامع بيان العلم 141]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عالم بنو یا متعلم یا پھر مستمع رہو اور چوتھے آدمی نہ بنو کہ ہلاک ہو جاؤ۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف الحسن هو البصري وقد عنعن، [مكتبه الشامله نمبر: 254]» اس اثر کی سند بھی ضعیف ہے، لیکن اس کے شواہد موجود ہیں۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبة 6171]، [المعرفة والتاريخ 399/3]، [العلم 116]، [الإحكام 1045/6]
وضاحت: (تشریح احادیث 245 سے 254) اس میں عالم، متعلم اور مستمع کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور چوتھا آدمی نہ بننے کی تلقین ہے کیونکہ اس سے ہلاکت کا خطرہ ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف الحسن هو البصري وقد عنعن
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عمرو بن عون، اخبرنا خالد، عن عطاء بن السائب، عن عبد الله بن ربيعة، قال: قال سلمان رضي الله عنه: "لا يزال الناس بخير ما بقي الاول حتى يتعلم الآخر، فإذا هلك الاول قبل ان يتعلم الآخر، هلك الناس".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رُبَيِّعَةَ، قَالَ: قَالَ سَلْمَانُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: "لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا بَقِيَ الْأَوَّلُ حَتَّى يَتَعَلَّمَ الْآخِرُ، فَإِذَا هَلَكَ الْأَوَّلُ قَبْلَ أَنْ يَتَعَلَّمَ الْآخِرُ، هَلَكَ النَّاسُ".
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (پرانے) لوگ جب تک دوسروں کو تعلیم دے کر باقی رہیں گے خیر باقی رہے گا، اور جب (پرانے) لوگ دوسروں کے علم حاصل کرنے سے پہلے چل بسے تو لوگ ہلاک ہو جائیں گے۔
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 255]» اس اثر کی تخرج رقم (248) پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
وضاحت: (تشریح حدیث 254) اس میں علم حاصل کرنے کی ترغیب ہے اور علماء کے اٹھ جانے سے ہلاکت میں پڑ جانے کی تر ہیب۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
احنف بن قیس نے کہا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرو اس سے پہلے کہ تم سردار ہو جاؤ۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 256]» اس روایت کی سند صحیح ہے، اور یہ روایت [مصنف ابن أبى شيبه 6167]، [العلم لأبي خيثمه 9]، [الزهد لوكيع 102]، [الفقيه 78/2]، [الإلماع للقاضي ص: 244]، [شعب الإيمان 1669] و [جامع بيان العلم 508، 509] میں موجود ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 255) یعنی کم عمری میں علم حاصل کرو اس سے پہلے کہ بڑے ہو جاؤ اور سردار بنا دیئے جاؤ، پھر تمہیں علم کے حصول میں شرم آئے اور تم جاہل کے جاہل بنے رہو۔
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا بقية، حدثني صفوان بن رستم، عن عبد الرحمن بن ميسرة، عن تميم الداري، رضي الله عنه، قال: تطاول الناس في البناء في زمن عمر رضي الله عنه، فقال عمر:"يا معشر العريب، الارض الارض، إنه لا إسلام إلا بجماعة، ولا جماعة إلا بإمارة، ولا إمارة إلا بطاعة، فمن سوده قومه على الفقه، كان حياة له ولهم، ومن سوده قومه على غير فقه، كان هلاكا له ولهم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ رُسْتُمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: تَطَاوَلَ النَّاسُ فِي الْبِنَاءِ فِي زَمَنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ عُمَرُ:"يَا مَعْشَرَ الْعُرَيْبِ، الْأَرْضَ الْأَرْضَ، إِنَّهُ لَا إِسْلَامَ إِلَّا بِجَمَاعَةٍ، وَلَا جَمَاعَةَ إِلَّا بِإِمَارَةٍ، وَلَا إِمَارَةَ إِلَّا بِطَاعَةٍ، فَمَنْ سَوَّدَهُ قَوْمُهُ عَلَى الْفِقْهِ، كَانَ حَيَاةً لَهُ وَلَهُمْ، وَمَنْ سَوَّدَهُ قَوْمُهُ عَلَى غَيْرِ فِقْهٍ، كَانَ هَلَاكًا لَهُ وَلَهُمْ".
سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ نے کہا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ عمارت بنانے میں فخر کرنے لگے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے عرب کے لوگو! زمین سے بچو، زمین سے بچو، اسلام بِنا جماعت کے قائم نہیں رہ سکتا، اور جماعت بغیر حکومت کے، اور حکومت و امارت بغیر اطاعت کے قائم نہیں رہ سکتی، پس جس کو اس کی قوم نے (علم و فقہ) کی بنا پر سردار بنایا وہ اس کے اور قوم کے لئے زندگی ہے، اور جس کو اس کی قوم نے فقہ نہ ہونے پر سردار بنایا یہ اس کی اور اس قوم کی ہلاکت ہے۔
تخریج الحدیث: «في إسناده علتان: الأولى جهالة صفوان بن رستم والثانية الانقطاع. وعبد الرحمن بن ميسرة لم يدرك تميما الداري، [مكتبه الشامله نمبر: 257]» اس روایت کی سند میں دو علتیں ہیں جن کے سبب ضعیف ہے، اور ابن عبدالبر نے [جامع بيان العلم 326] میں اس کو ذکر کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 256) ان تمام احادیث و آثار سے علمائے کرام کی قدر و قیمت ثابت ہوتی ہے، علماء نہ رہیں گے تو علم بھی نہ رہے گا، نیز ان میں علم حاصل کرنے کی ترغیب بھی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده علتان: الأولى جهالة صفوان بن رستم والثانية الانقطاع. وعبد الرحمن بن ميسرة لم يدرك تميما الداري
(حديث مرفوع) اخبرنا اخبرنا محمد بن المبارك، اخبرنا بقية، حدثنا صدقة بن عبد الله بن صهيب، ان المهاصر بن حبيب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قال الله تعالى: "إني لست كل كلام الحكيم اتقبل، ولكني اتقبل همه وهواه، فإن كان همه وهواه في طاعتي، جعلت صمته حمدا لي ووقارا، وإن لم يتكلم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صُهَيْبٍ، أَنَّ الْمُهَاصِرَ بْنَ حَبِيبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: "إِنِّي لَسْتُ كُلَّ كَلَامِ الْحَكِيمِ أَتَقَبَّلُ، وَلَكِنِّي أَتَقَبَّلُ هَمَّهُ وَهَوَاهُ، فَإِنْ كَانَ هَمُّهُ وَهَوَاهُ فِي طَاعَتِي، جَعَلْتُ صَمْتَهُ حَمْدًا لِي وَوَقَارًا، وَإِنْ لَمْ يَتَكَلَّمْ".
مہاجر بن حبیب نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”میں ہر دانا کے کلام کو قبول نہیں کر لیتا ہوں، بلکہ اس کے ارادے اور خواہش کو قبول کرتا ہوں، اگر اس کے ارادے و خواہش میری اطاعت میں ہوتے ہیں تو میں اس کی خاموشی کو بھی حمد و ثنا اور وقار بنا دیتا ہوں چاہے وہ چپ ہی رہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف صدقة بن عبد الله ضعيف والحديث مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 258]» اس حدیث کی سند ضعیف ہے، اور امام دارمی رحمہ اللہ کے علاوہ کسی نے ذکر نہیں کیا۔ بعض نسخ میں مہاصر (بالصاد) بن ابی حبیب ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 257) اس روایت کی سند گرچہ ضعیف ہے لیکن سطرِ اوّل کا معنی صحیح ہے، جیسا کہ آیتِ شریفہ میں ہے: « ﴿لَنْ يَنَالَ اللّٰهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ﴾[الحج: 37] »(ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ کو نہ تمہاری قربانیوں کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ان کے خون، بلکہ اس کو تو تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔ “) نیز صحیح حدیث میں ہے: «إِنَّ اللّٰهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَلَا إِلَى أَجْسَامِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ، وَأَعْمَالِكُمْ» ترجمہ: ”بیشک الله تعالیٰ نہ تمہاری صورتوں کی طرف دیکھتا ہے نہ تمہارے جسموں کی طرف دیکھتا ہے۔ ہاں وہ تمہارے دل اور اعمال کو دیکھتا ہے۔ “[مسلم: 2564]، [ابن ماجه 4143] اور آخری سطر ”اس کی خامشی کو حمد و وقار بنا دیتا ہوں“ اس کا مرفوع ہونا محل نظر ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف صدقة بن عبد الله ضعيف والحديث مرسل
(حديث قدسي) اخبرنا اخبرنا مخلد بن مالك، عن حجاج بن محمد، عن ليث بن سعد، عن معاوية بن صالح، عن ابي الزاهرية، يرفع الحديث، ان الله قال: "ابث العلم في آخر الزمان حتى يعلمه الرجل والمراة، والعبد والحر، والصغير والكبير، فإذا فعلت ذلك بهم، اخذتهم بحقي عليهم".(حديث قدسي) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ لَيْثِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ أَبِي الزَّاهِرِيَّةِ، يَرْفَعُ الْحَدِيثَ، أَنَّ اللَّهَ قَالَ: "أَبُثُّ الْعِلْمَ فِي آخِرِ الزَّمَانِ حَتَّى يَعْلَمَهُ الرَّجُلُ وَالْمَرْأَةُ، وَالْعَبْدُ وَالْحُرُّ، وَالصَّغِيرُ وَالْكَبِيرُ، فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ بِهِمْ، أَخَذْتُهُمْ بِحَقِّي عَلَيْهِمْ".
ابوزاہریہ (حدیر بن کریب) نے مرفوعاً روایت کیا: الله تعالیٰ نے فرمایا: ”میں آخری زمانے میں علم کو پھیلاؤں گا یہاں تک کہ مرد، عورت، غلام اور آزاد، چھوٹے اور بڑے سب علم حاصل کریں گے، پھر جب ایسا کر لوں گا تو میں انہیں اپنے حق کے عوض پکڑ لوں گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى أبي الزاهرية حدير بن كريب وهو مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 259]» یہ مرسل روایت ہے اور سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 1210]، [حلية الأولياء 100/6]
وضاحت: (تشریح حدیث 258) جیسا کہ آیتِ شریفہ میں ہے: « ﴿وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا﴾[الإسراء: 15] » یعنی اللہ تعالیٰ کی پکڑ اور اس کا عذاب حجت تمام ہونے کے بعد ہی آتی ہے جو وہ رسول بھیج کر پوری فرماتا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى أبي الزاهرية حدير بن كريب وهو مرسل
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا مخلد بن مالك، حدثنا مخلد بن حسين، عن هشام، عن الحسن، قال: "من طلب شيئا من هذا العلم، فاراد به ما عند الله، يدرك إن شاء الله، ومن اراد به الدنيا، فذاك والله حظه منه".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ، حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: "مَنْ طَلَبَ شَيْئًا مِنْ هَذَا الْعِلْمِ، فَأَرَادَ بِهِ مَا عِنْدَ اللَّهِ، يُدْرِكْ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، وَمَنْ أَرَادَ بِهِ الدُّنْيَا، فَذَاكَ وَاللَّهِ حَظُّهُ مِنْهُ".
امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا: جس نے الله تعالیٰ سے اجر کی نیت سے اس علم میں سے کچھ طلب کیا، اللہ چاہے گا تو وہ اسے (علم دین کو) حاصل کر لے گا، اور جس نے اس علم کے ذریعہ دنیا حاصل کرنے کی نیت رکھی، تو قسم اللہ کی اس کو دنیا مل جائے گی۔ یعنی «﴿وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ﴾»[بقره: 200/2] آخرت میں ان کا کچھ حصہ نہ ہو گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 260]» یہ حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [اقتضاء العلم والعمل للخطيب 103]، مزید وضاحت (263) میں آ رہی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحسن