حدثنا عبد الله بن صالح، قال: حدثني معاوية بن صالح، عن كثير بن الحارث، عن القاسم بن عبد الرحمن الشامي، سمعت ابن ام عبد، يقول: من اغتيب عنده مؤمن فنصره جزاه الله بها خيرا في الدنيا والآخرة، ومن اغتيب عنده مؤمن فلم ينصره جزاه الله بها في الدنيا والآخرة شرا، وما التقم احد لقمة شرا من اغتياب مؤمن، إن قال فيه ما يعلم، فقد اغتابه، وإن قال فيه بما لا يعلم فقد بهته۔حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الشَّامِيِّ، سَمِعْتُ ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ، يَقُولُ: مَنِ اغْتِيبَ عِنْدَهُ مُؤْمِنٌ فَنَصَرهُ جَزَاهُ اللَّهُ بِهَا خَيْرًا فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، وَمَنِ اغْتِيبَ عِنْدَهُ مُؤْمِنٌ فَلَمْ يَنْصُرْهُ جَزَاهُ اللَّهُ بِهَا فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ شَرًّا، وَمَا الْتَقَمَ أَحَدٌ لُقْمَةً شَرًّا مِنَ اغْتِيَابِ مُؤْمِنٍ، إِنْ قَالَ فِيهِ مَا يَعْلَمُ، فَقَدِ اغْتَابَهُ، وَإِنْ قَالَ فِيهِ بِمَا لا يَعْلَمُ فَقَدْ بَهَتَهُ۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: جس کی موجودگی میں کسی مومن کی غیبت کی گئی اور اس نے اس کی مدد کی اللہ تعالیٰ اس کو دنیا و آخرت میں جزا دے گا۔ اور جس کی موجودگی میں کسی مسلمان کی غیبت کی گئی اور اس نے مدد نہ کی، یعنی دفاع نہ کیا، اللہ تعالیٰ اسے دنیا و آخرت میں برا بدلہ دے گا۔ اور کسی نے مومن کی غیبت سے بڑھ کر کوئی برا لقمہ منہ میں نہیں لیا۔ اگر اس نے ایسی بات کی جو وہ جانتا ہے تو اس نے اس کی غیبت کی، اور اگر اس نے ایسی بات کی جو اس کو معلوم نہیں تو اس نے اس پر بہتان لگایا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن وهب فى الجامع: 311»
حدثنا محمد بن يوسف، قال: حدثنا النضر، قال: حدثنا ابو العوام عبد العزيز بن ربيع الباهلي، قال: حدثنا ابو الزبير محمد، عن جابر بن عبد الله، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاتى على قبرين يعذب صاحباهما، فقال: ”إنهما لا يعذبان في كبير، وبلى، اما احدهما فكان يغتاب الناس، واما الآخر فكان لا يتاذى من البول“، فدعا بجريدة رطبة، او بجريدتين، فكسرهما، ثم امر بكل كسرة فغرست على قبر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”اما إنه سيهون من عذابهما ما كانتا رطبتين، او: لم تيبسا.“حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْعَوَّامِ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ رَبِيعٍ الْبَاهِلِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ مُحَمَّدٌ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَى عَلَى قَبْرَيْنِ يُعَذَّبُ صَاحِبَاهُمَا، فَقَالَ: ”إِنَّهُمَا لا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، وَبَلَى، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ يَغْتَابُ النَّاسَ، وَأَمَّا الآخَرُ فَكَانَ لا يَتَأَذَّى مِنَ الْبَوْلِ“، فَدَعَا بِجَرِيدَةٍ رَطْبَةٍ، أَوْ بِجَرِيدَتَيْنِ، فَكَسَرَهُمَا، ثُمَّ أَمَرَ بِكُلِّ كِسْرَةٍ فَغُرِسَتْ عَلَى قَبْرٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”أَمَا إِنَّهُ سَيُهَوَّنُ مِنْ عَذَابِهِمَا مَا كَانَتَا رَطْبَتَيْنِ، أَوْ: لَمْ تَيْبَسَا.“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس آئے جن قبروں والوں کو عذاب ہو رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں کسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں ہو رہا۔ کیوں نہیں، وہ واقعی بڑا ہے (لیکن یہ بڑا نہیں سمجھتے تھے)۔ ان میں سے ایک لوگوں کی غیبت کرتا تھا، اور دوسرا پیشاب سے تکلیف محسوس نہیں کرتا تھا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یا دو تازہ ٹہنیاں منگوائیں اور ان دونوں کو توڑا، پھر ہر ٹکڑے کے متعلق حکم دیا تو ہر ایک کو قبر پر گاڑ دیا گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب ان سے عذاب کو ہلکا کر دیا جائے گا جب تک وہ سبز رہیں گی یا خشک نہیں ہوں گی۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن أبى الدنيا فى الصمت: 176 و أبويعلي: 2046 و بعضه فى صحيح المصنف: 218 و مسلم: 292 - انظر التعليق الرغيب: 86/1 و المشكاة: 110/1»
حدثنا ابن نمير، قال: حدثني ابي، قال: حدثنا إسماعيل، عن قيس، قال: كان عمرو بن العاص، يسير مع نفر من اصحابه، فمر على بغل ميت قد انتفخ، فقال: ”والله، لان ياكل احدكم هذا حتى يملا بطنه، خير من ان ياكل لحم مسلم.“حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ: كَانَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، يَسِيرُ مَعَ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَمَرَّ عَلَى بَغْلٍ مَيِّتٍ قَدِ انْتَفَخَ، فَقَالَ: ”وَاللَّهِ، لأَنْ يَأْكُلَ أَحَدُكُمْ هَذَا حَتَّى يَمْلأَ بَطْنَهُ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ مُسْلِمٍ.“
قیس رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ جا رہے تھے کہ ایک مردہ خچر کے پاس سے ان کا گزر ہوا جو (زیادہ دیر مردہ حالت میں پڑا رہنے کی وجہ سے) پھول چکا تھا۔ انہوں نے فرمایا: ”اللہ کی قسم تم میں سے کوئی یہ کھائے یہاں تک کہ اپنا پیٹ بھر لے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ مسلمان کا گوشت کھائے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن أبى شيبة: 25537 و وكيع فى الزهد: 433 و ابن أبى الدنيا فى ذم الغيبه: 39 و هناد فى الزهد: 563/2»
حدثنا عمرو بن خالد، قال: حدثنا محمد بن سلمة، عن ابي عبد الرحيم، عن زيد بن ابي انيسة، عن ابي الزبير، عن عبد الرحمن بن الهضهاض الدوسي، عن ابي هريرة، قال: جاء ماعز بن مالك الاسلمي، فرجمه النبي صلى الله عليه وسلم عند الرابعة، فمر به رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه نفر من اصحابه، فقال رجلان منهم: إن هذا الخائن اتى النبي صلى الله عليه وسلم مرارا، كل ذلك يرده، حتى قتل كما يقتل الكلب، فسكت عنهم النبي صلى الله عليه وسلم حتى مر بجيفة حمار شائلة رجله، فقال: ”كلا من هذا“، قالا: من جيفة حمار يا رسول الله؟ قال: ”فالذي نلتما من عرض اخيكما آنفا اكثر، والذي نفس محمد بيده، فإنه في نهر من انهار الجنة يتغمس.“حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحِيمِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْهَضْهَاضِ الدَّوْسِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَاءَ مَاعِزُ بْنُ مَالِكٍ الأَسْلَمِيُّ، فَرَجَمَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الرَّابِعَةِ، فَمَرَّ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ رَجُلانِ مِنْهُمْ: إِنَّ هَذَا الْخَائِنَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِرَارًا، كُلُّ ذَلِكَ يَرُدُّهُ، حَتَّى قُتِلَ كَمَا يُقْتَلُ الْكَلْبُ، فَسَكَتَ عَنْهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مَرَّ بِجِيفَةِ حِمَارٍ شَائِلَةٌ رِجْلُهُ، فَقَالَ: ”كُلا مِنْ هَذَا“، قَالا: مِنْ جِيفَةِ حِمَارٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: ”فَالَّذِي نِلْتُمَا مِنْ عِرْضِ أَخِيكُمَا آنِفًا أَكْثَرُ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، فَإِنَّهُ فِي نَهْرٍ مِنْ أَنْهَارِ الْجَنَّةِ يَتَغَمَّسُ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ماعز بن مالک اسلمی رضی اللہ عنہ آئے اور زنا کی وجہ سے سزا نافذ کرنے کی درخواست کی۔ چوتھی مرتبہ آنے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجم کر دیا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند صحابہ کے ساتھ ان کے پاس سے گزرے تو صحابہ میں سے دو آدمیوں نے کہا: یہ خائن خود بار بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر بار اسے واپس کرتے رہے حتی کہ کتے کی موت مر گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مردہ گدھے کے پاس سے گزرے، پھول جانے کی وجہ سے اس کی ٹانگ اوپر اٹھی ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دونوں اس میں سے کھاؤ۔“ انہوں نے عرض کیا: (کیا) مردہ گدھے میں سے کھائیں؟ اللہ کے رسول؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جو تم نے ابھی ابھی اپنے بھائی کی غیبت کی ہے، وہ اس سے زیادہ برا کام ہے۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، وہ جنت کی نہروں میں سے ایک نہر میں غوطے مار رہا ہے۔“
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه أبوداؤد، كتاب الحدود: 4428 و النسائي فى الكبرىٰ: 7127 - انظر الضعيفة: 6318»
حدثنا إسحاق، قال: اخبرنا حنظلة بن عمرو الزرقي المدني، قال: حدثني ابو حزرة، قال: اخبرني عبادة بن الوليد بن عبادة بن الصامت، قال: خرجت مع ابي وانا غلام شاب، فنلقى شيخا، قلت: اي عم، ما منعك ان تعطي غلامك هذه النمرة، وتاخذ البردة، فتكون عليك بردتان، وعليه نمرة؟ فاقبل على ابي، فقال: ابنك هذا؟ قال: نعم، قال: فمسح على راسي وقال: بارك الله فيك، اشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: ”اطعموهم مما تاكلون، واكسوهم مما تكتسون“، يا ابن اخي، ذهاب متاع الدنيا احب إلي من ان ياخذ من متاع الآخرة"، قلت: اي ابتاه، من هذا الرجل؟ قال: ابو اليسر بن عمرو.حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ عَمْرٍو الزُّرَقِيُّ الْمَدَنِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حَزْرَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَادَةُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ أَبِي وَأَنَا غُلامٌ شَابٌّ، فَنَلْقَى شَيْخًا، قُلْتُ: أَيْ عَمِّ، مَا مَنَعَكَ أَنْ تُعْطِيَ غُلامَكَ هَذِهِ النَّمِرَةَ، وَتَأْخُذَ الْبُرْدَةَ، فَتَكُونُ عَلَيْكَ بُرْدَتَانِ، وَعَلَيْهِ نَمِرَةٌ؟ فَأَقْبَلَ عَلَى أَبِي، فَقَالَ: ابْنُكَ هَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَسَحَ عَلَى رَأْسِي وَقَالَ: بَارَكَ اللَّهُ فِيكَ، أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: ”أَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ، وَاكْسُوهُمْ مِمَّا تَكْتَسُونَ“، يَا ابْنَ أَخِي، ذَهَابُ مَتَاعِ الدُّنْيَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ مَتَاعِ الآخِرَةِ"، قُلْتُ: أَيْ أَبَتَاهُ، مَنْ هَذَا الرَّجُلُ؟ قَالَ: أَبُو الْيَسَرِ بْنُ عَمْرٍو.
حضرت عبادہ بن ولید بن عبادہ بن صامت رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں اپنے باپ کے ساتھ باہر نکلا۔ میں اس وقت نوجوان لڑکا تھا۔ ہم ایک بزرگ سے ملے جنہوں نے ایک چادر اور معافری کپڑا زیب تن کیا ہوا تھا، اور ان کے غلام نے بھی ان جیسا لباس پہن رکھا تھا۔ میں نے کہا: چچا جان! اس میں کیا رکاوٹ ہے کہ آپ یہ دھاری دار چادر اپنے غلام کو دے دیتے اور اس سے دوسری چادر لے لیتے۔ اس طرح آپ پر دو ایک طرح کی چادریں ہو جاتیں اور غلام پر دھاری دار چادر ہو جاتی۔ یہ سن کر وہ میرے والد کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے پوچھا: یہ آپ کا بیٹا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ اسے برکت دے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو خود کھاتے ہو وہ ان غلاموں کو کھلاؤ، اور جو خود پہنو انہیں بھی پہناؤ۔“ میرے بھتیجے! دنیا کے سامان کا مجھ سے چلے جانا مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ وہ میرے آخرت کے سامان سے کچھ لے لے۔ میں نے کہا: ابا جان! یہ آدمی کون ہے؟ انہوں نے کہا: یہ ابوالیسر (کعب) بن عمرو ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب الزهد: 3006 - انظر الحديث، رقم: 187»
حدثنا عبدة، قال: حدثنا بقية، قال: حدثنا محمد بن زياد، قال: ادركت السلف، وإنهم ليكونون في المنزل الواحد باهاليهم، فربما نزل على بعضهم الضيف، وقدر احدهم على النار، فياخذها صاحب الضيف لضيفه، فيفقد القدر صاحبها، فيقول: من اخذ القدر؟ فيقول صاحب الضيف: نحن اخذناها لضيفنا، فيقول صاحب القدر: بارك الله لكم فيها، او كلمة نحوها، قال بقية: وقال محمد: والخبز إذا خبزوا مثل ذلك، وليس بينهم إلا جدر القصب، قال بقية: وادركت انا ذلك: محمد بن زياد واصحابه.حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ: أَدْرَكْتُ السَّلَفَ، وَإِنَّهُمْ لَيَكُونُونَ فِي الْمَنْزِلِ الْوَاحِدِ بِأَهَالِيهِمْ، فَرُبَّمَا نَزَلَ عَلَى بَعْضِهُمُ الضَّيْفُ، وَقِدْرُ أَحَدِهِمْ عَلَى النَّارِ، فَيَأْخُذُهَا صَاحِبُ الضَّيْفِ لِضَيْفِهِ، فَيَفْقِدُ الْقِدْرَ صَاحِبُهَا، فَيَقُولُ: مَنْ أَخَذَ الْقِدْرَ؟ فَيَقُولُ صَاحِبُ الضَّيْفِ: نَحْنُ أَخَذْنَاهَا لِضَيْفِنَا، فَيَقُولُ صَاحِبُ الْقِدْرِ: بَارَكَ اللَّهُ لَكُمْ فِيهَا، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، قَالَ بَقِيَّةُ: وَقَالَ مُحَمَّدٌ: وَالْخُبْزُ إِذَا خَبَزُوا مِثْلُ ذَلِكَ، وَلَيْسَ بَيْنَهُمْ إِلا جُدُرُ الْقَصَبِ، قَالَ بَقِيَّةُ: وَأَدْرَكْتُ أَنَا ذَلِكَ: مُحَمَّدَ بْنَ زِيَادٍ وَأَصْحَابَهُ.
محمد بن زیاد رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سلف (صحابہ و تابعین) کو پایا کہ وہ ایک ہی مکان میں اہل و عیال کے ساتھ رہتے تھے۔ جب کبھی ان میں سے کسی کا مہمان آ جاتا اور ان کی ہنڈیا پک رہی ہوتی تو مہمان والا اسے اپنے مہمان کے لیے لے لیتا۔ ہانڈی والا جب ہانڈی غائب پاتا تو پوچھتا کہ ہانڈی کس نے لی ہے؟ مہمان والا کہتا: ہم نے مہمان کے لیے لی ہے۔ ہانڈی والا کہتا: اللہ تمہیں اس میں برکت دے یا اس طرح کے کلمات کہتا۔ بقیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ محمد نے کہا: اور جب وہ روٹی پکاتے تو بھی اسی طرح ہوتا اور ان کے گھروں کے درمیان صرف بانس کی دیوار ہوتی۔ بقیہ رحمہ اللہ نے کہا: اور میں نے بھی اپنے استاد محمد اور ان کے ساتھیوں کو اسی طریقے پر پایا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البيهقي فى شعب الإيمان: 10879»
حدثنا مسدد، قال: حدثنا عبد الله بن داود، عن فضيل بن غزوان، عن ابي حازم، عن ابي هريرة، ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فبعث إلى نسائه، فقلن: ما معنا إلا الماء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”من يضم، او يضيف هذا؟“ فقال رجل من الانصار: انا، فانطلق به إلى امراته، فقال: اكرمي ضيف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: ما عندنا إلا قوت للصبيان، فقال: هيئي طعامك، واصلحي سراجك، ونومي صبيانك إذا ارادوا عشاء، فهيات طعامها، واصلحت سراجها، ونومت صبيانها، ثم قامت كانها تصلح سراجها فاطفاته، وجعلا يريانه انهما ياكلان، وباتا طاويين، فلما اصبح غدا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال صلى الله عليه وسلم: ”لقد ضحك الله، او: عجب من فعالكما“، وانزل الله: ﴿ويؤثرون على انفسهم ولو كان بهم خصاصة ومن يوق شح نفسه فاولئك هم المفلحون﴾ [الحشر: 9].حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ إِلَى نِسَائِهِ، فَقُلْنَ: مَا مَعَنَا إِلا الْمَاءُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مَنْ يَضُمُّ، أَوْ يُضِيفُ هَذَا؟“ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ: أَنَا، فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَى امْرَأَتِهِ، فَقَالَ: أَكْرِمِي ضَيْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: مَا عِنْدَنَا إِلا قُوتٌ لِلصِّبْيَانِ، فَقَالَ: هَيِّئِي طَعَامَكِ، وَأَصْلِحِي سِرَاجَكِ، وَنَوِّمِي صِبْيَانَكِ إِذَا أَرَادُوا عَشَاءً، فَهَيَّأَتْ طَعَامَهَا، وَأَصْلَحَتْ سِرَاجَهَا، وَنَوَّمَتْ صِبْيَانَهَا، ثُمَّ قَامَتْ كَأَنَّهَا تُصْلِحُ سِرَاجَهَا فَأَطْفَأَتْهُ، وَجَعَلا يُرِيَانِهِ أَنَّهُمَا يَأْكُلانِ، وَبَاتَا طَاوِيَيْنِ، فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”لَقَدْ ضَحِكَ اللَّهُ، أَوْ: عَجِبَ مِنْ فَعَالِكُمَا“، وَأَنْزَلَ اللَّهُ: ﴿وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ [الحشر: 9].
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بطور مہمان آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو پیغام بھجوایا کہ کچھ کھانے کو ہو تو بھیج دیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کو کون ساتھ لے جائے گا یا اس کی مہمانی کون کرے گا؟“ ایک انصاری آدمی نے کہا: میں اسے ساتھ لے جاتا ہوں۔ وہ اسے لے کر اپنی اہلیہ کے پاس گئے اور کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی عزت افزائی کرو۔ اس نے کہا: بچوں کے کھانے کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ اس نے کہا: کھانا تیار کرو، کھاتے وقت چراغ درست کرنا (اور بجھا دینا) اور بچے اگر رات کا کھانا مانگیں تو انہیں سلا دینا۔ چنانچہ اس نے کھانا تیار کیا اور چراغ اچھی طرح ٹھیک کر دیا اور بچوں کو سلا دیا۔ پھر اٹھی جیسے وہ چراغ کو ٹھیک کرنے لگی ہے، تو اسے بجھا دیا۔ اور دونوں اسے یہ باور کروا رہے تھے کہ وہ کھا رہے ہیں، حالانکہ دونوں نے بھوکے رات گزاری۔ جب صبح ہوئی تو وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تم دونوں کے اس اچھے کام پر ہنسا ہے یا خوش ہوا ہے۔“ اور اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی: «﴿وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ ......﴾»”وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود قاقے سے ہوں اور جو اپنے نفس کی بخیلی سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب مناقب الأنصار: 3798 و مسلم: 2054 و الترمذي: 3304 - انظر الصحيحة: 3272»
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال: حدثنا الليث، قال: حدثني سعيد المقبري، عن ابي شريح العدوي، قال: سمعت اذناي، وابصرت عيناي، حين تكلم النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ”من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم جاره، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه جائزته“، قال: وما جائزته يا رسول الله؟ قال: ”يوم وليلة، والضيافة ثلاثة ايام، فما كان وراء ذلك فهو صدقة عليه، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا او ليصمت.“حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ، قَالَ: سَمِعَتْ أُذُنَايَ، وَأَبْصَرَتْ عَيْنَايَ، حِينَ تَكَلَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ”مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ جَائِزَتَهُ“، قَالَ: وَمَا جَائِزَتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: ”يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَالضِّيَافَةُ ثَلاثَةُ أَيَّامٍ، فَمَا كَانَ وَرَاءَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ عَلَيْهِ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ.“
سیدنا ابوشریح عدوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”جو اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی پرتکلف مہمانی کرے۔“ راوی نے پوچھا: اللہ کے رسول! پرتکلف کھانا کتنے روز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک دن اور رات اور مہمانی تین دن تک ہے، اور اس کے بعد کی خدمت اس پر صدقہ تصور ہوگی۔ اور جو اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6019 و مسلم: 48 و أبوداؤد: 3748 و الترمذي: 1967 و ابن ماجه: 3672»
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال: حدثنا ابان بن يزيد، قال: حدثنا يحيى هو ابن ابي كثير، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”الضيافة ثلاثة ايام، فما كان بعد ذلك فهو صدقة.“حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى هُوَ ابْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”الضِّيَافَةُ ثَلاثَةُ أَيَّامٍ، فَمَا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ضیافت تین دن تک ہے، اور جو اس کے بعد ہو، وہ صدقہ ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الأطعمة: 3749»
حدثنا إسماعيل، قال: حدثني مالك، عن سعيد المقبري، عن ابي شريح الكعبي، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: ”من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا او ليصمت، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه جائزته يوم وليلة، والضيافة ثلاثة ايام، فما بعد ذلك فهو صدقة، ولا يحل له ان يثوي عنده حتى يحرجه.“حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْكَعْبِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ”مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ جَائِزَتَهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَالضِّيَافَةُ ثَلاثَةُ أَيَّامٍ، فَمَا بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ صَدَقَةٌ، وَلا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَثْوِيَ عِنْدَهُ حَتَّى يُحْرِجَهُ.“
سیدنا ابوشریح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ بھلائی کی بات کرے یا چپ رہے، اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور یومِ آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی ایک دن رات پر تکلف میزبانی کرے، اور مہمانی تین دن ہے، جو اس کے بعد کھلائے گا وہ صدقہ ہے۔ اور مہمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ میزبان کے ہاں اقامت ہی اختیار کر لے کہ وہ تنگ آجائے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6135 و مسلم: 48»