حدثنا محمد بن يوسف، قال: حدثنا النضر، قال: حدثنا ابو العوام عبد العزيز بن ربيع الباهلي، قال: حدثنا ابو الزبير محمد، عن جابر بن عبد الله، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاتى على قبرين يعذب صاحباهما، فقال: ”إنهما لا يعذبان في كبير، وبلى، اما احدهما فكان يغتاب الناس، واما الآخر فكان لا يتاذى من البول“، فدعا بجريدة رطبة، او بجريدتين، فكسرهما، ثم امر بكل كسرة فغرست على قبر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”اما إنه سيهون من عذابهما ما كانتا رطبتين، او: لم تيبسا.“حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْعَوَّامِ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ رَبِيعٍ الْبَاهِلِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ مُحَمَّدٌ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَى عَلَى قَبْرَيْنِ يُعَذَّبُ صَاحِبَاهُمَا، فَقَالَ: ”إِنَّهُمَا لا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، وَبَلَى، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ يَغْتَابُ النَّاسَ، وَأَمَّا الآخَرُ فَكَانَ لا يَتَأَذَّى مِنَ الْبَوْلِ“، فَدَعَا بِجَرِيدَةٍ رَطْبَةٍ، أَوْ بِجَرِيدَتَيْنِ، فَكَسَرَهُمَا، ثُمَّ أَمَرَ بِكُلِّ كِسْرَةٍ فَغُرِسَتْ عَلَى قَبْرٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”أَمَا إِنَّهُ سَيُهَوَّنُ مِنْ عَذَابِهِمَا مَا كَانَتَا رَطْبَتَيْنِ، أَوْ: لَمْ تَيْبَسَا.“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس آئے جن قبروں والوں کو عذاب ہو رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں کسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں ہو رہا۔ کیوں نہیں، وہ واقعی بڑا ہے (لیکن یہ بڑا نہیں سمجھتے تھے)۔ ان میں سے ایک لوگوں کی غیبت کرتا تھا، اور دوسرا پیشاب سے تکلیف محسوس نہیں کرتا تھا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یا دو تازہ ٹہنیاں منگوائیں اور ان دونوں کو توڑا، پھر ہر ٹکڑے کے متعلق حکم دیا تو ہر ایک کو قبر پر گاڑ دیا گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب ان سے عذاب کو ہلکا کر دیا جائے گا جب تک وہ سبز رہیں گی یا خشک نہیں ہوں گی۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن أبى الدنيا فى الصمت: 176 و أبويعلي: 2046 و بعضه فى صحيح المصنف: 218 و مسلم: 292 - انظر التعليق الرغيب: 86/1 و المشكاة: 110/1»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 735
فوائد ومسائل: (۱)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غیبت کبیرہ گناہ ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کبیرہ کہا ہے۔ (۲) آپ کے فرمان کہ ”انہیں کسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں ہو رہا“ کا مطلب ہے کہ وہ کوئی ایسا نہیں جس سے انہیں بچنا مشکل تھا بلکہ اگر وہ چاہتے تو بچ سکتے تھے۔ (۳) اس سے معلوم ہوا عذاب قبر برحق ہے اور اس کے منکر احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ (۴) ان کے عذاب کی اطلاع پانا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے۔ ایک حدیث میں ہے۔ آپ نے فرمایا:”اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ تم اپنے مردوں کی تدفین چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ تمہیں قبر کا عذاب سنا دیتا۔“(صحیح مسلم، الجنة ونعیمها، ح:۲۸۶۸) (۵) ایک روایت میں نمیمہ (چغل خوری)کا ذکر ہے تو دونوں روایتوں میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ چغل خوری میں غیبت بھی آتی ہے۔ چغل خوری یہ ہے کہ فساد بپا کرنے کے لیے کسی کی بات دوسرے تک پہنچانا۔ (۶) اب قبروں پر سبز ٹہنیاں رکھنے کا کیا حکم ہے؟ اس میں اختلاف ہے، تاہم راجح یہ ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصا ہے اب ایسا کرنا درست نہیں۔ اس کی تائید درج ذیل باتوں سے ہوتی ہے۔ ۱۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین اور جمہور صحابہ نے اسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصا سمجھا ہے اور اسے امت کے لیے سنت نہیں گردانا۔ ۲۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے عذاب کے بارے میں معلوم ہوگیا تھا جبکہ ہمیں یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ اس قبر والے کے ساتھ کیا معاملہ ہو رہا ہے۔ اس لیے اگر وہ مومن ہے تو اس کے بارے میں بدظنی ہے کہ اسے عذاب ہو رہا ہے۔ ۳۔ یہ ٹہنیاں تخفیف عذاب کا باعث نہیں تھیں بلکہ آپ کی شفاعت باعث تخفیف تھی جسے ٹہنیوں کے خشک ہونے کے وقت کے ساتھ محدود کر دیا گیا۔ رہی یہ توجیہ کہ سبز ٹہنیاں اللہ کی تعریف کرتی ہیں تو یہ بات درست نہیں کیونکہ اللہ کی تعریف تو خشک وتر ہر چیز کرتی ہے۔ (۷) پیشاب سے نہ بچنے کی دو صورتیں ہیں: ۱۔ پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔ ۲۔ پیشاب کرتے وقت پردے کا اہتمام نہ کرتا تھا۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 735