حدثنا مسدد، قال: حدثنا عبد الله بن داود، عن فضيل بن غزوان، عن ابي حازم، عن ابي هريرة، ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فبعث إلى نسائه، فقلن: ما معنا إلا الماء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”من يضم، او يضيف هذا؟“ فقال رجل من الانصار: انا، فانطلق به إلى امراته، فقال: اكرمي ضيف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: ما عندنا إلا قوت للصبيان، فقال: هيئي طعامك، واصلحي سراجك، ونومي صبيانك إذا ارادوا عشاء، فهيات طعامها، واصلحت سراجها، ونومت صبيانها، ثم قامت كانها تصلح سراجها فاطفاته، وجعلا يريانه انهما ياكلان، وباتا طاويين، فلما اصبح غدا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال صلى الله عليه وسلم: ”لقد ضحك الله، او: عجب من فعالكما“، وانزل الله: ﴿ويؤثرون على انفسهم ولو كان بهم خصاصة ومن يوق شح نفسه فاولئك هم المفلحون﴾ [الحشر: 9].حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ إِلَى نِسَائِهِ، فَقُلْنَ: مَا مَعَنَا إِلا الْمَاءُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مَنْ يَضُمُّ، أَوْ يُضِيفُ هَذَا؟“ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ: أَنَا، فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَى امْرَأَتِهِ، فَقَالَ: أَكْرِمِي ضَيْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: مَا عِنْدَنَا إِلا قُوتٌ لِلصِّبْيَانِ، فَقَالَ: هَيِّئِي طَعَامَكِ، وَأَصْلِحِي سِرَاجَكِ، وَنَوِّمِي صِبْيَانَكِ إِذَا أَرَادُوا عَشَاءً، فَهَيَّأَتْ طَعَامَهَا، وَأَصْلَحَتْ سِرَاجَهَا، وَنَوَّمَتْ صِبْيَانَهَا، ثُمَّ قَامَتْ كَأَنَّهَا تُصْلِحُ سِرَاجَهَا فَأَطْفَأَتْهُ، وَجَعَلا يُرِيَانِهِ أَنَّهُمَا يَأْكُلانِ، وَبَاتَا طَاوِيَيْنِ، فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”لَقَدْ ضَحِكَ اللَّهُ، أَوْ: عَجِبَ مِنْ فَعَالِكُمَا“، وَأَنْزَلَ اللَّهُ: ﴿وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ [الحشر: 9].
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بطور مہمان آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو پیغام بھجوایا کہ کچھ کھانے کو ہو تو بھیج دیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کو کون ساتھ لے جائے گا یا اس کی مہمانی کون کرے گا؟“ ایک انصاری آدمی نے کہا: میں اسے ساتھ لے جاتا ہوں۔ وہ اسے لے کر اپنی اہلیہ کے پاس گئے اور کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی عزت افزائی کرو۔ اس نے کہا: بچوں کے کھانے کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ اس نے کہا: کھانا تیار کرو، کھاتے وقت چراغ درست کرنا (اور بجھا دینا) اور بچے اگر رات کا کھانا مانگیں تو انہیں سلا دینا۔ چنانچہ اس نے کھانا تیار کیا اور چراغ اچھی طرح ٹھیک کر دیا اور بچوں کو سلا دیا۔ پھر اٹھی جیسے وہ چراغ کو ٹھیک کرنے لگی ہے، تو اسے بجھا دیا۔ اور دونوں اسے یہ باور کروا رہے تھے کہ وہ کھا رہے ہیں، حالانکہ دونوں نے بھوکے رات گزاری۔ جب صبح ہوئی تو وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تم دونوں کے اس اچھے کام پر ہنسا ہے یا خوش ہوا ہے۔“ اور اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی: «﴿وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ ......﴾»”وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود قاقے سے ہوں اور جو اپنے نفس کی بخیلی سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب مناقب الأنصار: 3798 و مسلم: 2054 و الترمذي: 3304 - انظر الصحيحة: 3272»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 740
فوائد ومسائل: (۱)عورت پردے کا اہتمام کرکے میزبانی کے فرائض سر انجام دے سکتی ہے خواہ کھانا کھانے والے غیر محرم ہوں بشرطیکہ وہ ایمان دار ہوں۔ (۲) مہمان نوازی بہت عظیم عمل ہے، خصوصاً مشکل اوقات میں دوسروں کو اپنی ذات پر فوقیت دینا اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔ (۳) اس سے پتا چلتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کس سادگی اور مشکل سے زندگی بسر کرتے کہ آپ کے تمام گھروں میں کھانے کے لیے کچھ نہ تھا۔ (۴) مہمان کو لے جانے والے سیدنا ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ تھے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 740