حدثنا آدم، قال: حدثنا شعبة، قال: حدثنا سويد بن حجير، قال: سمعت سليم بن عامر، عن اوسط بن إسماعيل، قال: سمعت ابا بكر الصديق رضي الله عنه بعد وفاة النبي صلى الله عليه وسلم، قال: قام النبي صلى الله عليه وسلم عام اول مقامي هذا - ثم بكى ابو بكر - ثم قال: ”عليكم بالصدق، فإنه مع البر، وهما في الجنة، وإياكم والكذب، فإنه مع الفجور، وهما في النار، وسلوا الله المعافاة، فإنه لم يؤت بعد اليقين خير من المعافاة، ولا تقاطعوا، ولا تدابروا، ولا تحاسدوا، ولا تباغضوا، وكونوا عباد الله إخوانا.“حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ حُجَيْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سُلَيْمَ بْنَ عَامِرٍ، عَنْ أَوْسَطَ بْنِ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعْدَ وَفَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ أَوَّلَ مَقَامِي هَذَا - ثُمَّ بَكَى أَبُو بَكْرٍ - ثُمَّ قَالَ: ”عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ، فَإِنَّهُ مَعَ الْبِرِّ، وَهُمَا فِي الْجَنَّةِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ، فَإِنَّهُ مَعَ الْفُجُورِ، وَهُمَا فِي النَّارِ، وَسَلُوا اللَّهَ الْمُعَافَاةَ، فَإِنَّهُ لَمْ يُؤْتَ بَعْدَ الْيَقِينِ خَيْرٌ مِنَ الْمُعَافَاةِ، وَلا تَقَاطَعُوا، وَلا تَدَابَرُوا، وَلا تَحَاسَدُوا، وَلا تَبَاغَضُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا.“
اوسط بن اسماعیل رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے پہلے سال اس جگہ پر کھڑے ہوئے جس جگہ میں کھڑا ہوں، پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رو پڑے، پھر فرمایا: ”سچائی کو لازم پکڑو، کیونکہ وہ نیکی کے ساتھ ہے، اور وہ دونوں (سچائی اور نیکی) جنت میں لے جانے والی ہیں۔ اور جھوٹ سے بچو، کیونکہ وہ فجور کے ساتھ ہے، اور یہ دونوں آگ میں لے جانے والے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو، کیونکہ ایمان و یقین کے بعد عافیت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ آپس میں قطع تعلق نہ کرو۔ ایک دوسرے سے پشت نہ پھیرو اور نہ ایک دوسرے سے حسد و بغض رکھو، اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔“
حدثنا قبيصة، قال: حدثنا سفيان، عن الجريري، عن ابي الورد، عن اللجلاج، عن معاذ قال: مر النبي صلى الله عليه وسلم على رجل يقول: اللهم إني اسالك تمام النعمة، قال: ”هل تدري ما تمام النعمة؟“ قال: ”تمام النعمة دخول الجنة، والفوز من النار“، ثم مر على رجل يقول: اللهم إني اسالك الصبر، قال: ”قد سالت ربك البلاء، فسله العافية“، ومر على رجل يقول: يا ذا الجلال والإكرام، قال: ”سل“.حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي الْوَرْدِ، عَنِ اللَّجْلاجِ، عَنْ مُعَاذٍ قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَجُلٍ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تَمَامَ النِّعْمَةِ، قَالَ: ”هَلْ تَدْرِي مَا تَمَامُ النِّعْمَةِ؟“ قَالَ: ”تَمَامُ النِّعْمَةِ دُخُولُ الْجَنَّةِ، وَالْفَوْزُ مِنَ النَّارِ“، ثُمَّ مَرَّ عَلَى رَجُلٍ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الصَّبْرَ، قَالَ: ”قَدْ سَأَلْتَ رَبَّكَ الْبَلاءَ، فَسَلْهُ الْعَافِيَةَ“، وَمَرَّ عَلَى رَجُلٍ يَقُولُ: يَا ذَا الْجَلالِ وَالإِكْرَامِ، قَالَ: ”سَلْ“.
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گزرے، وہ دعا کر رہا تھا: اے اللہ! میں تجھ سے پوری نعمت کا سوال کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم جانتے ہو پوری نعمت کیا ہے؟“ اس نے کہا: پوری نعمت یہ ہے کہ بندہ جنت میں داخل ہو جائے اور دوزخ سے بچ جائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو کہہ رہا تھا: اے اللہ! میں تجھ سے صبر کا سوال کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اپنے رب سے مصیبت کا سوال کیا ہے، اس کے بجائے عافیت کا سوال کرو۔“ ایک اور شخص کے پاس سے گزرے جو کہہ رہا تھا: اے بزرگی و اکرام والے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”اللہ سے کچھ مانگو۔“
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه الترمذي، كتاب الدعوات: 3527 - انظر الضعيفة: 3416»
حدثنا فروة، قال: حدثنا عبيدة، عن يزيد بن ابي زياد، عن عبد الله بن الحارث، عن العباس بن عبد المطلب، قلت: يا رسول الله، علمني شيئا اسال الله به، فقال: ”يا عباس، سل الله العافية“، ثم مكثت ثلاثا، ثم جئت، فقلت: علمني شيئا اسال الله به يا رسول الله، فقال: ”يا عباس، يا عم رسول الله، سل الله العافية في الدنيا والآخرة.“حَدَّثَنَا فَرْوَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدَةُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنِي شَيْئًا أَسْأَلُ اللَّهَ بِهِ، فَقَالَ: ”يَا عَبَّاسُ، سَلِ اللَّهَ الْعَافِيَةَ“، ثُمَّ مَكَثْتُ ثَلاثًا، ثُمَّ جِئْتُ، فَقُلْتُ: عَلِّمْنِي شَيْئًا أَسْأَلُ اللَّهَ بِهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: ”يَا عَبَّاسُ، يَا عَمَّ رَسُولِ اللَّهِ، سَلِ اللَّهَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ.“
سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسی دعا سکھائیں جس کے ذریعے سے میں اللہ تعالیٰ سے سوال کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عباس! اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرو۔“ کچھ عرصہ ٹھہرنے کے بعد میں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اللہ کے رسول! مجھے کوئی دعا سکھائیں جس کے ذریعے سے میں مانگوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عباس! اے رسول اللہ کے چچا! الله تعالیٰ سے دنیا و آخرت میں عافیت کا سوال کرو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه الترمذي، كتاب الدعوت: 3514 - انظر الصحيحة: 1523»
حدثنا احمد بن يونس، قال: حدثنا ابو بكر، عن حميد، عن انس، قال: قال رجل عند النبي صلى الله عليه وسلم: اللهم لم تعطني مالا فاتصدق به، فابتلني ببلاء يكون، او قال: فيه اجر، فقال: ”سبحان الله، لا تطيقه، الا قلت: اللهم آتنا في الدنيا حسنة، وفي الآخرة حسنة، وقنا عذاب النار.“حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ لَمْ تُعْطِنِي مَالا فَأَتَصَدَّقَ بِهِ، فَابْتَلِنِي بِبَلاءٍ يَكُونُ، أَوْ قَالَ: فِيهِ أَجْرٌ، فَقَالَ: ”سُبْحَانَ اللَّهِ، لا تُطِيقُهُ، أَلا قُلْتَ: اللَّهُمَّ آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً، وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دعا کی: اے اللہ! تو نے مجھے مال نہیں دیا جس سے میں صدقہ کرتا، لہٰذا مجھے کسی مصیبت ہی میں مبتلا کر دے جس میں میرے لیے اجر ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! تم مصیبت برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ تم نے یوں دعا کیوں نہیں کی: اے اللہ ہمیں دنیا میں اچھائی عطا فرما، اور آخرت میں بھی اچھائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔“
تخریج الحدیث: «حسن صحيح: و رواه مسلم، كتاب الذكر و الدعاء: 2688 و الترمذي: 3487 - دون قول الرجل، انظر صحيح أبى داؤد: 1359»
حدثنا احمد بن يونس، قال: حدثنا زهير، قال: حدثنا حميد، عن انس، قال: دخل، قلت لحميد النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم، دخل على رجل قد جهد من المرض، فكانه فرخ منتوف، قال: ”ادع الله بشيء او سله“، فجعل يقول: اللهم ما انت معذبي به في الآخرة، فعجله في الدنيا، قال: ”سبحان الله، لا تستطيعه، او قال: لا تستطيعوا، الا قلت: اللهم آتنا في الدنيا حسنة، وفي الآخرة حسنة، وقنا عذاب النار؟“ ودعا له، فشفاه الله عز وجل.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: دَخَلَ، قُلْتُ لِحُمَيْدٍ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، دَخَلَ عَلَى رَجُلٍ قَدْ جَهِدَ مِنَ الْمَرَضِ، فَكَأَنَّهُ فَرْخٌ مَنْتُوفٌ، قَالَ: ”ادْعُ اللَّهَ بِشَيْءٍ أَوْ سَلْهُ“، فَجَعَلَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ مَا أَنْتَ مُعَذِّبِي بِهِ فِي الآخِرَةِ، فَعَجِّلْهُ فِي الدُّنْيَا، قَالَ: ”سُبْحَانَ اللَّهِ، لا تَسْتَطِيعُهُ، أَوَ قَالَ: لا تَسْتَطِيعُوا، أَلا قُلْتَ: اللَّهُمَّ آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً، وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ؟“ وَدَعَا لَهُ، فَشَفَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کے پاس گئے جو بیماری سے اتنا لاغر ہو چکا تھا جیسے بال نوچا ہوا پرنده ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله تعالیٰ سے کوئی دعا کرو یا (صحت کا) سوال کرو۔“ وہ یوں کہنے لگا: اے اللہ! جو عذاب تو نے مجھے آخرت میں دینا ہے، وہ جلد دنیا ہی میں دے دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ تم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ تم نے یہ دعا کیوں نہ کی: اے اللہ! ہمیں دنیا میں اچھائی عطا فرما، اور آخرت میں بھی اچھائی دے، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔“ پھر اس نے دعا کی تو اللہ عزوجل نے اسے شفا دے دی۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب الذكر و الدعاء: 2688»
حدثنا عمر بن حفص، قال: حدثنا ابي، قال: حدثنا الاعمش، قال: حدثني مجاهد، عن عبد الله بن عمرو، قال: يقول الرجل: اللهم إني اعوذ بك من جهد البلاء، ثم يسكت، فإذا قال ذلك، فليقل: إلا بلاء فيه علاء.حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُجَاهِدٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: يَقُولُ الرَّجُلُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ جَهْدِ الْبَلاءِ، ثُمَّ يَسْكُتُ، فَإِذَا قَالَ ذَلِكَ، فَلْيَقُلْ: إِلا بَلاءً فِيهِ عَلاءٌ.
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: آدمی کہتا ہے: اے اللہ! میں تجھ سے سخت مصیبت میں مبتلا ہونے سے پناہ مانگتا ہوں۔ پھر چپ ہو جاتا ہے۔ جب یہ دعا کرے تو یوں بھی کہے: مگر ایسی مصیبت جو درجات کی بلندی کا باعث ہو، وہ مطلوب ہے۔
حدثنا محمد بن سلام، قال: حدثنا سفيان بن عيينة، عن سمي، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، كان يتعوذ من جهد البلاء، ودرك الشقاء، وشماتة الاعداء، وسوء القضاء.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَتَعَوَّذُ مِنْ جَهْدِ الْبَلاءِ، وَدَرْكِ الشَّقَاءِ، وَشَمَاتَةِ الأَعْدَاءِ، وَسُوءِ الْقَضَاءِ.
سیدنا ابوہریره رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سخت مصیبت سے، بدبختی کے پا لینے سے، دشمنوں کی خوشی سے، اور برے فیصلے سے پناہ مانگتے تھے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الدعوات: 6347 و مسلم: 2707 و النسائي: 5491 و تقدم تخريجه برقم: 669»
حدثنا عبد الله بن ابي بكر، ومسلم نحوه، قالا: حدثنا الاسود بن شيبان، عن ابي نوفل بن ابي عقرب، ان اباه سال النبي صلى الله عليه وسلم، عن الصوم، فقال: ”صم يوما من كل شهر“، قلت: بابي انت وامي، زدني، قال: ”زدني، زدني، صم يومين من كل شهر“، قلت: بابي انت وامي، زدني، فإني اجدني قويا، فقال: ”إني اجدني قويا، إني اجدني قويا“، فافحم، حتى ظننت انه لن يزيدني، ثم قال: ”صم ثلاثا من كل شهر.“حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، وَمُسْلِمٌ نَحْوَهُ، قَالا: حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ، عَنْ أَبِي نَوْفَلِ بْنِ أَبِي عَقْرَبَ، أَنَّ أَبَاهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ الصَّوْمِ، فَقَالَ: ”صُمْ يَوْمًا مِنْ كُلِّ شَهْرٍ“، قُلْتُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، زِدْنِي، قَالَ: ”زِدْنِي، زِدْنِي، صُمْ يَوْمَيْنِ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ“، قُلْتُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، زِدْنِي، فَإِنِّي أَجِدُنِي قَوِيًّا، فَقَالَ: ”إِنِّي أَجِدُنِي قَوِيًّا، إِنِّي أَجِدُنِي قَوِيًّا“، فَأَفْحَمَ، حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ لَنْ يَزِيدَنِي، ثُمَّ قَالَ: ”صُمْ ثَلاثًا مِنْ كُلِّ شَهْرٍ.“
ابونوفل رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ان کے والد سیدنا ابوعقرب رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روزے کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مہینے میں ایک روزہ رکھا کرو۔“ میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، اور زیادہ کی اجازت دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور زیادہ، اور زیادہ، ہر مہینے میں دو روزے رکھ لو۔“ میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، اور زیادہ کی اجازت دیجیے، مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ میں زیادہ کی طاقت ہے، مجھ میں زیادہ کی طاقت ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چپ کرا دیا یہاں تک کہ میں نے گمان کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے زیادہ کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مہینے میں تین روزے رکھا کرو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه النسائي، كتاب الصيام: 2435»
حدثنا ابو معمر، قال: حدثنا عبد الوارث، عن واصل مولى ابي عيينة، قال: حدثني خالد بن عرفطة، عن طلحة بن نافع، عن جابر بن عبد الله، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وارتفعت ريح خبيثة منتنة، فقال: ”اتدرون ما هذه؟ هذه ريح الذين يغتابون المؤمنين.“حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ وَاصِلٍ مَوْلَى أَبِي عُيَيْنَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ عُرْفُطَةَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَارْتَفَعَتْ رِيحٌ خَبِيثَةٌ مُنْتِنَةٌ، فَقَالَ: ”أَتَدْرُونَ مَا هَذِهِ؟ هَذِهِ رِيحُ الَّذِينَ يَغْتَابُونَ الْمُؤْمِنِينَ.“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ایک بدبودار ہوا اٹھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟ یہ ان لوگوں کی بدبودار ہوا ہے جو اہل ایمان کی غیبت کرتے تھے۔“
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه أحمد: 14784 و ابن أبى الدنيا فى الصمت: 216 و الخرائطي فى مساوى الأخلاق: 183 - انظر صحيح الترغيب: 2840»
حدثنا مسدد، قال: حدثنا فضيل بن عياض، عن سليمان، عن ابي سفيان، عن جابر، قال: هاجت ريح منتنة على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إن ناسا من المنافقين اغتابوا اناسا من المسلمين، فبعثت هذه الريح لذلك.“حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: هَاجَتْ رِيحٌ مُنْتِنَةٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”إِنَّ نَاسًا مِنَ الْمُنَافِقِينَ اغْتَابُوا أُنَاسًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَبُعِثَتْ هَذِهِ الرِّيحُ لِذَلِكَ.“
ابوسفیان بن جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بدبودار ہوا پھوٹی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کچھ منافق لوگوں نے کچھ مسلمانوں کی غیبت کی ہے تو اس وجہ سے یہ ہوا بھیجی گئی ہے۔“
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه عبد بن حميد: 1028 و البيهقي فى الشعب: 93/9 - انظر غاية المرام: 429»