حدثنا ابو معمر، قال: حدثنا عبد الوارث، عن واصل مولى ابي عيينة، قال: حدثني خالد بن عرفطة، عن طلحة بن نافع، عن جابر بن عبد الله، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وارتفعت ريح خبيثة منتنة، فقال: ”اتدرون ما هذه؟ هذه ريح الذين يغتابون المؤمنين.“حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ وَاصِلٍ مَوْلَى أَبِي عُيَيْنَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ عُرْفُطَةَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَارْتَفَعَتْ رِيحٌ خَبِيثَةٌ مُنْتِنَةٌ، فَقَالَ: ”أَتَدْرُونَ مَا هَذِهِ؟ هَذِهِ رِيحُ الَّذِينَ يَغْتَابُونَ الْمُؤْمِنِينَ.“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ایک بدبودار ہوا اٹھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟ یہ ان لوگوں کی بدبودار ہوا ہے جو اہل ایمان کی غیبت کرتے تھے۔“
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه أحمد: 14784 و ابن أبى الدنيا فى الصمت: 216 و الخرائطي فى مساوى الأخلاق: 183 - انظر صحيح الترغيب: 2840»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 732
فوائد ومسائل: (۱)غیبت ایسا معاشرتی ناسور ہے جس پر ہر کس و ناکس مبتلا ہے حالانکہ یہ کبیرہ گناہ ہے اور اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے۔ اور غیبت یہ ہے کہ کسی کی عدم موجودگی میں اس کا ایسا تذکرہ کرنا جسے وہ ناپسند کرے۔ (۲) مسلمان کی غیبت کرنے والا اتنا بڑا مجرم ہے کہ اس کی بدبو سے فضا بھی متأثر ہو جاتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ہر وقت ظاہر نہیں کرتا یا ہم اپنی بے حسی کی وجہ سے محسوس نہیں کرپاتے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 732