حدثنا عبد الله بن ابي بكر، ومسلم نحوه، قالا: حدثنا الاسود بن شيبان، عن ابي نوفل بن ابي عقرب، ان اباه سال النبي صلى الله عليه وسلم، عن الصوم، فقال: ”صم يوما من كل شهر“، قلت: بابي انت وامي، زدني، قال: ”زدني، زدني، صم يومين من كل شهر“، قلت: بابي انت وامي، زدني، فإني اجدني قويا، فقال: ”إني اجدني قويا، إني اجدني قويا“، فافحم، حتى ظننت انه لن يزيدني، ثم قال: ”صم ثلاثا من كل شهر.“حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، وَمُسْلِمٌ نَحْوَهُ، قَالا: حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ، عَنْ أَبِي نَوْفَلِ بْنِ أَبِي عَقْرَبَ، أَنَّ أَبَاهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ الصَّوْمِ، فَقَالَ: ”صُمْ يَوْمًا مِنْ كُلِّ شَهْرٍ“، قُلْتُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، زِدْنِي، قَالَ: ”زِدْنِي، زِدْنِي، صُمْ يَوْمَيْنِ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ“، قُلْتُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، زِدْنِي، فَإِنِّي أَجِدُنِي قَوِيًّا، فَقَالَ: ”إِنِّي أَجِدُنِي قَوِيًّا، إِنِّي أَجِدُنِي قَوِيًّا“، فَأَفْحَمَ، حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ لَنْ يَزِيدَنِي، ثُمَّ قَالَ: ”صُمْ ثَلاثًا مِنْ كُلِّ شَهْرٍ.“
ابونوفل رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ان کے والد سیدنا ابوعقرب رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روزے کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مہینے میں ایک روزہ رکھا کرو۔“ میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، اور زیادہ کی اجازت دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور زیادہ، اور زیادہ، ہر مہینے میں دو روزے رکھ لو۔“ میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، اور زیادہ کی اجازت دیجیے، مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ میں زیادہ کی طاقت ہے، مجھ میں زیادہ کی طاقت ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چپ کرا دیا یہاں تک کہ میں نے گمان کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے زیادہ کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مہینے میں تین روزے رکھا کرو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه النسائي، كتاب الصيام: 2435»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 731
فوائد ومسائل: (۱)اس سے معلوم ہوا کہ کسی سے ناراضگی کا اظہار کرنے کے لیے یا سرزنش کرنے کے لیے اس کی بات دہرانا جائز ہے۔ اس میں ڈانٹ کے ساتھ شفقت کا اظہار بھی ہے۔ (۲) اللہ تعالیٰ کو وہ عمل پسند ہے جس پر ہمیشگی کی جائے خواہ تھوڑا ہی ہو۔ اس لیے آپ نے سائل کو تھوڑا عمل اختیار کرنے کا حکم دیا۔ آپ ہر سائل کو اس کی حیثیت کے مطابق جواب دیتے اور ایمان کے مطابق عمل کا حکم ارشاد فرماتے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو کو ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کا حکم دیا اور یہ صورت سب سے افضل ہے لیکن اس کے لیے جسے باقاعدگی کی امید ہو ورنہ مہینے میں تین روزے رکھ لے۔ اور یہ روزے ایام بیض یعنی اسلامی مہینے کی ۱۳، ۱۴، ۱۵ تاریخ کو رکھے جائیں جیسا کہ بہت سے صحابہ کا اس پر عمل تھا۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 731