صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اخلاق کے بیان میں
The Book of Al-Adab (Good Manners)
58. بَابُ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلاَ تَجَسَّسُوا}:
58. باب: سورۃ الحجرات میں اللہ کا فرمان اے ایمان والو! بہت سی بدگمانیوں سے بچو، بیشک بعض بدگمانیاں گناہ ہوتی ہیں اور کسی کے عیوب کی ڈھونڈ ٹٹول نہ کرو , آخر آیت تک۔
(58) Chapter. The Statement of Allah: “O you who believe! Avoid much suspicion, indeed some suspicions are sins. And spy not, neither backbite one another..." (V.49:12)
حدیث نمبر: 6066
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إياكم والظن فإن الظن اكذب الحديث، ولا تحسسوا ولا تجسسوا ولا تناجشوا ولا تحاسدوا ولا تباغضوا ولا تدابروا وكونوا عباد الله إخوانا".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ، وَلَا تَحَسَّسُوا وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا تَنَاجَشُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، ابوالزناد سے وہ اعرج سے اور وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بدگمانی سے بچتے رہو، بدگمانی اکثر تحقیق کے بعد جھوٹی بات ثابت ہوتی ہے اور کسی کے عیوب ڈھونڈنے کے پیچھے نہ پڑو، کسی کا عیب خواہ مخواہ مت ٹٹولو اور کسی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ بڑھاؤ اور حسد نہ کرو، بغض نہ رکھو، کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "Beware of suspicion, for suspicion is the worst of false tales. and do not look for the others' faults, and do not do spying on one another, and do not practice Najsh, and do not be jealous of one another and do not hate one another, and do not desert (stop talking to) one another. And O, Allah's worshipers! Be brothers!"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 92


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
59. بَابُ مَا يَكُونُ مِنَ الظَّنِّ:
59. باب: گمان سے کوئی بات کہنا۔
(59) Chapter. What sort of suspicion is allowed.
حدیث نمبر: 6067
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سعيد بن عفير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة، قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" ما اظن فلانا وفلانا يعرفان من ديننا شيئا" قال الليث: كانا رجلين من المنافقين.(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا أَظُنُّ فُلَانًا وَفُلَانًا يَعْرِفَانِ مِنْ دِينِنَا شَيْئًا" قَالَ اللَّيْثُ: كَانَا رَجُلَيْنِ مِنَ الْمُنَافِقِينَ.
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں گمان کرتا ہوں کہ فلاں اور فلاں ہمارے دین کی کوئی بات نہیں جانتے ہیں۔ لیث بن سعد نے بیان کیا کہ یہ دونوں آدمی منافق تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Aisha: The Prophet said, "I do not think that so-and-so and so-and-so know anything of our religion." (And Al-Laith said, "These two persons were among the hypocrites.")
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 93


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 6068
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث بهذا، وقالت: دخل علي النبي صلى الله عليه وسلم يوما وقال:" يا عائشة ما اظن فلانا وفلانا يعرفان ديننا الذي نحن عليه".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بِهَذَا، وَقَالَتْ: دَخَلَ عَلَيّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا وَقَالَ:" يَا عَائِشَةُ مَا أَظُنُّ فُلَانًا وَفُلَانًا يَعْرِفَانِ دِينَنَا الَّذِي نَحْنُ عَلَيْهِ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے یہی حدیث نقل کی اور (اس میں یوں ہے کہ) عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے اور فرمایا عائشہ میں گمان کرتا ہوں کہ فلاں فلاں لوگ ہم جس دین پر ہیں اس کو نہیں پہچانتے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Al-Laith: `Aisha said "The Prophet entered upon me one day and said, 'O `Aisha! I do not think that so-and-so and so-and-so know anything of our religion which we follow."'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 94


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
60. بَابُ سَتْرِ الْمُؤْمِنِ عَلَى نَفْسِهِ:
60. باب: مومن کا اپنے (عیب) پر پردہ ڈالنا۔
(60) Chapter. (It is recommended that) a believer should conceal what sins he may commit.
حدیث نمبر: 6069
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن ابن اخي ابن شهاب، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، قال: سمعت ابا هريرة، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" كل امتي معافى إلا المجاهرين، وإن من المجاهرة ان يعمل الرجل بالليل عملا ثم يصبح وقد ستره الله عليه، فيقول: يا فلان عملت البارحة كذا وكذا، وقد بات يستره ربه ويصبح يكشف ستر الله عنه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" كُلُّ أُمَّتِي مُعَافًى إِلَّا الْمُجَاهِرِينَ، وَإِنَّ مِنَ الْمُجَاهَرَةِ أَنْ يَعْمَلَ الرَّجُلُ بِاللَّيْلِ عَمَلًا ثُمَّ يُصْبِحَ وَقَدْ سَتَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ، فَيَقُولَ: يَا فُلَانُ عَمِلْتُ الْبَارِحَةَ كَذَا وَكَذَا، وَقَدْ بَاتَ يَسْتُرُهُ رَبُّهُ وَيُصْبِحُ يَكْشِفُ سِتْرَ اللَّهِ عَنْهُ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے، ان سے ان کے بھتیجے ابن شہاب نے، ان سے ابن شہاب (محمد بن مسلم) نے، ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری تمام امت کو معاف کیا جائے گا سوا گناہوں کو کھلم کھلا کرنے والوں کے اور گناہوں کو کھلم کھلا کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی (گناہ کا) کام کرے اور اس کے باوجود کہ اللہ نے اس کے گناہ کو چھپا دیا ہے مگر صبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے فلاں! میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا۔ رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گناہ چھپائے رکھا، لیکن جب صبح ہوئی تو وہ خود اللہ کے پردے کو کھولنے لگا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: I heard Allah's Apostle saying. "All the sins of my followers will be forgiven except those of the Mujahirin (those who commit a sin openly or disclose their sins to the people). An example of such disclosure is that a person commits a sin at night and though Allah screens it from the public, then he comes in the morning, and says, 'O so-and-so, I did such-and-such (evil) deed yesterday,' though he spent his night screened by his Lord (none knowing about his sin) and in the morning he removes Allah's screen from himself."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 95


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 6070
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا ابو عوانة، عن قتادة، عن صفوان بن محرز، ان رجلا سال ابن عمر، كيف سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في النجوى؟ قال: يدنو احدكم من ربه حتى يضع كنفه عليه، فيقول:" عملت كذا وكذا"، فيقول: نعم، ويقول:" عملت كذا وكذا"، فيقول: نعم، فيقرره، ثم يقول:" إني سترت عليك في الدنيا فانا اغفرها لك اليوم".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ، كَيْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي النَّجْوَى؟ قَالَ: يَدْنُو أَحَدُكُمْ مِنْ رَبِّهِ حَتَّى يَضَعَ كَنَفَهُ عَلَيْهِ، فَيَقُولُ:" عَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا"، فَيَقُولُ: نَعَمْ، وَيَقُولُ:" عَمِلْتَ كَذَا وَكَذَا"، فَيَقُولُ: نَعَمْ، فَيُقَرِّرُهُ، ثُمَّ يَقُولُ:" إِنِّي سَتَرْتُ عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا فَأَنَا أَغْفِرُهَا لَكَ الْيَوْمَ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے، انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے صفوان بن محرز سے کہ ایک شخص نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کانا پھوسی کے بارے میں کیا سنا ہے؟ (یعنی سرگوشی کے بارے میں) انہوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے (قیامت کے دن تم مسلمانوں) میں سے ایک شخص (جو گنہگار ہو گا) اپنے پروردگار سے نزدیک ہو جائے گا۔ پروردگار اپنا بازو اس پر رکھ دے گا اور فرمائے گا تو نے (فلاں دن دنیا میں) یہ یہ برے کام کئے تھے، وہ عرض کرے گا۔ بیشک (پروردگار مجھ سے خطائیں ہوئی ہیں پر تو غفور رحیم ہے) غرض (سارے گناہوں کا) اس سے (پہلے) اقرار کرا لے گا پھر فرمائے گا دیکھ میں نے دنیا میں تیرے گناہ چھپائے رکھے تو آج میں ان گناہوں کو بخش دیتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Safwan bin Muhriz: A man asked Ibn `Umar, "What did you hear Allah's Apostle saying regarding An-Najwa (secret talk between Allah and His believing worshipper on the Day of Judgment)?" He said, "(The Prophet said), "One of you will come close to his Lord till He will shelter him in His screen and say: Did you commit such-and-such sin? He will say, 'Yes.' Then Allah will say: Did you commit such and such sin? He will say, 'Yes.' So Allah will make him confess (all his sins) and He will say, 'I screened them (your sins) for you in the world, and today I forgive them for you."'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 96


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
61. بَابُ الْكِبْرِ:
61. باب: تکبر کے بارے میں۔
(61) Chapter. Pride and arrogance.
حدیث نمبر: Q6071
Save to word اعراب English
وقال مجاهد ثاني عطفه سورة الحج آية 9 مستكبر في نفسه عطفه رقبتهوَقَالَ مُجَاهِدٌ ثَانِيَ عِطْفِهِ سورة الحج آية 9 مُسْتَكْبِرٌ فِي نَفْسِهِ عِطْفُهُ رَقَبَتُهُ
اور مجاہد نے کہا کہ (سورۃ الحجر میں) «ثاني عطفه‏» سے مغرور مراد ہے۔ «عطفه» یعنی گھمنڈ سے گردن موڑنے والا۔
حدیث نمبر: 6071
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، حدثنا معبد بن خالد القيسي، عن حارثة بن وهب الخزاعي، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" الا اخبركم باهل الجنة، كل ضعيف متضاعف لو اقسم على الله لابره، الا اخبركم باهل النار، كل عتل جواظ مستكبر".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مَعْبَدُ بْنُ خَالِدٍ الْقَيْسِيُّ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ الْخُزَاعِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ الْجَنَّةِ، كُلُّ ضَعِيفٍ مُتَضَاعِفٍ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ، أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ النَّارِ، كُلُّ عُتُلٍّ جَوَّاظٍ مُسْتَكْبِرٍ".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے معبد بن خالد قیسی نے بیان کیا، ان سے حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں جنت والوں کی خبر نہ دوں۔ ہر کمزور و تواضع کرنے والا اگر وہ (اللہ کا نام لے کر) قسم کھا لے تو اللہ اس کی قسم پوری کر دے۔ کیا میں تمہیں دوزخ والوں کی خبر نہ دوں ہر تند خو، اکڑ کر چلنے والا اور متکبر۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Haritha bin Wahb: Al-Khuzai: The Prophet said, "Shall I inform you about the people of Paradise? They comprise every obscure unimportant humble person, and if he takes Allah's Oath that he will do that thing, Allah will fulfill his oath (by doing that). Shall I inform you about the people of the Fire? They comprise every cruel, violent, proud and conceited person."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 97


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 6072
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) وقال محمد بن عيسى، حدثنا هشيم، اخبرنا حميد الطويل، حدثنا انس بن مالك، قال:" إن كانت الامة من إماء اهل المدينة لتاخذ بيد رسول الله صلى الله عليه وسلم فتنطلق به حيث شاءت".(مرفوع) وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ:" إِنْ كَانَتِ الْأَمَةُ مِنْ إِمَاءِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَتَأْخُذُ بِيَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَنْطَلِقُ بِهِ حَيْثُ شَاءَتْ".
اور محمد بن عیسیٰ نے بیان کیا کہ ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم کو حمید طویل نے خبر دی، کہا ہم سے انس بن مالک نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کا یہ حال تھا کہ ایک لونڈی مدینہ کی لونڈیوں میں سے آپ کا ہاتھ پکڑ لیتی اور اپنے کسی بھی کام کے لیے جہاں چاہتی آپ کو لے جاتی تھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Anas bin Malik said, "Any of the female slaves of Medina could take hold of the hand of Allah's Apostle and take him wherever she wished."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 97


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
62. بَابُ الْهِجْرَةِ:
62. باب: ترک ملاقات کا بیان۔
(62) Chapter. Al-Hijra [(to desert or) cut one’s relation with another Muslim (i.e., not to speak to him on meeting him)].
حدیث نمبر: Q6073
Save to word اعراب English
وقول رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يحل لرجل ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليالوَقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو تین رات سے زیادہ چھوڑے رکھے (اس میں ملاپ کرنے کی تاکید ہے)۔
حدیث نمبر: 6073
Save to word اعراب English
(موقوف) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: حدثني عوف بن مالك بن الطفيل هو ابن الحارث، وهو ابن اخي عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم لامها، ان عائشة، حدثت ان عبد الله بن الزبير، قال في بيع او عطاء اعطته عائشة:" والله لتنتهين عائشة او لاحجرن عليها، فقالت: اهو قال هذا؟ قالوا: نعم، قالت: هو لله علي نذر ان لا اكلم ابن الزبير ابدا، فاستشفع ابن الزبير إليها حين طالت الهجرة، فقالت: لا والله لا اشفع فيه ابدا ولا اتحنث إلى نذري، فلما طال ذلك على ابن الزبير كلم المسور بن مخرمة، وعبد الرحمن بن الاسود بن عبد يغوث، وهما من بني زهرة، وقال لهما: انشدكما بالله لما ادخلتماني على عائشة، فإنها لا يحل لها ان تنذر قطيعتي، فاقبل به المسور، وعبد الرحمن مشتملين بارديتهما حتى استاذنا على عائشة، فقالا: السلام عليك ورحمة الله وبركاته، اندخل؟ قالت عائشة: ادخلوا قالوا: كلنا قالت: نعم ادخلوا كلكم، ولا تعلم ان معهما ابن الزبير، فلما دخلوا دخل ابن الزبير الحجاب فاعتنق عائشة وطفق يناشدها ويبكي، وطفق المسور، وعبد الرحمن يناشدانها إلا ما كلمته وقبلت منه، ويقولان: إن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عما قد علمت من الهجرة فإنه لا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليال، فلما اكثروا على عائشة من التذكرة والتحريج طفقت تذكرهما نذرها وتبكي وتقول: إني نذرت والنذر شديد، فلم يزالا بها حتى كلمت ابن الزبير واعتقت في نذرها ذلك اربعين رقبة، وكانت تذكر نذرها بعد ذلك فتبكي حتى تبل دموعها خمارها".(موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَوْفُ بْنُ مَالِكِ بْنِ الطُّفَيْلِ هُوَ ابْنُ الْحَارِثِ، وَهُوَ ابْنُ أَخِي عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُمِّهَا، أَنَّ عَائِشَةَ، حُدِّثَتْ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، قَالَ فِي بَيْعٍ أَوْ عَطَاءٍ أَعْطَتْهُ عَائِشَةُ:" وَاللَّهِ لَتَنْتَهِيَنَّ عَائِشَةُ أَوْ لَأَحْجُرَنَّ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: أَهُوَ قَالَ هَذَا؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَتْ: هُوَ لِلَّهِ عَلَيَّ نَذْرٌ أَنْ لَا أُكَلِّمَ ابْنَ الزُّبَيْرِ أَبَدًا، فَاسْتَشْفَعَ ابْنُ الزُّبَيْرِ إِلَيْهَا حِينَ طَالَتِ الْهِجْرَةُ، فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ لَا أُشَفِّعُ فِيهِ أَبَدًا وَلَا أَتَحَنَّثُ إِلَى نَذْرِي، فَلَمَّا طَالَ ذَلِكَ عَلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ كَلَّمَ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ، وَهُمَا مِنْ بَنِي زُهْرَةَ، وَقَالَ لَهُمَا: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ لَمَّا أَدْخَلْتُمَانِي عَلَى عَائِشَةَ، فَإِنَّهَا لَا يَحِلُّ لَهَا أَنْ تَنْذِرَ قَطِيعَتِي، فَأَقْبَلَ بِهِ الْمِسْوَرُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ مُشْتَمِلَيْنِ بِأَرْدِيَتِهِمَا حَتَّى اسْتَأْذَنَا عَلَى عَائِشَةَ، فَقَالَا: السَّلَامُ عَلَيْكِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، أَنَدْخُلُ؟ قَالَتْ عَائِشَةُ: ادْخُلُوا قَالُوا: كُلُّنَا قَالَتْ: نَعَم ادْخُلُوا كُلُّكُمْ، وَلَا تَعْلَمُ أَنَّ مَعَهُمَا ابْنَ الزُّبَيْرِ، فَلَمَّا دَخَلُوا دَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ الْحِجَابَ فَاعْتَنَقَ عَائِشَةَ وَطَفِقَ يُنَاشِدُهَا وَيَبْكِي، وَطَفِقَ الْمِسْوَرُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ يُنَاشِدَانِهَا إِلَّا مَا كَلَّمَتْهُ وَقَبِلَتْ مِنْهُ، وَيَقُولَانِ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَمَّا قَدْ عَلِمْتِ مِنَ الْهِجْرَةِ فَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ، فَلَمَّا أَكْثَرُوا عَلَى عَائِشَةَ مِنَ التَّذْكِرَةِ وَالتَّحْرِيجِ طَفِقَتْ تُذَكِّرُهُمَا نَذْرَهَا وَتَبْكِي وَتَقُولُ: إِنِّي نَذَرْتُ وَالنَّذْرُ شَدِيدٌ، فَلَمْ يَزَالَا بِهَا حَتَّى كَلَّمَتِ ابْنَ الزُّبَيْرِ وَأَعْتَقَتْ فِي نَذْرِهَا ذَلِكَ أَرْبَعِينَ رَقَبَةً، وَكَانَتْ تَذْكُرُ نَذْرَهَا بَعْدَ ذَلِكَ فَتَبْكِي حَتَّى تَبُلَّ دُمُوعُهَا خِمَارَهَا".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے، کہا مجھ سے عوف بن مالک بن طفیل نے بیان کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مادری بھتیجے تھے، انہوں نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کوئی چیز بھیجی یا خیرات کی تو عبداللہ بن زبیر جو ان کے بھانجے تھے کہنے لگے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایسے معاملوں سے باز رہنا چاہیئے نہیں تو اللہ کی قسم میں ان کے لیے حجر کا حکم جاری کر دوں گا۔ ام المؤمنین نے کہا کیا اس نے یہ الفاظ کہے ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ جی ہاں۔ فرمایا پھر میں اللہ سے نذر کرتی ہوں کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے اب کبھی نہیں بولوں گی۔ اس کے بعد جب ان کے قطع تعلقی پر عرصہ گزر گیا۔ تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لیے ان سے سفارش کی گئی (کہ انہیں معاف فرما دیں) ام المؤمنین نے کہا ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! اس کے بارے میں کوئی سفارش نہیں مانوں گی اور اپنی نذر نہیں توڑوں گی۔ جب یہ قطعی تعلق عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لیے بہت تکلیف دہ ہو گئی تو انہوں نے مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن اسود بن عبد یغوث رضی اللہ عنہم سے اس سلسلے میں بات کی وہ دونوں بنی زہرہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے ان سے کہا کہ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کسی طرح تم لوگ مجھے عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں داخل کرا دو کیونکہ ان کے لیے یہ جائز نہیں کہ میرے ساتھ صلہ رحمی کو توڑنے کی قسم کھائیں چنانچہ مسور اور عبدالرحمٰن دونوں اپنی چادروں میں لپٹے ہوئے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو اس میں ساتھ لے کر آئے اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے اندر آنے کی اجازت چاہی اور عرض کی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، کیا ہم اندر آ سکتے ہیں؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا آ جاؤ۔ انہوں نے عرض کیا ہم سب؟ کہا ہاں، سب آ جاؤ۔ ام المؤمنین کو اس کا علم نہیں تھا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بھی ان کے ساتھ ہیں۔ جب یہ اندر گئے تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما پردہ ہٹا کر اندر چلے گئے اور ام المؤمنین رضی اللہ عنہا سے لپٹ کر اللہ کا واسطہ دینے لگے اور رونے لگے (کہ معاف کر دیں، یہ ام المؤمنین کے بھانجے تھے) مسور اور عبدالرحمٰن بھی ام المؤمنین کو اللہ کا واسطہ دینے لگے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بولیں اور انہیں معاف کر دیں ان حضرات نے یہ بھی عرض کیا کہ جیسا کہ تم کو معلوم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلق توڑنے سے منع کیا ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ والی حدیث یاد دلانے لگے اور یہ کہ اس میں نقصان ہے تو ام المؤمنین بھی انہیں یاد دلانے لگیں اور رونے لگیں اور فرمانے لگیں کہ میں نے تو قسم کھا لی ہے؟ اور قسم کا معاملہ سخت ہے لیکن یہ بزرگ لوگ برابر کوشش کرتے رہے، یہاں تک کہ ام المؤمنین نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بات کر لی اور اپنی قسم (توڑنے) کی وجہ سے چالیس غلام آزاد کئے۔ اس کے بعد جب بھی آپ یہ قسم یاد کرتیں تو رونے لگتیں اور آپ کا دوپٹہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Aisha: (the wife of the Prophet) that she was told that `Abdullah bin Az-Zubair (on hearing that she was selling or giving something as a gift) said, "By Allah, if `Aisha does not give up this, I will declare her incompetent to dispose of her wealth." I said, "Did he (`Abdullah bin Az-Zubair) say so?" They (people) said, "Yes." `Aisha said, "I vow to Allah that I will never speak to Ibn Az-Zubair." When this desertion lasted long, `Abdullah bin Az-Zubair sought intercession with her, but she said, "By Allah, I will not accept the intercession of anyone for him, and will not commit a sin by breaking my vow." When this state of affairs was prolonged on Ibn Az-Zubair (he felt it hard on him), he said to Al- Miswar bin Makhrama and `Abdur-Rahman bin Al-Aswad bin 'Abu Yaghuth, who were from the tribe of Bani Zahra, "I beseech you, by Allah, to let me enter upon `Aisha, for it is unlawful for her to vow to cut the relation with me." So Al-Miswar and `Abdur-Rahman, wrapping their sheets around themselves, asked `Aisha's permission saying, "Peace and Allah's Mercy and Blessings be upon you! Shall we come in?" `Aisha said, "Come in." They said, "All of us?" She said, "Yes, come in all of you," not knowing that Ibn Az- Zubair was also with them. So when they entered, Ibn Az-Zubair entered the screened place and got hold of `Aisha and started requesting her to excuse him, and wept. Al-Miswar and `Abdur Rahman also started requesting her to speak to him and to accept his repentance. They said (to her), "The Prophet forbade what you know of deserting (not speaking to your Muslim Brethren), for it is unlawful for any Muslim not to talk to his brother for more than three nights (days)." So when they increased their reminding her (of the superiority of having good relation with Kith and kin, and of excusing others' sins), and brought her down to a critical situation, she started reminding them, and wept, saying, "I have made a vow, and (the question of) vow is a difficult one." They (Al-Miswar and `Abdur-Rahman) persisted in their appeal till she spoke with `Abdullah bin Az- Zubair and she manumitted forty slaves as an expiation for her vow. Later on, whenever she remembered her vow, she used to weep so much that her veil used to become wet with her tears.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 98


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

Previous    8    9    10    11    12    13    14    15    16    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.