صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: اخلاق کے بیان میں
60. بَابُ سَتْرِ الْمُؤْمِنِ عَلَى نَفْسِهِ:
باب: مومن کا اپنے (عیب) پر پردہ ڈالنا۔
حدیث نمبر: 6069
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" كُلُّ أُمَّتِي مُعَافًى إِلَّا الْمُجَاهِرِينَ، وَإِنَّ مِنَ الْمُجَاهَرَةِ أَنْ يَعْمَلَ الرَّجُلُ بِاللَّيْلِ عَمَلًا ثُمَّ يُصْبِحَ وَقَدْ سَتَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ، فَيَقُولَ: يَا فُلَانُ عَمِلْتُ الْبَارِحَةَ كَذَا وَكَذَا، وَقَدْ بَاتَ يَسْتُرُهُ رَبُّهُ وَيُصْبِحُ يَكْشِفُ سِتْرَ اللَّهِ عَنْهُ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے، ان سے ان کے بھتیجے ابن شہاب نے، ان سے ابن شہاب (محمد بن مسلم) نے، ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری تمام امت کو معاف کیا جائے گا سوا گناہوں کو کھلم کھلا کرنے والوں کے اور گناہوں کو کھلم کھلا کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی (گناہ کا) کام کرے اور اس کے باوجود کہ اللہ نے اس کے گناہ کو چھپا دیا ہے مگر صبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے فلاں! میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا۔ رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گناہ چھپائے رکھا، لیکن جب صبح ہوئی تو وہ خود اللہ کے پردے کو کھولنے لگا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6069 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6069
حدیث حاشیہ:
(1)
اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت "سِتير'' بھی ہے کہ وہ پردہ پوشی کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ دنیا میں بندے کے بہت سے گناہوں پر پردہ ڈالتا ہے، اسی طرح آخرت میں بھی وہ اپنے بندوں کو ذلیل ورسوا نہیں کرے گا لیکن کچھ آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ خود اپنی پردہ دری کرتے ہیں، وہ چوری پھر سینہ زوری کرتے ہوئے اپنے گناہوں کا چرچا کرتے ہیں کہ ہم نے آج رات فلاں فلاں گناہ کیا ہے۔
یہ تو بے حیائی اور بے باکی ہے جسے اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرے گا۔
(2)
اللہ تعالیٰ بندے کے گناہ پر پردہ اسی صورت میں ڈالتا ہے کہ بندہ اپنے گناہ پر خود بھی پردہ ڈالنے والا ہو۔
اس کے برعکس جو انسان اپنے گناہوں کا چرچا کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کو ناراض کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ بھی اس کے گناہوں پر پردہ نہیں ڈالے گا۔
انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اور لوگوں سے حیا کرتے ہوئے اپنے گناہوں کی تشہیر نہ کرے تاکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے پناہ میں رکھے اور اسے ذلیل وخوار نہ کرے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6069
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
صحيح مسلم مختصر مع شرح نووي: تحت الحديث صحيح مسلم 7485
´پوشیدہ گناہوں کو لوگوں پر ظاہر کرنا ایسا سخت گناہ کبیرہ ہے`
«. . . سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: كُلُّ أُمَّتِي مُعَافَاةٌ إِلَّا الْمُجَاهِرِينَ، وَإِنَّ مِنَ الْإِجْهَارِ أَنْ يَعْمَلَ الْعَبْدُ بِاللَّيْلِ عَمَلًا، ثُمَّ يُصْبِحُ قَدْ سَتَرَهُ رَبُّهُ، فَيَقُولُ يَا فُلَانُ: قَدْ عَمِلْتُ الْبَارِحَةَ كَذَا وَكَذَا، وَقَدْ بَاتَ يَسْتُرُهُ رَبُّهُ، فَيَبِيتُ يَسْتُرُهُ رَبُّهُ، وَيُصْبِحُ يَكْشِفُ سِتْرَ اللَّهِ عَنْهُ . . .»
”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”میری تمام امت کے گناہ بخشے جائیں گے مگر ان لوگوں کے جو اپنے گناہوں کو فاش کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ آدمی رات کو ایک گناہ کا کام کرے، پھر صبح ہو اور پروردگار نے اس کا گناہ پوشیدہ رکھا ہو وہ دوسرے سے کہے: اے فلانے! میں نے گزشتہ رات کو ایسا ایسا کام کیا، رات کو تو پروردگار نے اس کو چھپایا اور رات بھر چھپاتا رہا، صبح کو اس نے پردہ کھول دیا . . .“ [صحيح مسلم/كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ: 7485]
� تشریح:
پوشیدہ گناہوں کو لوگوں پر ظاہر کرنا ایسا سخت گناہ کبیرہ ہے کہ معاف نہ ہو گا اس واسطے کہ اس میں گناہ پر جرات اور بےپروا ہی ثابت ہوتی ہے اور صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ظاہر کرنے والا اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا اور یہ جو بعض نادان کہتے ہیں کہ صاحب جس کا اللہ سے پردہ نہیں اس کا آدمی سے پردہ کرنا کیا ضروری ہے؟ سو غلط سمجھے ہیں کہ اگر وہ شرماتا اور ظاہر نہ کرتا البتہ اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرتا اور جب کہ اس نے بےحیا بن کر خود اپنا پردہ فاش کیا تو مغفرت اور پردہ پوشی کے لائق نہ رہا اور حدیث میں آیا ہے کہ پوشیدہ گناہ کی پوشیدہ توبہ کرے اور ظاہر گناہ کی ظاہر ہو کر توبہ کرے تاکہ نیک لوگ خوش ہو کر اس کی توبہ کے گواہ ہوں یا اور گناہ گار اس کو دیکھ کر توبہ پر مستعد ہوں۔ [تحفته الاخيار]
مختصر شرح نووی، حدیث/صفحہ نمبر: 7485
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7485
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا،میری تمام امت کومعافی ملے گی۔سوائے ان لوگوں کے جو (اپنے گناہوں کا)اعلان کرنے والے ہیں۔ اعلان میں یہ ہے کہ بندہ رات کو ایک کام کرے پھر صبح ہو تو اللہ نے اس کا پردہرکھا ہوا ہو اور وہ خود کہے اے فلاں!میں نے پچھلی رات ایسا ایساکام کیا حالانکہ اس نے رات گزاردی اس کے رب نے اس پر پردہ ڈالے رکھا اور وہ صبح کرتا ہے تو وہ اپنے رب کا ڈالا ہوا پردہ خود... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7485]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتاہےجو انسان چھپ کر اور پوشیدہ طور پر گناہ کرتا ہے اس کے اندر شرم و حیاء باقی ہے اور وہ اس کام کو برا ہی سمجھتا ہے،
اس لیے وہ اس کام سے باز آسکتا ہے،
توبہ کرسکتا ہے لیکن جو انسان کسی گناہ کا اعلانیہ طور پر ارتکاب کرتاہے،
اس کا معنی یہ ہے،
وہ شرم و حیا سے عاری ہے اور گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھتا،
بلکہ ڈھٹائی سے کام لےکر اس کو یوں کرتا ہے کہ یہ بھی اچھا کام ہے،
یا دوسروں کی غیرت کو للکارتا ہے،
یا ان کے جذبات کا خون کرتا ہے،
اس لیے اس کام سے باز آنا یا توبہ کرناممکن نہیں رہتا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7485