Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: اخلاق کے بیان میں
59. بَابُ مَا يَكُونُ مِنَ الظَّنِّ:
باب: گمان سے کوئی بات کہنا۔
حدیث نمبر: 6068
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بِهَذَا، وَقَالَتْ: دَخَلَ عَلَيّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا وَقَالَ:" يَا عَائِشَةُ مَا أَظُنُّ فُلَانًا وَفُلَانًا يَعْرِفَانِ دِينَنَا الَّذِي نَحْنُ عَلَيْهِ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے یہی حدیث نقل کی اور (اس میں یوں ہے کہ) عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے اور فرمایا عائشہ میں گمان کرتا ہوں کہ فلاں فلاں لوگ ہم جس دین پر ہیں اس کو نہیں پہچانتے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6068 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6068  
حدیث حاشیہ:
زمانہ نبوی میں منافقین کی ایک جماعت بہت ہی خطرناک تھی جو اوپر سے مسلمان بنتے اور دل سے ہر وقت مسلمانوں کا برا چاہتے ایسے بد بختوں نے ہمیشہ اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ہے، ایسے لوگ آج کل بھی بہت ہیں۔
إلا ما شاءاللہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6068   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6068  
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو آدمیوں کے اخلاق وکردار کو دیکھ کر فرمایا:
وہ میرے گمان کے مطابق ہمارے دین اسلام کے متعلق کچھ بھی معلومات نہیں رکھتے۔
(2)
واضح رہے کہ اس طرح کی بدگمانی اس زمرے میں نہیں آتی جو گناہ اور خلاف شریعت ہے کیونکہ بعض اوقات ہمیں کسی سے اچھا فعل معلوم نہیں ہوتا تو اس کے متعلق بدگمانی سی پیدا ہو جاتی ہے، مثلاً:
کوئی عشاء اور صبح کی نماز میں حاضر نہیں ہوتا تو اس کے متعلق ہم بدگمانی کر لیتے ہیں کہ وہ بیمار ہے یا اپنے دین میں کمزور ہے۔
(فتح الباري: 596/10)
اس بدگمانی کی بنیاد وہ مشہور حدیث بھی ہوسکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عشاء اور صبح کی نماز منافقین پر بہت بھاری ہوتی ہے۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 657)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6068