صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
حدیث نمبر: 4663
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا حبان، حدثنا همام، حدثنا ثابت، حدثنا انس، قال: حدثني ابو بكر رضي الله عنه، قال: كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في الغار، فرايت آثار المشركين، قلت: يا رسول الله، لو ان احدهم رفع قدمه رآنا، قال:" ما ظنك باثنين الله ثالثهما".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغَارِ، فَرَأَيْتُ آثَارَ الْمُشْرِكِينَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ رَفَعَ قَدَمَهُ رَآنَا، قَالَ:" مَا ظَنُّكَ بِاثْنَيْنِ اللَّهُ ثَالِثُهُمَا".
ہم سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے حبان بن ہلال باہلی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: انہوں نے کہا کہ میں غار ثور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ میں نے کافروں کے پاؤں دیکھے (جو ہمارے سر پر کھڑے ہوئے تھے) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گھبرا گئے اور بولے: یا رسول اللہ! اگر ان میں سے کسی نے ذرا بھی قدم اٹھائے تو وہ ہم کو دیکھ لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو کیا سمجھتا ہے ان دو آدمیوں کو (کوئی نقصان پہنچا سکے گا) جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالیٰ ہو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Bakr: I was in the company of the Prophet in the cave, and on seeing the traces of the pagans, I said, "O Allah's Messenger If one of them (pagans) should lift up his foot, he will see us." He said, "What do you think of two, the third of whom is Allah?"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 185


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4664
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا ابن عيينة، عن ابن جريج، عن ابن ابي مليكة، عن ابن عباس رضي الله عنهما، انه قال:" حين وقع بينه وبين ابن الزبير، قلت: ابوه الزبير، وامه اسماء، وخالته عائشة، وجده ابو بكر، وجدته صفية، فقلت: لسفيان إسناده، فقال: حدثنا فشغله إنسان، ولم يقل ابن جريج".(موقوف) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ قَالَ:" حِينَ وَقَعَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ ابْنِ الزُّبَيْرِ، قُلْتُ: أَبُوهُ الزُّبَيْرُ، وَأُمُّهُ أَسْمَاءُ، وَخَالَتُهُ عَائِشَةُ، وَجَدُّهُ أَبُو بَكْرٍ، وَجَدَّتُهُ صَفِيَّةُ، فَقُلْتُ: لِسُفْيَانَ إِسْنَادُهُ، فَقَالَ: حَدَّثَنَا فَشَغَلَهُ إِنْسَانٌ، وَلَمْ يَقُلْ ابْنُ جُرَيْجٍ".
ہم سے عبداللہ بن محمد بن جعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب میرا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے اختلاف ہو گیا تھا تو میں نے کہا کہ ان کے والد زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ تھے، ان کی والدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا تھیں، ان کی خالہ عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ ان کے نانا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور ان کی دادی (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی) صفیہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ (عبداللہ بن محمد نے بیان کیا کہ) میں نے سفیان (ابن عیینہ) سے پوچھا کہ اس روایت کی سند کیا ہے؟ تو انہوں نے کہنا شروع کیا «حدثنا» ہم سے حدیث بیان کی لیکن ابھی اتنا ہی کہنے پائے تھے کہ انہیں ایک دوسرے شخص نے دوسری باتوں میں لگا دیا اور (راوی کا نام) ابن جریج وہ نہ بیان کر سکے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn Abi Mulaika: When there happened the disagreement between Ibn Az-Zubair and Ibn `Abbas, I said (to the latter), "(Why don't you take the oath of allegiance to him as) his father is Az-Zubair, and his mother is Asma,' and his aunt is `Aisha, and his maternal grandfather is Abu Bakr, and his grandmother is Safiya?"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 186


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4665
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني عبد الله بن محمد، قال: حدثني يحيى بن معين، حدثنا حجاج، قال ابن جريج: قال ابن ابي مليكة: وكان بينهما شيء، فغدوت على ابن عباس، فقلت: اتريد ان تقاتل ابن الزبير فتحل حرم الله؟ فقال: معاذ الله، إن الله كتب ابن الزبير وبني امية محلين، وإني والله لا احله ابدا، قال: قال الناس: بايع لابن الزبير، فقلت: واين بهذا الامر عنه اما ابوه فحواري النبي صلى الله عليه وسلم يريد الزبير، واما جده فصاحب الغار يريد ابا بكر، وامه فذات النطاق يريد اسماء، واما خالته فام المؤمنين يريد عائشة، واما عمته فزوج النبي صلى الله عليه وسلم يريد خديجة، واما عمة النبي صلى الله عليه وسلم فجدته يريد صفية، ثم عفيف في الإسلام قارئ للقرآن، والله إن وصلوني وصلوني من قريب، وإن ربوني ربوني اكفاء كرام، فآثر التويتات والاسامات والحميدات، يريد ابطنا من بني اسد، بني تويت، وبني اسامة، وبني اسد، إن ابن ابي العاص برز يمشي القدمية يعني عبد الملك بن مروان، وإنه لوى ذنبه يعني ابن الزبير".(مرفوع) حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: وَكَانَ بَيْنَهُمَا شَيْءٌ، فَغَدَوْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقُلْتُ: أَتُرِيدُ أَنْ تُقَاتِلَ ابْنَ الزُّبَيْرِ فَتُحِلَّ حَرَمَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: مَعَاذَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ ابْنَ الزُّبَيْرِ وَبَنِي أُمَيَّةَ مُحِلِّينَ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُحِلُّهُ أَبَدًا، قَالَ: قَالَ النَّاسُ: بَايِعْ لِابْنِ الزُّبَيْرِ، فَقُلْتُ: وَأَيْنَ بِهَذَا الْأَمْرِ عَنْهُ أَمَّا أَبُوهُ فَحَوَارِيُّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ الزُّبَيْرَ، وَأَمَّا جَدُّهُ فَصَاحِبُ الْغَارِ يُرِيدُ أَبَا بَكْرٍ، وَأُمُّهُ فَذَاتُ النِّطَاقِ يُرِيدُ أَسْمَاءَ، وَأَمَّا خَالَتُهُ فَأُمُّ الْمُؤْمِنِينَ يُرِيدُ عَائِشَةَ، وَأَمَّا عَمَّتُهُ فَزَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ خَدِيجَةَ، وَأَمَّا عَمَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَدَّتُهُ يُرِيدُ صَفِيَّةَ، ثُمَّ عَفِيفٌ فِي الْإِسْلَامِ قَارِئٌ لِلْقُرْآنِ، وَاللَّهِ إِنْ وَصَلُونِي وَصَلُونِي مِنْ قَرِيبٍ، وَإِنْ رَبُّونِي رَبُّونِي أَكْفَاءٌ كِرَامٌ، فَآثَرَ التُّوَيْتَاتِ وَالْأُسَامَاتِ وَالْحُمَيْدَاتِ، يُرِيدُ أَبْطُنًا مِنْ بَنِي أَسَدٍ، بَنِي تُوَيْتٍ، وَبَنِي أُسَامَةَ، وَبَنِي أَسَدٍ، إِنَّ ابْنَ أَبِي الْعَاصِ بَرَزَ يَمْشِي الْقُدَمِيَّةَ يَعْنِي عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ مَرْوَانَ، وَإِنَّهُ لَوَّى ذَنَبَهُ يَعْنِي ابْنَ الزُّبَيْرِ".
مجھ سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ ابن معین نے بیان کیا، کہا ہم سے حجاج بن محمد نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ ابن عباس اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم کے درمیان بیعت کا جھگڑا پیدا ہو گیا تھا۔ میں صبح کو ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا آپ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے جنگ کرنا چاہتے ہیں، اس کے باوجود کہ اللہ کے حرم کی بےحرمتی ہو گی؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: معاذاللہ! یہ تو اللہ تعالیٰ نے ابن زبیر اور بنو امیہ ہی کے مقدر میں لکھ دیا ہے کہ وہ حرم کی بےحرمتی کریں۔ اللہ کی قسم! میں کسی صورت میں بھی اس بےحرمتی کے لیے تیار نہیں ہوں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ لوگوں نے مجھ سے کہا تھا کہ ابن زبیر سے بیعت کر لو۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے ان کی خلافت کو تسلیم کرنے میں کیا تامل ہو سکتا ہے، ان کے والد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حواری تھے، آپ کی مراد زبیر بن عوام سے تھی۔ ان کے نانا صاحب غار تھے، اشارہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف تھا۔ ان کی والدہ صاحب نطاقین تھیں یعنی اسماء رضی اللہ عنہا۔ ان کی خالہ ام المؤمنین تھیں، مراد عائشہ رضی اللہ عنہا سے تھی۔ ان کی پھوپھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ تھیں، مراد خدیجہ رضی اللہ عنہا سے تھی۔ ابن عباس کی مراد ان باتوں سے یہ تھی کہ وہ بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی ان کی دادی ہیں، اشارہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی طرف تھا۔ اس کے علاوہ وہ خود اسلام میں ہمیشہ صاف کردار اور پاک دامن رہے اور قرآن کے عالم ہیں اور اللہ کی قسم! اگر وہ مجھ سے اچھا برتاؤ کریں تو ان کو کرنا ہی چاہئے وہ میرے بہت قریب کے رشتہ دار ہیں اور اگر وہ مجھ پر حکومت کریں تو خیر حکومت کریں وہ ہمارے برابر کے عزت والے ہیں۔ لیکن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے تو تویت، اسامہ اور حمید کے لوگوں کو ہم پر ترجیح دی ہے۔ ان کی مراد مختلف قبائل یعنی بنو اسد، بنو تویت، بنو اسامہ اور بنو اسد سے تھی۔ ادھر ابن ابی العاص بڑی عمدگی سے چل رہا ہے یعنی عبدالملک بن مروان مسلسل پیش قدمی کر رہا ہے اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اس کے سامنے دم دبا لی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn Abi Mulaika: There was a disagreement between them (i.e. Ibn `Abbas and Ibn Az-Zubair) so I went to Ibn `Abbas in the morning and said (to him), "Do you want to fight against Ibn Zubair and thus make lawful what Allah has made unlawful (i.e. fighting in Meccas?" Ibn `Abbas said, "Allah forbid! Allah ordained that Ibn Zubair and Bani Umaiya would permit (fighting in Mecca), but by Allah, I will never regard it as permissible." Ibn `Abbas added. "The people asked me to take the oath of allegiance to Ibn AzZubair. I said, 'He is really entitled to assume authority for his father, Az-Zubair was the helper of the Prophet, his (maternal) grandfather, Abu Bakr was (the Prophet's) companion in the cave, his mother, Asma' was 'Dhatun-Nitaq', his aunt, `Aisha was the mother of the Believers, his paternal aunt, Khadija was the wife of the Prophet , and the paternal aunt of the Prophet was his grandmother. He himself is pious and chaste in Islam, well versed in the Knowledge of the Qur'an. By Allah! (Really, I left my relatives, Bani Umaiya for his sake though) they are my close relatives, and if they should be my rulers, they are equally apt to be so and are descended from a noble family.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 187


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4666
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا محمد بن عبيد بن ميمون، حدثنا عيسى بن يونس، عن عمر بن سعيد، قال: اخبرني ابن ابي مليكة: دخلنا على ابن عباس،فقال:" الا تعجبون لابن الزبير، قام في امره هذا"، فقلت: لاحاسبن نفسي له ما حاسبتها لابي بكر ولا لعمر، ولهما كانا اولى بكل خير منه، وقلت: ابن عمة النبي صلى الله عليه وسلم، وابن الزبير، وابن ابي بكر، وابن اخي خديجة، وابن اخت عائشة، فإذا هو يتعلى عني، ولا يريد ذلك، فقلت: ما كنت اظن اني اعرض هذا من نفسي فيدعه، وما اراه يريد خيرا، وإن كان لا بد لان يربني بنو عمي، احب إلي من ان يربني غيرهم".(موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: دَخَلْنَا عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ،فَقَالَ:" أَلَا تَعْجَبُونَ لِابْنِ الزُّبَيْرِ، قَامَ فِي أَمْرِهِ هَذَا"، فَقُلْتُ: لَأُحَاسِبَنَّ نَفْسِي لَهُ مَا حَاسَبْتُهَا لِأَبِي بَكْرٍ وَلَا لِعُمَرَ، وَلَهُمَا كَانَا أَوْلَى بِكُلِّ خَيْرٍ مِنْهُ، وَقُلْتُ: ابْنُ عَمَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَابْنُ الزُّبَيْرِ، وَابْنُ أَبِي بَكْرٍ، وَابْنُ أَخِي خَدِيجَةَ، وَابْنُ أُخْتِ عَائِشَةَ، فَإِذَا هُوَ يَتَعَلَّى عَنِّي، وَلَا يُرِيدُ ذَلِكَ، فَقُلْتُ: مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنِّي أَعْرِضُ هَذَا مِنْ نَفْسِي فَيَدَعُهُ، وَمَا أُرَاهُ يُرِيدُ خَيْرًا، وَإِنْ كَانَ لَا بُدَّ لَأَنْ يَرُبَّنِي بَنُو عَمِّي، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَرُبَّنِي غَيْرُهُمْ".
ہم سے محمد بن عبید بن میمون نے بیان کیا، کہا ہم سے عیسیٰ بن یونس نے، ان سے عمر بن سعید نے، انہیں ابن ابی ملیکہ نے خبر دی کہ ہم ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے کہا کہ ابن زبیر پر تمہیں حیرت نہیں ہوتی۔ وہ اب خلافت کے لیے کھڑے ہو گئے ہیں تو میں نے ارادہ کر لیا کہ ان کے لیے محنت مشقت کروں گا کہ ایسی محنت اور مشقت میں نے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے لیے بھی نہیں کی۔ حالانکہ وہ دونوں ان سے ہر حیثیت سے بہتر تھے۔ میں نے لوگوں سے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی کی اولاد میں سے ہیں۔ زبیر رضی اللہ عنہ کے بیٹے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نواسے، خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھائی کے بیٹے، عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہن کے بیٹے۔ لیکن عبداللہ بن زبیر نے کیا کیا وہ مجھ سے غرور کرنے لگے۔ انہوں نے نہیں چاہا کہ میں ان کے خاص مصاحبوں میں رہوں (اپنے دل میں کہا) مجھ کو ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ میں تو ان سے ایسی عاجزی کروں گا اور وہ اس پر بھی مجھ سے راضی نہ ہوں گے۔ خیر اب مجھے امید نہیں کہ وہ میرے ساتھ بھلائی کریں گے جو ہونا تھا وہ ہوا اب بنی امیہ جو میرے چچا زاد بھائی ہیں اگر مجھ پر حکومت کریں تو یہ مجھ کو اوروں کے حکومت کرنے سے زیادہ پسند ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn Abi Mulaika: We entered upon Ibn `Abbas and he said "Are you not astonished at Ibn Az-Zubair's assuming the caliphate?" I said (to myself), "I will support him and speak of his good traits as I did not do even for Abu Bakr and `Umar though they were more entitled to receive al I good than he was." I said "He (i.e Ibn Az-Zubair) is the son of the aunt of the Prophet and the son of AzZubair, and the grandson of Abu Bakr and the son of Khadija's brother, and the son of `Aisha's sister." Nevertheless, he considers himself to be superior to me and does not want me to be one of his friends. So I said, "I never expected that he would refuse my offer to support him, and I don't think he intends to do me any good, therefore, if my cousins should inevitably be my rulers, it will be better for me to be ruled by them than by some others."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 188


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
10. بَابُ قَوْلِهِ: {وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ}:
10. باب: آیت کی تفسیر ”نیز ان (نومسلموں کا بھی حق ہے) جن کی دلجوئی منظور ہے“۔
(10) Chapter. The Statement of Allah: “...And (for) to attract the hearts of those who have been inclined (towards Islam); and to free the captives...” (V.9:60)
حدیث نمبر: Q4667
Save to word اعراب English
قال مجاهد: يتالفهم بالعطية.قَالَ مُجَاهِدٌ: يَتَأَلَّفُهُمْ بِالْعَطِيَّةِ.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان نو مسلم لوگوں کو کچھ دے دلا کر ان کی دلجوئی فرمایا کرتے تھے۔
حدیث نمبر: 4667
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، عن ابيه، عن ابن ابي نعم، عن ابي سعيد رضي الله عنه، قال: بعث إلى النبي صلى الله عليه وسلم بشيء، فقسمه بين اربعة، وقال:" اتالفهم"، فقال رجل: ما عدلت، فقال:" يخرج من ضئضئ هذا، قوم يمرقون من الدين".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بُعِثَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ، فَقَسَمَهُ بَيْنَ أَرْبَعَةٍ، وَقَالَ:" أَتَأَلَّفُهُمْ"، فَقَالَ رَجُلٌ: مَا عَدَلْتَ، فَقَالَ:" يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا، قَوْمٌ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں ان کے والد سعید بن مسروق نے، انہیں ابن ابی نعم نے اور ان سے ابو سعید خدری نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مال آیا تو آپ نے چار آدمیوں میں اسے تقسیم کر دیا۔ (جو نو مسلم تھے) اور فرمایا کہ میں یہ مال دے کر ان کی دلجوئی کرنا چاہتا ہوں اس پر (بنو تمیم کا) ایک شخص بولا کہ آپ نے انصاف نہیں کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو دین سے باہر ہو جائیں گے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Sa`id: Something was sent to the Prophet and he distributed it amongst four (men) and said, "I want to attract their hearts,(to Islam thereby)," A man said (to the Prophet ), "You have not done justice." Thereupon the Prophet said, "There will emerge from the offspring of this (man) some people who will renounce the religion."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 189


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
11. بَابُ قَوْلِهِ: {الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ}:
11. باب: آیت «الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين» کی تفسیر۔
(11) Chapter. The Statement of Allah: “Those who defame such of the believers who give charity (in Allah’s Cause) voluntarily..." (V.9:79)
حدیث نمبر: Q4668
Save to word اعراب English
يلمزون: يعيبون وجهدهم، وجهدهم طاقتهم.يَلْمِزُونَ: يَعِيبُونَ وَجُهْدَهُمْ، وَجَهْدَهُمْ طَاقَتَهُمْ.
‏‏‏‏ «يلمزون» کا معنی عیب لگاتے ہیں، طعنہ مارتے ہیں۔ «جهدهم» (جیم کے ضمہ) اور «جهدهم» جیم کے نصب کے ساتھ دونوں قرآت ہیں۔ یعنی محنت مزدوری کر کے مقدور کے موافق دیتے ہیں۔
حدیث نمبر: 4668
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثني بشر بن خالد ابو محمد، اخبرنا محمد بن جعفر، عن شعبة، عن سليمان، عن ابي وائل، عن ابي مسعود، قال:" لما امرنا بالصدقة كنا نتحامل فجاء ابو عقيل بنصف صاع، وجاء إنسان باكثر منه، فقال المنافقون: إن الله لغني عن صدقة هذا، وما فعل هذا الآخر، إلا رئاء، فنزلت الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين في الصدقات والذين لا يجدون إلا جهدهم سورة التوبة آية 79، الآية".(موقوف) حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ أَبُو مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ:" لَمَّا أُمِرْنَا بِالصَّدَقَةِ كُنَّا نَتَحَامَلُ فَجَاءَ أَبُو عَقِيلٍ بِنِصْفِ صَاعٍ، وَجَاءَ إِنْسَانٌ بِأَكْثَرَ مِنْهُ، فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ: إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنْ صَدَقَةِ هَذَا، وَمَا فَعَلَ هَذَا الْآخَرُ، إِلَّا رِئَاءً، فَنَزَلَتْ الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلا جُهْدَهُمْ سورة التوبة آية 79، الْآيَةَ".
مجھ سے ابو محمد بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں سلیمان اعمش نے، انہیں ابووائل نے اور ان سے ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب ہمیں خیرات کرنے کا حکم ہوا تو ہم مزدوری پر بوجھ اٹھاتے (اور اس کی مزدوری صدقہ میں دے دیتے) چنانچہ ابوعقیل اسی مزدوری سے آدھا صاع خیرات لے کر آئے اور ایک دوسرے صحابی عبدالرحمٰن بن عوف اس سے زیادہ لائے۔ اس پر منافقوں نے کہا کہ اللہ کو اس (یعنی عقیل) کے صدقہ کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور اس دوسرے (عبدالرحمٰن بن عوف) نے تو محض دکھاوے کے لیے اتنا بہت سا صدقہ دیا ہے۔ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی «الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين في الصدقات والذين لا يجدون إلا جهدهم‏» کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو صدقات کے بارے میں نفل صدقہ دینے والے مسلمانوں پر طعن کرتے ہیں اور خصوصاً ان لوگوں پر جنہیں بجز ان کی محنت مزدوری کے کچھ نہیں ملتا۔ آخر آیت تک۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Musud: When we were ordered to give alms, we began to work as porters (to earn something we could give in charity). Abu Uqail came with one half of a Sa (special measure for food grains) and another person brought more than he did. So the hypocrites said, "Allah is not in need of the alms of this (i.e. 'Uqail); and this other person did not give alms but for showing off." Then Allah revealed:-- 'Those who criticize such of the Believers who give charity voluntarily and those who could not find to give in charity except what is available to them.' (9.79)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 190


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4669
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن إبراهيم، قال: قلت لابي اسامة: احدثكم زائدة، عن سليمان، عن شقيق، عن ابي مسعود الانصاري، قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يامر بالصدقة، فيحتال احدنا حتى يجيء بالمد، وإن لاحدهم اليوم مائة الف، كانه يعرض بنفسه".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي أُسَامَةَ: أَحَدَّثَكُمْ زَائِدَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُ بِالصَّدَقَةِ، فَيَحْتَالُ أَحَدُنَا حَتَّى يَجِيءَ بِالْمُدِّ، وَإِنَّ لِأَحَدِهِمُ الْيَوْمَ مِائَةَ أَلْفٍ، كَأَنَّهُ يُعَرِّضُ بِنَفْسِهِ".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابواسامہ (حماد بن اسامہ) سے پوچھا، آپ حضرات سے زائدہ بن قدامہ نے بیان کیا تھا کہ ان سے سلیمان نے، ان سے شقیق نے اور ان سے ابومسعود انصاری نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ کی ترغیب دیتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ مزدوری کر کے لاتے اور (بڑی مشکل سے) ایک مد کا صدقہ کر سکتے لیکن آج انہیں میں بعض ایسے ہیں جن کے پاس لاکھوں درہم ہیں۔ غالباً ان کا اشارہ خود اپنی طرف تھا (حماد نے کہا ہاں سچ ہے)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Shaqiq: Abu Mas`ud Al-Ansari said, "Allah's Messenger , used to order us to give alms. So one of us would exert himself to earn one Mud (special measure of wheat or dates, etc.,) to give in charity; while today one of us may have one hundred thousand." Shaqiq said: As if Abu Masud referred to himself.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 191


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
12. بَابُ قَوْلِهِ: {اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً}:
12. باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! آپ ان کے لیے استغفار کریں یا نہ کریں اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ بھی استغفار کریں گے (جب بھی اللہ انہیں نہیں بخشے گا)“۔
(12) Chapter. The Statement of Allah: “Whether you (O Muhammad ) ask forgiveness for them (hypocrites) or ask not forgiveness for them - (and even) if you ask seventy times for their forgiveness - Allah will not forgive them...” (V.9:80)
حدیث نمبر: 4670
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني عبيد بن إسماعيل، عن ابي اسامة، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: لما توفي عبد الله بن ابي، جاء ابنه عبد الله بن عبد الله إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فساله ان يعطيه قميصه يكفن فيه اباه، فاعطاه، ثم ساله ان يصلي عليه، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي عليه، فقام عمر، فاخذ بثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، تصلي عليه وقد نهاك ربك ان تصلي عليه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما خيرني الله، فقال: استغفر لهم او لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة سورة التوبة آية 80، وسازيده على السبعين"، قال: إنه منافق، قال: فصلى عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانزل الله ولا تصل على احد منهم مات ابدا ولا تقم على قبره سورة التوبة آية 84.(مرفوع) حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، جَاءَ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ أَنْ يُعْطِيَهُ قَمِيصَهُ يُكَفِّنُ فِيهِ أَبَاهُ، فَأَعْطَاهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَامَ عُمَرُ، فَأَخَذَ بِثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تُصَلِّي عَلَيْهِ وَقَدْ نَهَاكَ رَبُّكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا خَيَّرَنِي اللَّهُ، فَقَالَ: اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً سورة التوبة آية 80، وَسَأَزِيدُهُ عَلَى السَّبْعِينَ"، قَالَ: إِنَّهُ مُنَافِقٌ، قَالَ: فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ سورة التوبة آية 84.
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے ابواسامہ نے، ان سے عبیداللہ بن عمری نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ جب عبداللہ بن ابی (منافق) کا انتقال ہوا تو اس کے لڑکے عبداللہ بن عبداللہ (جو پختہ مسلمان تھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ اپنی قمیص ان کے والد کے کفن کے لیے عنایت فرما دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قمیص عنایت فرمائی۔ پھر انہوں نے عرض کی کہ آپ نماز جنازہ بھی پڑھا دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ پڑھانے کے لیے بھی آگے بڑھ گئے۔ اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی نماز جنازہ پڑھانے جا رہے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے منع بھی فرما دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے فرمایا ہے «استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة‏» کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں خواہ نہ کریں۔ اگر آپ ان کے لیے ستر بار بھی استغفار کریں گے (تب بھی اللہ انہیں نہیں بخشے گا)۔ اس لیے میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا۔ (ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ زیادہ استغفار کرنے سے معاف کر دے) عمر رضی اللہ عنہ بولے لیکن یہ شخص تو منافق ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره‏» کہ اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس پر کبھی بھی نماز نہ پڑھئے اور نہ اس کی قبر پر کھڑا ہوئیے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Abbas: When `Abdullah bin 'Ubai died, his son `Abdullah bin `Abdullah came to Allah's Messenger and asked him to give him his shirt in order to shroud his father in it. He gave it to him and then `Abdullah asked the Prophet to offer the funeral prayer for him (his father). Allah's Messenger got up to offer the funeral prayer for him, but `Umar got up too and got hold of the garment of Allah's Messenger and said, "O Allah's Messenger Will you offer the funeral prayer for him though your Lord has forbidden you to offer the prayer for him" Allah's Messenger said, "But Allah has given me the choice by saying: '(Whether you) ask forgiveness for them, or do not ask forgiveness for them; even if you ask forgiveness for them seventy times..' (9.80) so I will ask more than seventy times." `Umar said, "But he (`Abdullah bin 'Ubai) is a hypocrite!" However, Allah's Messenger did offer the funeral prayer for him whereupon Allah revealed: 'And never (O Muhammad) pray for anyone of them that dies, nor stand at his grave.' (9.84)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 192


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

Previous    22    23    24    25    26    27    28    29    30    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.