صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
12. بَابُ قَوْلِهِ: {اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً} :
12. باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! آپ ان کے لیے استغفار کریں یا نہ کریں اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ بھی استغفار کریں گے (جب بھی اللہ انہیں نہیں بخشے گا)“۔
(12) Chapter. The Statement of Allah: “Whether you (O Muhammad ) ask forgiveness for them (hypocrites) or ask not forgiveness for them - (and even) if you ask seventy times for their forgiveness - Allah will not forgive them...” (V.9:80)
حدیث نمبر: 4670
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني عبيد بن إسماعيل، عن ابي اسامة، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: لما توفي عبد الله بن ابي، جاء ابنه عبد الله بن عبد الله إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فساله ان يعطيه قميصه يكفن فيه اباه، فاعطاه، ثم ساله ان يصلي عليه، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي عليه، فقام عمر، فاخذ بثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، تصلي عليه وقد نهاك ربك ان تصلي عليه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما خيرني الله، فقال: استغفر لهم او لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة سورة التوبة آية 80، وسازيده على السبعين"، قال: إنه منافق، قال: فصلى عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانزل الله ولا تصل على احد منهم مات ابدا ولا تقم على قبره سورة التوبة آية 84.(مرفوع) حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، جَاءَ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ أَنْ يُعْطِيَهُ قَمِيصَهُ يُكَفِّنُ فِيهِ أَبَاهُ، فَأَعْطَاهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَامَ عُمَرُ، فَأَخَذَ بِثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تُصَلِّي عَلَيْهِ وَقَدْ نَهَاكَ رَبُّكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا خَيَّرَنِي اللَّهُ، فَقَالَ: اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً سورة التوبة آية 80، وَسَأَزِيدُهُ عَلَى السَّبْعِينَ"، قَالَ: إِنَّهُ مُنَافِقٌ، قَالَ: فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ سورة التوبة آية 84.
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے ابواسامہ نے، ان سے عبیداللہ بن عمری نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ جب عبداللہ بن ابی (منافق) کا انتقال ہوا تو اس کے لڑکے عبداللہ بن عبداللہ (جو پختہ مسلمان تھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ اپنی قمیص ان کے والد کے کفن کے لیے عنایت فرما دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قمیص عنایت فرمائی۔ پھر انہوں نے عرض کی کہ آپ نماز جنازہ بھی پڑھا دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ پڑھانے کے لیے بھی آگے بڑھ گئے۔ اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی نماز جنازہ پڑھانے جا رہے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے منع بھی فرما دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے فرمایا ہے «استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة‏» کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں خواہ نہ کریں۔ اگر آپ ان کے لیے ستر بار بھی استغفار کریں گے (تب بھی اللہ انہیں نہیں بخشے گا)۔ اس لیے میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا۔ (ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ زیادہ استغفار کرنے سے معاف کر دے) عمر رضی اللہ عنہ بولے لیکن یہ شخص تو منافق ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره‏» کہ اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس پر کبھی بھی نماز نہ پڑھئے اور نہ اس کی قبر پر کھڑا ہوئیے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Abbas: When `Abdullah bin 'Ubai died, his son `Abdullah bin `Abdullah came to Allah's Messenger and asked him to give him his shirt in order to shroud his father in it. He gave it to him and then `Abdullah asked the Prophet to offer the funeral prayer for him (his father). Allah's Messenger got up to offer the funeral prayer for him, but `Umar got up too and got hold of the garment of Allah's Messenger and said, "O Allah's Messenger Will you offer the funeral prayer for him though your Lord has forbidden you to offer the prayer for him" Allah's Messenger said, "But Allah has given me the choice by saying: '(Whether you) ask forgiveness for them, or do not ask forgiveness for them; even if you ask forgiveness for them seventy times..' (9.80) so I will ask more than seventy times." `Umar said, "But he (`Abdullah bin 'Ubai) is a hypocrite!" However, Allah's Messenger did offer the funeral prayer for him whereupon Allah revealed: 'And never (O Muhammad) pray for anyone of them that dies, nor stand at his grave.' (9.84)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 192


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري4672عبد الله بن عمراستغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم
   صحيح البخاري4670عبد الله بن عمراستغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة
   جامع الترمذي3098عبد الله بن عمراستغفر لهم أو لا تستغفر لهم

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4670 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4670  
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میرا کرتہ اس کے کچھ کام آنے والا نہیں ہے لیکن مجھے امید ہے کہ میرے اس عمل سے اس کی قوم کے ہزار آدمی مسلمان ہو جائیں گے۔
ایسا ہی ہوا عبد اللہ بن ابی کی قوم کے بہت سے لوگ مسلمان ہو گئے۔
آپ کے اخلاق کا ان پر بہت بڑا اثر ہوا۔
ایک روایت میں ہے کہ عبد اللہ بن ابی ابھی زندہ تھا کہ اس نے آنحضرت ﷺ کو بلوایا اور آپ سے کرتہ مانگا اور دعا کی درخواست کی۔
حافظ صاحب نقل کرتے ہیں:
لَمَّا مَرِضَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ جَاءَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمَهُ فَقَالَ قَدْ فَهِمْتُ مَا تَقُولُ فَامْنُنْ عَلَيَّ فَكَفِّنِّي فِي قَمِيصِكَ وَصَلِّ عَلَيَّ فَفَعَلَ وَكَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ أَرَادَ بِذَلِكَ دَفْعُ الْعَارِ عَنْ وَلَدِهِ وَعَشِيرَتِهِ بَعْدَ مَوْتِهِ فَأَظْهَرَ الرَّغْبَةَ فِي صَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَوَقَعَتْ إِجَابَتُهُ إِلَى سُؤَالِهِ بِحَسَبِ مَا ظَهَرَ مِنْ حَالِهِ إِلَى أَنْ كَشَفَ اللَّهُ الْغِطَاءَ عَنْ ذَلِكَ كَمَا سَيَأْتِي وَهَذَا مِنْ أَحْسَنِ الْأَجْوِبَةِ فِيمَا يَتَعَلَّقُ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ۔
(فتح الباری)
عبداللہ بن ابی نے آنحضرت ﷺ سے جنازہ اور کرتہ کے لئے خود درخواست کی تھی تاکہ بعد میں اس کی اولاد اور خاندان پر عار نہ ہو۔
رسول کریم ﷺ پر اس کی مصلحتوں کا کشف ہوگیا تھا، اس لئے آپ ﷺ نے اس کی درخواست کو قبول فرمایا، اس عبارت کا یہی خلاصہ ہے۔
مصلحتوں کا ذکر ابھی پیچھے ہو چکا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4670   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4670  
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے رئیس المنافقین کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عبداللہ کی درخواست پر تین کام کیے:
۔
رئیس المنافقین کے لیے اپنی قمیص دی تاکہ اس میں کفن دیاجائے۔
۔
اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا۔

آپ نے تین وجوہ کی بنا پر یہ کام کیے:
۔
رسول اللہ ﷺ کی طبیعت میں نرمی رحم اور عفو درگزر کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔
۔
بدر کے قیدیوں میں آپ کے چچا حضرت عباس ؓ بدن سے ننگے تھے چونکہ ان کا قد لمبا تھا، اس لیے رئیس المنافقین سے قمیص مانگ کردی۔
آپ یہ چاہتے تھے کہ قمیص دے کر اس احسان کا بدلہ چکا دیں۔
۔
ایسے حالات میں رئیس المنافقین کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عبداللہ ؓ کی دل جوئی اور تالیف قلبی مقصود تھی تاکہ وہ شکستہ دل نہ ہو۔

سیدناعمر ؓ نے اس آیت سے استنباط کرتے ہوئے عرض کی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع کردیا ہے کیونکہ ستر مرتبہ استغفار کرنے سے بھی اس کی معافی ممکن نہیں تو جنازہ بھی معافی کی درخواست ہوتی ہےاسے ادا کرنے کا کیا فائدہ ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر ؓ کی رائے کے مطابق وحی نازل فرمائی۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اب منافقین سے نرم قسم کی پالیسی اختیار کرنے کا دور بیت چکا ہے اور ان سے سخت رویہ اختیار کرنا عین منشائے الٰہی کے مطابق ہے۔

واضح رہے کہ رئیس المنافقین کے بیٹے حضرت عبداللہ ؓ نے اس لیے درخواست نہیں کی تھی کہ اس کا باپ نفاق سے تائب ہوچکا تھا بلکہ یہ درخواست اس لیے تھی کہ مرنے کے بعد لوگ اسے اور اس کے قبیلے کو اس کے نفاق کا طعنہ نہ دیں، بہرحال اس کے بیٹے کو اس بات کا علم تھا کہ وہ اب بھی منافق ہے اور حالت نفاق ہی میں مرا ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4670   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4672  
4672. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب عبداللہ بن ابی مر گیا تو اس کا بیٹا حضرت عبداللہ بن عبداللہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے اس کو اپنی قمیص دی اور فرمایا کہ اسے اس قمیص میں کفن دیا جائے۔ پھر آپ اس کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو حضرت عمر ؓ نے آپ ﷺ کا دامن پکڑ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اس کی نماز جنازہ پڑھنے لگے ہیں جبکہ یہ شخص منافق ہے اور اللہ تعالٰی نے آپ کو منافقین کے لیے طلب مغفرت سے منع بھی فرمایا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے مجھے اختیار دیا ہے یا مجھے خبر دی ہے کہ ان کے لیے استغفار کریں یا نہ کریں، اگر ان کے لیے ستر بار استغفار کریں اللہ تعالٰی ان کو ہرگز نہیں بخشے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کروں گا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ اس کا جنازہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4672]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ نے رئیس المنافقین کو اس لیے کرتا پہنایا اور اس کی نماز جنازہ پڑھی تھی کہ جو لوگ اسلام کے قریب نہیں تھے، ان کے قریب ہونے کی توقع تھی، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے ایک حدیث ذکر کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
میری قمیص اسے اللہ کے عذاب سے نہیں بچاسکتی مگر میں نے یہ کام اس لیے کیا ہے کہ مجھے اس عمل سے اس کی قوم کے ہزار آدمیوں کے مسلمان ہونے کی اُمیدہے۔
(فتح الباری: 426/8)
نیز منافقین اگرچہ دل سے کافر تھے مگر ظاہری لحاظ سے ان پر شرعی احکام ویسے ہی نافذ تھے جیسے سچے مسلمانوں پر لاگو ہوتے تھے۔

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر رسول اللہ ﷺ کسی گناہ گار کے حق میں استغفار کریں تو اس کی معافی ہوسکتی ہے لیکن بداعتقاد لوگوں کی معافی کے لیے کوئی صورت نہیں خواہ رسول اللہ ﷺ کتنی ہی زیادہ دفعہ اس کے لیے استغفار کریں، چنانچہ اس آیت کے بعد رسول اللہ ﷺ نے منافقین کی نماز جنازہ پڑھانا یا ان کے حق میں استغفار کرناچھوڑدیاتھا۔
(وتفسیر الطبری تحت آیۃ سورۃ التوبہ: 84)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4672   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.