صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
9. بَابُ قَوْلِهِ: {ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ} :
باب: آیت کی تفسیر ”جب کہ دو میں سے ایک وہ تھے دونوں غار میں (موجود) تھے جب وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھا کہ فکر نہ کر اللہ پاک ہمارے ساتھ ہے“۔
حدیث نمبر: 4664
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ قَالَ:" حِينَ وَقَعَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ ابْنِ الزُّبَيْرِ، قُلْتُ: أَبُوهُ الزُّبَيْرُ، وَأُمُّهُ أَسْمَاءُ، وَخَالَتُهُ عَائِشَةُ، وَجَدُّهُ أَبُو بَكْرٍ، وَجَدَّتُهُ صَفِيَّةُ، فَقُلْتُ: لِسُفْيَانَ إِسْنَادُهُ، فَقَالَ: حَدَّثَنَا فَشَغَلَهُ إِنْسَانٌ، وَلَمْ يَقُلْ ابْنُ جُرَيْجٍ".
ہم سے عبداللہ بن محمد بن جعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب میرا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے اختلاف ہو گیا تھا تو میں نے کہا کہ ان کے والد زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ تھے، ان کی والدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا تھیں، ان کی خالہ عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ ان کے نانا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور ان کی دادی (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی) صفیہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ (عبداللہ بن محمد نے بیان کیا کہ) میں نے سفیان (ابن عیینہ) سے پوچھا کہ اس روایت کی سند کیا ہے؟ تو انہوں نے کہنا شروع کیا «حدثنا» ہم سے حدیث بیان کی لیکن ابھی اتنا ہی کہنے پائے تھے کہ انہیں ایک دوسرے شخص نے دوسری باتوں میں لگا دیا اور (راوی کا نام) ابن جریج وہ نہ بیان کر سکے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4664 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4664
حدیث حاشیہ:
اس صورت میں یہ احتمال تھا کہ شاید سفیان نے یہ حدیث خود ابن جریج سے بلا واسطہ نہ سنی ہو۔
اسی لیے حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو دوسرے طریق سے بھی ابن جریج سے نکالا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4664
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4664
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث کی سند میں اگرچہ ابن جریج کی صراحت ہے لیکن وہ صیغہ عن کے ساتھ ہے، اس میں سماع کی صراحت نہیں ہے۔
حضرت سفیان کے شاگرد عبداللہ بن محمد صیغہ تحدیث کے ساتھ یہ حدیث سننا چاہتے تھے، اس لیے انھوں نے سند کے متعلق سوال کیا۔
اس صورت میں یہ احتمال رہ گیا تھا کہ شاید حضرت سفیان ؓ نے یہ حدیث خود ابن جریج سے نہ سنی ہو بلکہ اس کے درمیان کوئی واسطہ ہو، اس لیے امام بخاری ؒ نے دوسری روایات بیان کردی ہیں، جن میں اس قسم کا کوئی احتمال نہیں ہے۔
2۔
چونکہ اس حدیث میں حضرت ابوبکرصدیق ؓ کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے یہاں بیان کیا ہے، واقعے کی تشریح آئندہ حدیث کے تحت کی جائے گی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4664