9. باب: آیت کی تفسیر ”جب کہ دو میں سے ایک وہ تھے دونوں غار میں (موجود) تھے جب وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھا کہ فکر نہ کر اللہ پاک ہمارے ساتھ ہے“۔
(9) Chapter. The Statement of Allah: “...The second of two, when they (Muhammad and Abu bakr ) were in the cave, and he said to his companion (Abu bakr ) ’Be not sad (or afraid), surely Allah is with us.’ ” (V.9:40)
(مرفوع) حدثني عبد الله بن محمد، قال: حدثني يحيى بن معين، حدثنا حجاج، قال ابن جريج: قال ابن ابي مليكة: وكان بينهما شيء، فغدوت على ابن عباس، فقلت: اتريد ان تقاتل ابن الزبير فتحل حرم الله؟ فقال: معاذ الله، إن الله كتب ابن الزبير وبني امية محلين، وإني والله لا احله ابدا، قال: قال الناس: بايع لابن الزبير، فقلت: واين بهذا الامر عنه اما ابوه فحواري النبي صلى الله عليه وسلم يريد الزبير، واما جده فصاحب الغار يريد ابا بكر، وامه فذات النطاق يريد اسماء، واما خالته فام المؤمنين يريد عائشة، واما عمته فزوج النبي صلى الله عليه وسلم يريد خديجة، واما عمة النبي صلى الله عليه وسلم فجدته يريد صفية، ثم عفيف في الإسلام قارئ للقرآن، والله إن وصلوني وصلوني من قريب، وإن ربوني ربوني اكفاء كرام، فآثر التويتات والاسامات والحميدات، يريد ابطنا من بني اسد، بني تويت، وبني اسامة، وبني اسد، إن ابن ابي العاص برز يمشي القدمية يعني عبد الملك بن مروان، وإنه لوى ذنبه يعني ابن الزبير".(مرفوع) حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: وَكَانَ بَيْنَهُمَا شَيْءٌ، فَغَدَوْتُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقُلْتُ: أَتُرِيدُ أَنْ تُقَاتِلَ ابْنَ الزُّبَيْرِ فَتُحِلَّ حَرَمَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: مَعَاذَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ ابْنَ الزُّبَيْرِ وَبَنِي أُمَيَّةَ مُحِلِّينَ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُحِلُّهُ أَبَدًا، قَالَ: قَالَ النَّاسُ: بَايِعْ لِابْنِ الزُّبَيْرِ، فَقُلْتُ: وَأَيْنَ بِهَذَا الْأَمْرِ عَنْهُ أَمَّا أَبُوهُ فَحَوَارِيُّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ الزُّبَيْرَ، وَأَمَّا جَدُّهُ فَصَاحِبُ الْغَارِ يُرِيدُ أَبَا بَكْرٍ، وَأُمُّهُ فَذَاتُ النِّطَاقِ يُرِيدُ أَسْمَاءَ، وَأَمَّا خَالَتُهُ فَأُمُّ الْمُؤْمِنِينَ يُرِيدُ عَائِشَةَ، وَأَمَّا عَمَّتُهُ فَزَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ خَدِيجَةَ، وَأَمَّا عَمَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَدَّتُهُ يُرِيدُ صَفِيَّةَ، ثُمَّ عَفِيفٌ فِي الْإِسْلَامِ قَارِئٌ لِلْقُرْآنِ، وَاللَّهِ إِنْ وَصَلُونِي وَصَلُونِي مِنْ قَرِيبٍ، وَإِنْ رَبُّونِي رَبُّونِي أَكْفَاءٌ كِرَامٌ، فَآثَرَ التُّوَيْتَاتِ وَالْأُسَامَاتِ وَالْحُمَيْدَاتِ، يُرِيدُ أَبْطُنًا مِنْ بَنِي أَسَدٍ، بَنِي تُوَيْتٍ، وَبَنِي أُسَامَةَ، وَبَنِي أَسَدٍ، إِنَّ ابْنَ أَبِي الْعَاصِ بَرَزَ يَمْشِي الْقُدَمِيَّةَ يَعْنِي عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ مَرْوَانَ، وَإِنَّهُ لَوَّى ذَنَبَهُ يَعْنِي ابْنَ الزُّبَيْرِ".
مجھ سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ ابن معین نے بیان کیا، کہا ہم سے حجاج بن محمد نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ ابن عباس اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم کے درمیان بیعت کا جھگڑا پیدا ہو گیا تھا۔ میں صبح کو ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا آپ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے جنگ کرنا چاہتے ہیں، اس کے باوجود کہ اللہ کے حرم کی بےحرمتی ہو گی؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: معاذاللہ! یہ تو اللہ تعالیٰ نے ابن زبیر اور بنو امیہ ہی کے مقدر میں لکھ دیا ہے کہ وہ حرم کی بےحرمتی کریں۔ اللہ کی قسم! میں کسی صورت میں بھی اس بےحرمتی کے لیے تیار نہیں ہوں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ لوگوں نے مجھ سے کہا تھا کہ ابن زبیر سے بیعت کر لو۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے ان کی خلافت کو تسلیم کرنے میں کیا تامل ہو سکتا ہے، ان کے والد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حواری تھے، آپ کی مراد زبیر بن عوام سے تھی۔ ان کے نانا صاحب غار تھے، اشارہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف تھا۔ ان کی والدہ صاحب نطاقین تھیں یعنی اسماء رضی اللہ عنہا۔ ان کی خالہ ام المؤمنین تھیں، مراد عائشہ رضی اللہ عنہا سے تھی۔ ان کی پھوپھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ تھیں، مراد خدیجہ رضی اللہ عنہا سے تھی۔ ابن عباس کی مراد ان باتوں سے یہ تھی کہ وہ بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی ان کی دادی ہیں، اشارہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی طرف تھا۔ اس کے علاوہ وہ خود اسلام میں ہمیشہ صاف کردار اور پاک دامن رہے اور قرآن کے عالم ہیں اور اللہ کی قسم! اگر وہ مجھ سے اچھا برتاؤ کریں تو ان کو کرنا ہی چاہئے وہ میرے بہت قریب کے رشتہ دار ہیں اور اگر وہ مجھ پر حکومت کریں تو خیر حکومت کریں وہ ہمارے برابر کے عزت والے ہیں۔ لیکن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے تو تویت، اسامہ اور حمید کے لوگوں کو ہم پر ترجیح دی ہے۔ ان کی مراد مختلف قبائل یعنی بنو اسد، بنو تویت، بنو اسامہ اور بنو اسد سے تھی۔ ادھر ابن ابی العاص بڑی عمدگی سے چل رہا ہے یعنی عبدالملک بن مروان مسلسل پیش قدمی کر رہا ہے اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اس کے سامنے دم دبا لی ہے۔
Narrated Ibn Abi Mulaika: There was a disagreement between them (i.e. Ibn `Abbas and Ibn Az-Zubair) so I went to Ibn `Abbas in the morning and said (to him), "Do you want to fight against Ibn Zubair and thus make lawful what Allah has made unlawful (i.e. fighting in Meccas?" Ibn `Abbas said, "Allah forbid! Allah ordained that Ibn Zubair and Bani Umaiya would permit (fighting in Mecca), but by Allah, I will never regard it as permissible." Ibn `Abbas added. "The people asked me to take the oath of allegiance to Ibn AzZubair. I said, 'He is really entitled to assume authority for his father, Az-Zubair was the helper of the Prophet, his (maternal) grandfather, Abu Bakr was (the Prophet's) companion in the cave, his mother, Asma' was 'Dhatun-Nitaq', his aunt, `Aisha was the mother of the Believers, his paternal aunt, Khadija was the wife of the Prophet , and the paternal aunt of the Prophet was his grandmother. He himself is pious and chaste in Islam, well versed in the Knowledge of the Qur'an. By Allah! (Really, I left my relatives, Bani Umaiya for his sake though) they are my close relatives, and if they should be my rulers, they are equally apt to be so and are descended from a noble family.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 187
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4665
حدیث حاشیہ: عبد الملک نے خلیفہ ہوتے ہی عرض کا ملک ابن زبیر سے چھین لیا ان کے بھائی مصعب کو مار ڈالا پھر مکہ بھی فتح کر لیا۔ عبد اللہ بن زبیر ؓ شہید ہو گئے جیسے ابن عباس ؓ نے کہا تھا ویسا ہی ہوا۔ قبیلہ تویت کی نسبت تویت بن اسد کی طرف ہے اور اسامات کی نسبت بنی اسامہ بن اسد بن عبد العزیٰ کی طرف ہے اور حمیدات کی نسبت بھی حمید بن زہیر بن حارث کی طرف ہے۔ یہ سارے خاندان ابن زبیر کے دادا خویلد بن اسد پر جمع ہو جاتے ہیں۔ (فتح)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4665
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4665
حدیث حاشیہ: 1۔ واقعہ یہ ہے کہ جس وقت امیر معاویہ ؓ نے وفات پائی اور ان کے فرزند یزید نے حکومت سنبھالی تو حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نےان کی بیعت سے انکارکردیا۔ جب یزید فوت ہوا تو انھوں نے اپنی بیعت کے لیے لوگوں کو دعوت دی، چنانچہ اہل حجاز، مصر، عراق، خراسان اور اکثر اہل شام نے ان کی بیعت کرلی۔ حضرت ابن عباس ؓ ان دنوں مکہ مکرمہ میں تھے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے انھیں بلایا اور انھیں اپنی بیعت کے لیے کہا لیکن انھوں نے بیعت سے انکارکردیا اور کہا کہ جب تمام لوگ متفق ہو جائیں گے ہم بیعت کریں گے۔ حضرت ابن زبیر ؓ نے ان پر سختی کی جس کی وجہ سے لوگ بھی ان کی بیعت سے پیچھے ہٹ گئے۔ جب یہ خبر مختاربن ابوعبید ثقفی کو پہنچی تو اس نے لشکر بھیج کر حضرت ابن عباس ؓ کو مکے سے نکال لیا اور انھوں نے طائف میں جاکر اقامت اختیار کرلی۔ اس دوران میں حضرت ابن ابی ملیکہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہا کہ آپ ان کی بیعت کیوں کرتے ہیں؟ تو انھوں نے ان کے اوصاف حمیدہ بیان کیے جو حدیث میں بیان ہوئے ہیں، پھر شکوے کے انداز میں فرمایا: ابن زبیر ؓ نے ہماری پروانہیں کیا اور نہ ہمارا کچھ خیال ہی رکھاہے، جب یہ ہمارا خیال نہیں کرتے تو بنوامیہ جو ہم سے زیادہ قریب ہیں، اگر وہ میرے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں تو میرے لیے قابل قبول ہیں اور ان کا دائرہ حکومت بھی دن بدن وسیع ہوتا جارہا ہے جبکہ ابن زبیر ؓ کی حکومت کا دائرہ وسیع ہونے کی بجائے تنگ ہورہا ہے۔ 2۔ بہرحال اس حدیث میں حضرت ابوبکرصدیق ؓ کا ذکر تھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے یہاں بیان کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4665