(مرفوع) حدثني إسحاق، اخبرنا روح، حدثنا شعبة، عن خبيب بن عبد الرحمن، سمعت حفص بن عاصم، يحدث عن ابي سعيد بن المعلى رضي الله عنه، قال: كنت اصلي، فمر بي رسول الله صلى الله عليه وسلم فدعاني، فلم آته حتى صليت، ثم اتيته، فقال:" ما منعك ان تاتي، الم يقل الله: يايها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم سورة الانفال آية 24؟" ثم قال:" لاعلمنك اعظم سورة في القرآن قبل ان اخرج"، فذهب رسول الله صلى الله عليه وسلم ليخرج، فذكرت له، وقال معاذ: حدثنا شعبة، عن خبيب بن عبد الرحمن، سمع حفصا، سمع ابا سعيد رجلا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم بهذا، وقال: هي" الحمد لله رب العالمين سورة الفاتحة آية 2 السبع المثاني".(مرفوع) حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، سَمِعْتُ حَفْصَ بْنَ عَاصِمٍ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّي، فَمَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَانِي، فَلَمْ آتِهِ حَتَّى صَلَّيْتُ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ:" مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْتِيَ، أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ سورة الأنفال آية 24؟" ثُمَّ قَالَ:" لَأُعَلِّمَنَّكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ"، فَذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَخْرُجَ، فَذَكَرْتُ لَهُ، وَقَالَ مُعَاذٌ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، سَمِعَ حَفْصًا، سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا، وَقَالَ: هِيَ" الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 السَّبْعُ الْمَثَانِي".
مجھ سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو روح بن عبادہ نے خبر دی، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے خبیب بن عبدالرحمٰن نے انہوں نے حفص بن عاصم سے سنا اور ان سے ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پکارا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نہ پہنچ سکا بلکہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ آنے میں دیر کیوں ہوئی؟ کیا اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم نہیں دیا ہے «يا أيها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم» کہ ”اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہو، جبکہ وہ (یعنی رسول) تم کو بلائیں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجد سے نکلنے سے پہلے میں تمہیں قرآن کی عظیم ترین سورۃ سکھاؤں گا۔ تھوڑی دیر بعد آپ باہر تشریف لے جانے لگے تو میں نے آپ کو یاد دلایا۔ اور معاذ بن معاذ عنبری نے اس حدیث کو یوں روایت کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے خبیب نے، انہوں نے حفص سے سنا اور انہوں نے ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے، سنا اور انہوں نے بیان کیا وہ (سورۃ فاتحه) «الحمد لله رب العالمين» ہے جس میں سات آیتیں ہیں جو ہر نماز میں مکرر پڑھی جاتی ہیں۔
Narrated Abu Sa`id bin Al-Mu'alla: While I was praying, Allah's Messenger passed me and called me, but I did not go to him until I had finished the prayer. Then I went to him, and he said, "What prevented you from coming to me? Didn't Allah say:-- "O you who believe! Answer the call of Allah (by obeying Him) and His Apostle when He calls you?" He then said, "I will inform you of the greatest Sura in the Qur'an before I leave (the mosque)." When Allah's Messenger got ready to leave (the mosque), I reminded him. He said, "It is: 'Praise be to Allah, the Lord of the worlds.' (i.e. Surat-al-Fatiha) As-sab'a Al-Mathani (the seven repeatedly recited Verses).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 170
3. باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! ان کو وہ وقت بھی یاد دلاؤ جب ان کافروں نے کہا تھا کہ اے اللہ! اگر یہ (کلام) تیری طرف سے واقعی برحق ہے ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا پھر (کوئی اور ہی) عذاب درد ناک لے آ“۔
(3) Chapter. The Statement of Allah: “And (remember) when they said, ’O Allah! If this (the Quran) is indeed the truth (revealed) from You, then rain down stones on us...’ ” (V.8:32)
قال ابن عيينة: ما سمى الله تعالى مطرا في القرآن إلا عذابا وتسميه العرب الغيث، وهو قوله تعالى: ينزل الغيث من بعد ما قنطوا.قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: مَا سَمَّى اللَّهُ تَعَالَى مَطَرًا فِي الْقُرْآنِ إِلَّا عَذَابًا وَتُسَمِّيهِ الْعَرَبُ الْغَيْثَ، وَهُوَ قَوْلُهُ تَعَالَى: يُنْزِلُ الْغَيْثَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوا.
ابن عیینہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے لفظ «مطرا»(بارش) کا استعمال قرآن میں عذاب ہی کے لیے کیا ہے، عرب اسے «غيث» کہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان «ينزل الغيث من بعد ما قنطوا» میں ہے۔
(موقوف) حدثني احمد، حدثنا عبيد الله بن معاذ، حدثنا ابي، حدثنا شعبة، عن عبد الحميد هو ابن كرديد صاحب الزيادي، سمع انس بن مالك رضي الله عنه، قال: قال ابو جهل:" اللهم إن كان هذا هو الحق من عندك، فامطر علينا حجارة من السماء او ائتنا بعذاب اليم"، فنزلت وما كان الله ليعذبهم وانت فيهم وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون {33} وما لهم الا يعذبهم الله وهم يصدون عن المسجد الحرام سورة الانفال آية 32-33الآية.(موقوف) حَدَّثَنِي أَحْمَدُ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ هُوَ ابْنُ كُرْدِيدٍ صَاحِبُ الزِّيَادِيِّ، سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه، قال: قَالَ أَبُو جَهْلٍ:" اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ، فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ"، فَنَزَلَتْ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ {33} وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ سورة الأنفال آية 32-33الْآيَةَ.
مجھ سے احمد بن نضر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن معاذ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے صاحب الزیادی عبدالحمید نے جو کردید کے صاحبزادے تھے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ابوجہل نے کہا تھا کہ اے اللہ! اگر یہ کلام تیری طرف سے واقعی حق ہے تو ہم پر آسمانوں سے پتھر برسا دے یا پھر کوئی اور ہی عذاب درد ناک لے آ!“ تو اس پر آیت «وما كان الله ليعذبهم وأنت فيهم وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون * وما لهم أن لا يعذبهم الله وهم يصدون عن المسجد الحرام»”حالانکہ اللہ ایسا نہیں کرے گا کہ انہیں عذاب دے، اس حال میں کہ آپ ان میں موجود ہوں اور نہ اللہ ان پر عذاب لائے گا اس حال میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں۔ ان لوگوں کے لیے کیا وجہ کہ اللہ ان پر عذاب (ہی سرے سے) نہ لائے درآں حالیکہ وہ مسجد الحرام سے روکتے ہیں۔“ آخر آیت تک۔
Narrated Anas bin Malik: Abu Jahl said, "O Allah! If this (Qur'an) is indeed the Truth from You, then rain down on us a shower of stones from the sky or bring on us a painful torment." So Allah revealed:-- "But Allah would not punish them while you were amongst them, nor He will punish them while they seek (Allah's) forgiveness..." (8.33) And why Allah should not punish them while they turn away (men) from Al- Masjid-al-Haram (the Sacred Mosque of Mecca)..." (8.33-34)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 171
4. باب: آیت کی تفسیر ”اور اللہ ایسا نہیں کرے گا کہ انہیں عذاب کرے اس حال میں کہ اے نبی! آپ ان میں موجود ہوں اور نہ اللہ ان پر عذاب لائے گا اس حالت میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں“۔
(4) Chapter. The Statement of Allah: “And Allah would not punish them while you (Muhammad ) are amongst them, nor will He punish them while they seek (Allah’s) forgiveness.” (V.8:33)
(موقوف) حدثنا محمد بن النضر، حدثنا عبيد الله بن معاذ، حدثنا ابي، حدثنا شعبة، عن عبد الحميد صاحب الزيادي، سمع انس بن مالك، قال: قال ابو جهل:" اللهم إن كان هذا هو الحق من عندك، فامطر علينا حجارة من السماء او ائتنا بعذاب اليم"، فنزلت وما كان الله ليعذبهم وانت فيهم وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون {33} وما لهم الا يعذبهم الله وهم يصدون عن المسجد الحرام سورة الانفال آية 32-33.(موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النَّضْرِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ صَاحِبِ الزِّيَادِيِّ، سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو جَهْلٍ:" اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ، فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ"، فَنَزَلَتْ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ {33} وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ سورة الأنفال آية 32-33.
ہم سے محمد بن نضر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن معاذ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے صاحب الزیادی عبدالحمید نے اور انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ابوجہل نے کہا تھا کہ اے اللہ! اگر یہ کلام تیری طرف سے واقعی حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا پھر کوئی اور ہی عذاب لے آ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «وما كان الله ليعذبهم وأنت فيهم وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون * وما لهم أن لا يعذبهم الله وهم يصدون عن المسجد الحرام»”حالانکہ اللہ ایسا نہیں کرے گا کہ انہیں عذاب دے اس حال میں کہ آپ ان میں موجود ہوں اور نہ اللہ ان پر عذاب لائے گا۔ اس حال میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں۔ ان لوگوں کو اللہ کیوں نہ عذاب کرے جن کا حال یہ ہے کہ وہ مسجد الحرام سے روکتے ہیں۔“ آخر آیت تک۔
Narrated Anas bin Malik: Abu Jahl said, "O Allah! If this (Qur'an) is indeed the Truth from You), then rain down on us a shower of stones from the sky or bring on us a painful punishment." So there was revealed:-- 'But Allah would not punish them while you (Muhammad) were amongst them, nor will He punish them while they seek (Allah's) Forgiveness. And why Allah should not punish them while they stop (men) from Al-Masjid-al-Haram ..' (8.33-34)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 172
5. باب: آیت کی تفسیر ”اور ان سے لڑو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہ جائے“۔
(5) Chapter. “And fight them until there is no more Fitnah (disbelief and polytheism, i.e., worshipping others besides Allah) and the religion (worship) will be all for Allah (Alone) (in the whole of the world)..." (V.8:39)
(مرفوع) حدثنا الحسن بن عبد العزيز، حدثنا عبد الله بن يحيى، حدثنا حيوة، عن بكر بن عمرو، عن بكير، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما: ان رجلا جاءه فقال: يا ابا عبد الرحمن، الا تسمع ما ذكر الله في كتابه وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا سورة الحجرات آية 9 إلى آخر الآية، فما يمنعك ان لا تقاتل كما ذكر الله في كتابه؟ فقال: يا ابن اخي، اغتر بهذه الآية ولا اقاتل، احب إلي من ان اغتر بهذه الآية التي، يقول الله تعالى: ومن يقتل مؤمنا متعمدا سورة النساء آية 93 إلى آخرها، قال: فإن الله، يقول: وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة سورة البقرة آية 193، قال ابن عمر: قد فعلنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ كان الإسلام قليلا، فكان الرجل يفتن في دينه، إما يقتلونه، وإما يوثقونه حتى كثر الإسلام، فلم تكن فتنة، فلما راى انه لا يوافقه فيما يريد، قال: فما قولك في علي وعثمان؟ قال ابن عمر:" ما قولي في علي وعثمان، اما عثمان، فكان الله قد عفا عنه، فكرهتم ان يعفو عنه، واما علي، فابن عم رسول الله صلى الله عليه وسلم وختنه، واشار بيده، وهذه ابنته او بنته حيث ترون".(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ بُكَيْرٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَجُلًا جَاءَهُ فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَلَا تَسْمَعُ مَا ذَكَرَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا سورة الحجرات آية 9 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، فَمَا يَمْنَعُكَ أَنْ لَا تُقَاتِلَ كَمَا ذَكَرَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ؟ فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، أَغْتَرُّ بِهَذِهِ الْآيَةِ وَلَا أُقَاتِلُ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَغْتَرَّ بِهَذِهِ الْآيَةِ الَّتِي، يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا سورة النساء آية 93 إِلَى آخِرِهَا، قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ، يَقُولُ: وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ سورة البقرة آية 193، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: قَدْ فَعَلْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ كَانَ الْإِسْلَامُ قَلِيلًا، فَكَانَ الرَّجُلُ يُفْتَنُ فِي دِينِهِ، إِمَّا يَقْتُلُونَهُ، وَإِمَّا يُوثِقُونَهُ حَتَّى كَثُرَ الْإِسْلَامُ، فَلَمْ تَكُنْ فِتْنَةٌ، فَلَمَّا رَأَى أَنَّهُ لَا يُوَافِقُهُ فِيمَا يُرِيدُ، قَالَ: فَمَا قَوْلُكَ فِي عَلِيٍّ وَعُثْمَانَ؟ قَالَ ابْنُ عُمَرَ:" مَا قَوْلِي فِي عَلِيٍّ وَعُثْمَانَ، أَمَّا عُثْمَانُ، فَكَانَ اللَّهُ قَدْ عَفَا عَنْهُ، فَكَرِهْتُمْ أَنْ يَعْفُوَ عَنْهُ، وَأَمَّا عَلِيٌّ، فَابْنُ عَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَتَنُهُ، وَأَشَارَ بِيَدِهِ، وَهَذِهِ ابْنَتُهُ أَوْ بِنْتُهُ حَيْثُ تَرَوْنَ".
ہم سے حسن بن عبدالعزیز نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن یحییٰ نے، کہا ہم سے حیوہ بن شریح نے، انہوں نے بکر بن عمرو سے، انہوں نے بکیر سے، انہوں نے نافع سے، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ ایک شخص (حبان یا علاء بن عرار نامی) نے پوچھا: ابوعبدالرحمٰن! آپ نے قرآن کی یہ آیت نہیں سنی «وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا» کہ ”جب مسلمانوں کی دو جماعتیں لڑنے لگیں“ الخ، اس آیت کے بموجب تم (علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں سے) کیوں نہیں لڑتے جیسے اللہ نے فرمایا «فقاتلوا التي تبغيإ» ۔ انہوں نے کہا میرے بھتیجے! اگر میں اس آیت کی تاویل کر کے مسلمانوں سے نہ لڑوں تو یہ مجھ کو اچھا معلوم ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ میں اس آیت «ومن يقتل مؤمنا متعمدا» کی تاویل کروں۔ وہ شخص کہنے لگا اچھا اس آیت کو کیا کرو گے جس میں مذکور ہے «وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة» کہ ”ان سے لڑو تاکہ فتنہ باقی نہ رہے اور سارا دین اللہ کا ہو جائے۔“ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا (واہ، واہ) یہ لڑائی تو ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کر چکے، اس وقت مسلمان بہت تھوڑے تھے اور مسلمان کو اسلام اختیار کرنے پر تکلیف دی جاتی۔ قتل کرتے، قید کرتے یہاں تک کہ اسلام پھیل گیا۔ مسلمان بہت ہو گئے اب فتنہ جو اس آیت میں مذکور ہے وہ کہاں رہا۔ جب اس شخص نے دیکھا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کسی طرح لڑائی پر اس کے موافق نہیں ہوتے تو کہنے لگا اچھا بتلاؤ علی رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں تمہارا کیا اعتقاد ہے؟ انہوں نے کہا ہاں یہ کہو تو سنو، علی اور عثمان رضی اللہ عنہما کے بارے میں اپنا اعتقاد بیان کرتا ہوں۔ عثمان رضی اللہ عنہ کا جو قصور تم بیان کرتے ہو (کہ وہ جنگ احد میں بھاگ نکلے) تو اللہ نے ان کا یہ قصور معاف کر دیا مگر تم کو یہ معافی پسند نہیں (جب تو اب تک ان پر قصور لگاتے جاتے ہو) اور علی رضی اللہ عنہ تو (سبحان اللہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور آپ داماد بھی تھے اور ہاتھ سے اشارہ کر کے بتلایا یہ ان کا گھر ہے جہاں تم دیکھ رہے ہو۔
Narrated Ibn `Umar: That a man came to him (while two groups of Muslims were fighting) and said, "O Abu `Abdur Rahman! Don't you hear what Allah has mentioned in His Book: 'And if two groups of believers fight against each other...' (49.9) So what prevents you from fighting as Allah has mentioned in His Book?"' Ibn `Umar said, "O son of my brother! I would rather be blamed for not fighting because of this Verse than to be blamed because of another Verse where Allah says: 'And whoever kills a believer intentionally..." (4.93) Then that man said, "Allah says:-- 'And fight them until there is no more afflictions (worshipping other besides Allah) and the religion (i.e. worship) will be all for Allah (Alone)" (8.39) Ibn `Umar said, "We did this during the lifetime of Allah's Messenger when the number of Muslims was small, and a man was put to trial because of his religion, the pagans would either kill or chain him; but when the Muslims increased (and Islam spread), there was no persecution." When that man saw that Ibn `Umar did not agree to his proposal, he said, "What is your opinion regarding `Ali and `Uthman?" Ibn `Umar said, "What is my opinion regarding `Ali and `Uthman? As for `Uthman, Allah forgave him and you disliked to forgive him, and `Ali is the cousin and son-in-law of Allah's Messenger ." Then he pointed out with his hand and said, "And that is his daughter's (house) which you can see."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 173
(مرفوع) حدثنا احمد بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا بيان، ان وبرة حدثه، قال: حدثني سعيد بن جبير، قال: خرج علينا او إلينا ابن عمر، فقال رجل: كيف ترى في قتال الفتنة؟ فقال:" وهل تدري ما الفتنة؟ كان محمد صلى الله عليه وسلم يقاتل المشركين، وكان الدخول عليهم فتنة، وليس كقتالكم على الملك".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا بَيَانٌ، أَنَّ وَبَرَةَ حَدَّثَهُ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا أَوْ إِلَيْنَا ابْنُ عُمَرَ، فَقَالَ رَجُلٌ: كَيْفَ تَرَى فِي قِتَالِ الْفِتْنَةِ؟ فَقَالَ:" وَهَلْ تَدْرِي مَا الْفِتْنَةُ؟ كَانَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَاتِلُ الْمُشْرِكِينَ، وَكَانَ الدُّخُولُ عَلَيْهِمْ فِتْنَةً، وَلَيْسَ كَقِتَالِكُمْ عَلَى الْمُلْكِ".
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، کہا ہم سے بیان نے بیان کیا، ان سے وبرہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سعید بن جبیر نے بیان کیا، کہا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما ہمارے پاس تشریف لائے، تو ایک صاحب نے ان سے پوچھا کہ(مسلمانوں کے باہمی) فتنہ اور جنگ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے پوچھا تمہیں معلوم بھی ہے ”فتنہ“ کیا چیز ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین سے جنگ کرتے تھے اور ان میں ٹھہر جانا ہی فتنہ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ تمہاری ملک و سلطنت کی خاطر جنگ کی طرح نہیں تھی۔
Narrated Sa`id bin Jubair: Ibn `Umar came to us and a man said (to him), "What do you think about 'Qit-alal-Fitnah' (fighting caused by afflictions)." Ibn `Umar said (to him), "And do you understand what an affliction is? Muhammad used to fight against the pagans, and his fighting with them was an affliction, (and his fighting was) not like your fighting which is carried on for the sake of ruling."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 174
6. باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! مومنوں کو قتال پر آمادہ کیجئے، اگر تم میں سے بیس آدمی بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے اور اگر تم میں سے سو ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب آ جائیں گے اس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے“۔
(6) Chapter. “O Prophet (Muhammad )! Urge the believers to fight...”(V.8:65)
(موقوف) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن ابن عباس رضي الله عنهما: لما نزلت إن يكن منكم عشرون صابرون يغلبوا مائتين وإن يكن منكم مائة سورة الانفال آية 65، فكتب عليهم ان لا يفر واحد من عشرة، فقال سفيان غير مرة: ان لا يفر عشرون من مائتين، ثم نزلت الآن خفف الله عنكم سورة الانفال آية 66 الآية، فكتب ان لا يفر مائة من مائتين، وزاد سفيان مرة نزلت حرض المؤمنين على القتال إن يكن منكم عشرون صابرون سورة الانفال آية 65، قال سفيان: وقال ابن شبرمة: وارى الامر بالمعروف، والنهي عن المنكر، مثل هذا".(موقوف) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: لَمَّا نَزَلَتْ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ سورة الأنفال آية 65، فَكُتِبَ عَلَيْهِمْ أَنْ لَا يَفِرَّ وَاحِدٌ مِنْ عَشَرَةٍ، فَقَالَ سُفْيَانُ غَيْرَ مَرَّةٍ: أَنْ لَا يَفِرَّ عِشْرُونَ مِنْ مِائَتَيْنِ، ثُمَّ نَزَلَتْ الآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ سورة الأنفال آية 66 الْآيَةَ، فَكَتَبَ أَنْ لَا يَفِرَّ مِائَةٌ مِنْ مِائَتَيْنِ، وَزَادَ سُفْيَانُ مَرَّةً نَزَلَتْ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ سورة الأنفال آية 65، قَالَ سُفْيَانُ: وَقَالَ ابْنُ شُبْرُمَةَ: وَأُرَى الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ، مِثْلَ هَذَا".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی «إن يكن منكم عشرون صابرون يغلبوا مائتين» کہ ”اگر تم میں سے بیس آدمی بھی صبر کرنے والے ہوں تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے۔“ تو مسلمانوں کے لیے فرض قرار دے دیا گیا کہ ایک مسلمان دس کافروں کے مقابلے سے نہ بھاگے اور کئی مرتبہ سفیان ثوری نے یہ بھی کہا کہ بیس دو سو کے مقابلے سے نہ بھاگیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «الآن خفف الله عنكم»”اب اللہ نے تم پر تخفیف کر دی۔“ اس کے بعد یہ فرض قرار دیا کہ ایک سو، دو سو کے مقابلے سے نہ بھاگیں۔ سفیان ثوری نے ایک مرتبہ اس زیادتی کے ساتھ روایت بیان کی کہ آیت نازل ہوئی «حرض المؤمنين على القتال إن يكن منكم عشرون صابرون» کہ ”اے نبی مومنوں کو قتال پر آمادہ کرو۔ اگر تم میں سے بیس آدمی صبر کرنے والے ہوں گے۔“ سفیان ثوری نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن شبرمہ (کوفہ کے قاضی) نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں بھی یہی حکم ہے۔
Narrated Ibn `Abbas: When the Verse:-- "If there are twenty steadfast amongst you, they will overcome two hundred." (8.65) was revealed, then it became obligatory for the Muslims that one (Muslim) should not flee from ten (non-Muslims). Sufyan (the sub-narrator) once said, "Twenty (Muslims) should not flee before two hundred (non Muslims)." Then there was revealed: 'But now Allah has lightened your (task)..' (8.66) So it became obligatory that one-hundred (Muslims) should not flee before two hundred (nonmuslims). (Once Sufyan said extra, "The Verse: 'Urge the believers to the fight. If there are twenty steadfast amongst you (Muslims) ..' was revealed.) Sufyan said, "Ibn Shabrama said, "I see that this order is applicable to the obligation of enjoining good and forbidding evil."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 175
(موقوف) حدثنا يحيى بن عبد الله السلمي، اخبرنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا جرير بن حازم، قال: اخبرني الزبير بن خريت، عن عكرمة،عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: لما نزلت إن يكن منكم عشرون صابرون يغلبوا مائتين سورة الانفال آية 65 شق ذلك على المسلمين حين فرض عليهم ان لا يفر واحد من عشرة، فجاء التخفيف، فقال: الآن خفف الله عنكم وعلم ان فيكم ضعفا فإن يكن منكم مائة صابرة يغلبوا مائتين سورة الانفال آية 66، قال: فلما خفف الله عنهم من العدة، نقص من الصبر بقدر ما خفف عنهم".(موقوف) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ السُّلَمِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الزُّبَيْرُ بْنُ خِرِّيتٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ،عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ سورة الأنفال آية 65 شَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ حِينَ فُرِضَ عَلَيْهِمْ أَنْ لَا يَفِرَّ وَاحِدٌ مِنْ عَشَرَةٍ، فَجَاءَ التَّخْفِيفُ، فَقَالَ: الآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ سورة الأنفال آية 66، قَالَ: فَلَمَّا خَفَّفَ اللَّهُ عَنْهُمْ مِنَ الْعِدَّةِ، نَقَصَ مِنَ الصَّبْرِ بِقَدْرِ مَا خُفِّفَ عَنْهُمْ".
ہم سے یحییٰ بن عبداللہ سلمی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو جریر بن حازم نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے زبیر ابن خریت نے خبر دی، انہیں عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب یہ آیت اتری «إن يكن منكم عشرون صابرون يغلبوا مائتين» کہ ”اگر تم میں سے بیس آدمی بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے۔“ تو مسلمانوں پر سخت گزرا کیونکہ اس آیت میں ان پر یہ فرض قرار دیا گیا تھا کہ ایک مسلمان دس کافروں کے مقابلے سے نہ بھاگے۔ اس لیے اس کے بعد تخفیف کی گئی۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا «الآن خفف الله عنكم وعلم أن فيكم ضعفا فإن يكن منكم مائة صابرة يغلبوا مائتين» کہ ”اب اللہ نے تم سے تخفیف کر دی اور معلوم کر لیا کہ تم میں جوش کی کمی ہے۔ سو اب اگر تم میں صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے۔“ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ تعداد کی اس کمی سے اتنی ہی مسلمانوں کے صبر میں کمی ہو گئی۔
Narrated Ibn `Abbas: When the Verse:--'If there are twenty steadfast amongst you (Muslims), they will overcome twohundred (non-Muslims).' was revealed, it became hard on the Muslims when it became compulsory that one Muslim ought not to flee (in war) before ten (non-Muslims). So (Allah) lightened the order by revealing: '(But) now Allah has lightened your (task) for He knows that there is weakness in you. So if there are of you one-hundred steadfast, they will overcome (two-hundred (non-Muslims).' (8.66) So when Allah reduced the number of enemies which Muslims should withstand, their patience and perseverance against the enemy decreased as much as their task was lightened for them.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 176
وليجة: كل شيء ادخلته في شيء، الشقة: السفر الخبال الفساد والخبال الموت، ولا تفتني: لا توبخني، كرها: وكرها واحد، مدخلا: يدخلون فيه، يجمحون: يسرعون، والمؤتفكات: ائتفكت انقلبت بها الارض، اهوى: القاه في هوة، عدن: خلد عدنت بارض، اي اقمت ومنه معدن، ويقال في معدن صدق في منبت صدق، الخوالف: الخالف الذي خلفني فقعد بعدي، ومنه يخلفه في الغابرين، ويجوز ان يكون النساء من الخالفة، وإن كان جمع الذكور فإنه لم يوجد على تقدير جمعه، إلا حرفان فارس وفوارس وهالك وهوالك الخيرات، واحدها خيرة وهي الفواضل، مرجئون مؤخرون الشفا شفير وهو حده، والجرف ما تجرف من السيول والاودية، هار هائر يقال تهورت البئر إذا انهدمت وانهار مثله لاواه شفقا وفرقا، وقال الشاعر: إذا قمت ارحلها بليل تاوه آهة الرجل الحزينوَلِيجَةً: كُلُّ شَيْءٍ أَدْخَلْتَهُ فِي شَيْءٍ، الشُّقَّةُ: السَّفَرُ الْخَبَالُ الْفَسَادُ وَالْخَبَالُ الْمَوْتُ، وَلَا تَفْتِنِّي: لَا تُوَبِّخْنِي، كَرْهًا: وَكُرْهًا وَاحِدٌ، مُدَّخَلًا: يُدْخَلُونَ فِيهِ، يَجْمَحُونَ: يُسْرِعُونَ، وَالْمُؤْتَفِكَاتِ: ائْتَفَكَتِ انْقَلَبَتْ بِهَا الْأَرْضُ، أَهْوَى: أَلْقَاهُ فِي هُوَّةٍ، عَدْنٍ: خُلْدٍ عَدَنْتُ بِأَرْضٍ، أَيْ أَقَمْتُ وَمِنْهُ مَعْدِنٌ، وَيُقَالُ فِي مَعْدِنِ صِدْقٍ فِي مَنْبَتِ صِدْقٍ، الْخَوَالِفُ: الْخَالِفُ الَّذِي خَلَفَنِي فَقَعَدَ بَعْدِي، وَمِنْهُ يَخْلُفُهُ فِي الْغَابِرِينَ، وَيَجُوزُ أَنْ يَكُونَ النِّسَاءُ مِنَ الْخَالِفَةِ، وَإِنْ كَانَ جَمْعَ الذُّكُورِ فَإِنَّهُ لَمْ يُوجَدْ عَلَى تَقْدِيرِ جَمْعِهِ، إِلَّا حَرْفَانِ فَارِسٌ وَفَوَارِسُ وَهَالِكٌ وَهَوَالِكُ الْخَيْرَاتُ، وَاحِدُهَا خَيْرَةٌ وَهِيَ الْفَوَاضِلُ، مُرْجَئُونَ مُؤَخَّرُونَ الشَّفَا شَفِيرٌ وَهُوَ حَدُّهُ، وَالْجُرُفُ مَا تَجَرَّفَ مِنَ السُّيُولِ وَالْأَوْدِيَةِ، هَارٍ هَائِرٍ يُقَالُ تَهَوَّرَتِ الْبِئْرُ إِذَا انْهَدَمَتْ وَانْهَارَ مِثْلُهُ لَأَوَّاهٌ شَفَقًا وَفَرَقًا، وَقَالَ الشَّاعِرُ: إِذَا قُمْتُ أَرْحَلُهَا بِلَيْلٍ تَأَوَّهُ آهَةَ الرَّجُلِ الْحَزِينِ
«وليجة» وہ چیز جو کسی دوسری چیز کے اندر داخل کی جائے (یہاں مراد بھیدی ہے)۔ «الشقة» سفر یا دور دراز راستہ۔ «خبال» کے معنی فساد اور «خبال» موت کو بھی کہتے ہیں۔ «ولا تفتني» یعنی مجھ کو مت جھڑک، مجھ پر خفا مت ہو۔ «كَرها» اور «كُرها» دونوں کا معنی ایک ہے یعنی زبردستی ناخوشی سے۔ «مدخلا» گھس بیٹھنے کا مقام (مثلا سرنگ وغیرہ)۔ «يجمحون» دوڑتے جائیں۔ «مؤتفكات» یہ «ائتفكت انقلبت بها الأرض.» سے نکلا ہے یعنی اس کی زمین الٹ دی گئی۔ «أهوى» یعنی اس کو ایک گڑھے میں دھکیل دیا۔ «عدن» کا معنی ہمیشگی کے ہیں۔ عرب لوگ بولتے ہیں «عدنت بأرض» یعنی میں اس سر زمین میں رہ گیا۔ اس سے «معدن» کا لفظ نکلا ہے۔ (جس کا معنی سونے یا چاندی یا کسی اور دھات کی کان کے ہیں)۔ «معدن صدق.» یعنی اس سر زمین میں جہاں سچائی اگتی ہے۔ «الخوالف»، «خالف» کی جمع ہے۔ «خالف» وہ جو مجھ کو چھوڑ کر پیچھے بیٹھ رہا۔ اسی سے ہے یہ حدیث «يخلفه في الغابرين» یعنی جو لوگ میت کے بعد باقی رہ گئے تو ان میں اس کا قائم مقام بن (یعنی ان کا محافظ اور نگہبان ہو)۔ اور «الخوالف» سے عورتیں مراد ہیں اس صورت میں یہ «يخلفه» کی جمع ہو گی (جیسے «فاعلة» کی جمع «فواعل» آتی ہے)۔ اگر «خالف» مذکر کی جمع ہو تو یہ «شاذ» ہو گی ایسے مذکر کی زبان عرب میں دو ہی «جمعه» آتی ہیں جیسے «فارس» اور «فوارس» اور «هالك» اور «هوالك» ۔ «الخيرات»، «خيرة» کی جمع ہے۔ یعنی نیکیاں بھلائیاں۔ «مرجئون» ڈھیل میں دیئے گئے۔ «الشفا» کہتے ہیں «شفير» کو یعنی کنارہ۔ «الجرف» وہ زمین جو ندی نالوں کے بہاؤ سے کھد جاتی ہے۔ «هار» گرنے والی اسی سے ہے «تهورت البئر» یعنی کنواں گر گیا۔ «لأواه» یعنی خدا کے خوف سے اور ڈر سے آہ و زاری کرنے والا جیسے شاعر ( «مشقب عبدى») کہتا ہے۔
1. باب: آیت کی تفسیر ”اعلان بیزاری ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکین سے جن سے تم نے عہد کر رکھا ہے (اور اب عہد کو انہوں نے توڑ دیا ہے)“۔
(1) Chapter. Allah’s Statement: “Freedom from (all) obligations (is declared) from Allah and His Messenger (ﷺ) to those of the Mushrikun [polytheiest, pagans, idolaters, disbelievers in the Oneness of Allah and His Messenger Muhammad (ﷺ)] with whom you made a treaty." (V.9:1)
وقال ابن عباس: اذن: يصدق، تطهرهم وتزكيهم بها: ونحوها كثير والزكاة الطاعة والإخلاص، لا يؤتون الزكاة: لا يشهدون ان لا إله إلا الله، يضاهون: يشبهون.وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أُذُنٌ: يُصَدِّقُ، تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا: وَنَحْوُهَا كَثِيرٌ وَالزَّكَاةُ الطَّاعَةُ وَالْإِخْلَاصُ، لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ: لَا يَشْهَدُونَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يُضَاهُونَ: يُشَبِّهُونَ.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «أذن» اس شخص کو کہتے ہیں جو ہر بات سن لے اس پر یقین کر لے «تطهرهم» اور «تزكيهم بها» کے ایک معنی ہیں۔ قرآن مجید میں ایسے مترادف الفاظ بہت ہیں۔ «الزكاة» کے معنی بندگی اور اخلاص کے ہیں۔ «لا يؤتون الزكاة» کے معنی یہ کہ کلمہ «لا إله إلا الله» کی گواہی نہیں دیتے۔ «يضاهون» ای «يشبهون» یعنی اگلے کافروں کی سی بات کرتے ہیں۔