6. باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! مومنوں کو قتال پر آمادہ کیجئے، اگر تم میں سے بیس آدمی بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے اور اگر تم میں سے سو ہوں گے تو ایک ہزار کافروں پر غالب آ جائیں گے اس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے“۔
(6) Chapter. “O Prophet (Muhammad )! Urge the believers to fight...”(V.8:65)
(موقوف) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن ابن عباس رضي الله عنهما: لما نزلت إن يكن منكم عشرون صابرون يغلبوا مائتين وإن يكن منكم مائة سورة الانفال آية 65، فكتب عليهم ان لا يفر واحد من عشرة، فقال سفيان غير مرة: ان لا يفر عشرون من مائتين، ثم نزلت الآن خفف الله عنكم سورة الانفال آية 66 الآية، فكتب ان لا يفر مائة من مائتين، وزاد سفيان مرة نزلت حرض المؤمنين على القتال إن يكن منكم عشرون صابرون سورة الانفال آية 65، قال سفيان: وقال ابن شبرمة: وارى الامر بالمعروف، والنهي عن المنكر، مثل هذا".(موقوف) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: لَمَّا نَزَلَتْ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ سورة الأنفال آية 65، فَكُتِبَ عَلَيْهِمْ أَنْ لَا يَفِرَّ وَاحِدٌ مِنْ عَشَرَةٍ، فَقَالَ سُفْيَانُ غَيْرَ مَرَّةٍ: أَنْ لَا يَفِرَّ عِشْرُونَ مِنْ مِائَتَيْنِ، ثُمَّ نَزَلَتْ الآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ سورة الأنفال آية 66 الْآيَةَ، فَكَتَبَ أَنْ لَا يَفِرَّ مِائَةٌ مِنْ مِائَتَيْنِ، وَزَادَ سُفْيَانُ مَرَّةً نَزَلَتْ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ سورة الأنفال آية 65، قَالَ سُفْيَانُ: وَقَالَ ابْنُ شُبْرُمَةَ: وَأُرَى الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ، مِثْلَ هَذَا".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی «إن يكن منكم عشرون صابرون يغلبوا مائتين» کہ ”اگر تم میں سے بیس آدمی بھی صبر کرنے والے ہوں تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے۔“ تو مسلمانوں کے لیے فرض قرار دے دیا گیا کہ ایک مسلمان دس کافروں کے مقابلے سے نہ بھاگے اور کئی مرتبہ سفیان ثوری نے یہ بھی کہا کہ بیس دو سو کے مقابلے سے نہ بھاگیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «الآن خفف الله عنكم»”اب اللہ نے تم پر تخفیف کر دی۔“ اس کے بعد یہ فرض قرار دیا کہ ایک سو، دو سو کے مقابلے سے نہ بھاگیں۔ سفیان ثوری نے ایک مرتبہ اس زیادتی کے ساتھ روایت بیان کی کہ آیت نازل ہوئی «حرض المؤمنين على القتال إن يكن منكم عشرون صابرون» کہ ”اے نبی مومنوں کو قتال پر آمادہ کرو۔ اگر تم میں سے بیس آدمی صبر کرنے والے ہوں گے۔“ سفیان ثوری نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن شبرمہ (کوفہ کے قاضی) نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں بھی یہی حکم ہے۔
Narrated Ibn `Abbas: When the Verse:-- "If there are twenty steadfast amongst you, they will overcome two hundred." (8.65) was revealed, then it became obligatory for the Muslims that one (Muslim) should not flee from ten (non-Muslims). Sufyan (the sub-narrator) once said, "Twenty (Muslims) should not flee before two hundred (non Muslims)." Then there was revealed: 'But now Allah has lightened your (task)..' (8.66) So it became obligatory that one-hundred (Muslims) should not flee before two hundred (nonmuslims). (Once Sufyan said extra, "The Verse: 'Urge the believers to the fight. If there are twenty steadfast amongst you (Muslims) ..' was revealed.) Sufyan said, "Ibn Shabrama said, "I see that this order is applicable to the obligation of enjoining good and forbidding evil."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 175
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4652
حدیث حاشیہ: یعنی اگر مخالفین کی جماعت برابر یا دو گنی ہو جب بھی کلمہ حق کہنے میں دریغ نہ کرے ورنہ گنہگار ہوگا۔ اچھی بات کا حکم کرے۔ بری بات سے منع کر دے۔ اگر مخالفین دو گنے سے بھی زیادہ ہوں اور جان جانے کا ڈر ہو اس وقت سکوت کرنا جائز ہے لیکن دل سے ان کو برا سمجھے ان کی جماعت سے الگ رہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4652
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4652
حدیث حاشیہ: 1۔ ابتدائے اسلام میں مسلمان تعداد میں تھوڑے تھے جب زیادہ ہو گئےتو ان سے تخفیف کردی گئی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ ہر حالت میں دشمن کا مقابلہ کریں اگرچہ تنہاہی کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا آپ سے وعدہ ہے کہ آپ کی مدد کرے گا۔ اور دشمنوں سے آپ کی حفاظت فرمائے گا۔ غالباًیہی وجہ ہے کہ جب غزوہ حنین میں مسلمانوں سے کمزوری ہوئی تو آپ دشمن کے مقابلے میں تن تنہا ڈٹے رہے اور فرماتے رہے۔ (أنا النبي لا كذب أنا ابن عبد المطلب) "میں نبی ہوں اس میں جھوٹ نہیں۔ میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔ " (صحیح البخاری، الجھاد والسیر، باب: 2864) 2۔ امر بالمعروف اور نہی المنکر بھی جہاد کی طرح ہے کیونکہ جہاد میں کلمہ حق بلند کرنا ہوتا ہے اور امر بالمعروف میں کلمہ باطل ختم کرنا ہوتا ہے، اس لیے اگر مخالفین کی جماعت برا بر یادو گنی ہو تو بھی کلمہ حق کہنے سے دریغ نہ کرے اور اگر مخالفین تعداد میں اس سے زیادہ ہوں اور جان کا خطرہ ہو تو اس وقت خاموشی اختیار کرنا جائز ہے لیکن دل سے انھیں برا سمجھے اور ان سے نفرت کرے۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4652