صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
9. سورة بَرَاءَةَ:
باب: سورۃ برات کی تفسیر۔
وَلِيجَةً: كُلُّ شَيْءٍ أَدْخَلْتَهُ فِي شَيْءٍ، الشُّقَّةُ: السَّفَرُ الْخَبَالُ الْفَسَادُ وَالْخَبَالُ الْمَوْتُ، وَلَا تَفْتِنِّي: لَا تُوَبِّخْنِي، كَرْهًا: وَكُرْهًا وَاحِدٌ، مُدَّخَلًا: يُدْخَلُونَ فِيهِ، يَجْمَحُونَ: يُسْرِعُونَ، وَالْمُؤْتَفِكَاتِ: ائْتَفَكَتِ انْقَلَبَتْ بِهَا الْأَرْضُ، أَهْوَى: أَلْقَاهُ فِي هُوَّةٍ، عَدْنٍ: خُلْدٍ عَدَنْتُ بِأَرْضٍ، أَيْ أَقَمْتُ وَمِنْهُ مَعْدِنٌ، وَيُقَالُ فِي مَعْدِنِ صِدْقٍ فِي مَنْبَتِ صِدْقٍ، الْخَوَالِفُ: الْخَالِفُ الَّذِي خَلَفَنِي فَقَعَدَ بَعْدِي، وَمِنْهُ يَخْلُفُهُ فِي الْغَابِرِينَ، وَيَجُوزُ أَنْ يَكُونَ النِّسَاءُ مِنَ الْخَالِفَةِ، وَإِنْ كَانَ جَمْعَ الذُّكُورِ فَإِنَّهُ لَمْ يُوجَدْ عَلَى تَقْدِيرِ جَمْعِهِ، إِلَّا حَرْفَانِ فَارِسٌ وَفَوَارِسُ وَهَالِكٌ وَهَوَالِكُ الْخَيْرَاتُ، وَاحِدُهَا خَيْرَةٌ وَهِيَ الْفَوَاضِلُ، مُرْجَئُونَ مُؤَخَّرُونَ الشَّفَا شَفِيرٌ وَهُوَ حَدُّهُ، وَالْجُرُفُ مَا تَجَرَّفَ مِنَ السُّيُولِ وَالْأَوْدِيَةِ، هَارٍ هَائِرٍ يُقَالُ تَهَوَّرَتِ الْبِئْرُ إِذَا انْهَدَمَتْ وَانْهَارَ مِثْلُهُ لَأَوَّاهٌ شَفَقًا وَفَرَقًا، وَقَالَ الشَّاعِرُ: إِذَا قُمْتُ أَرْحَلُهَا بِلَيْلٍ تَأَوَّهُ آهَةَ الرَّجُلِ الْحَزِينِ
«وليجة» وہ چیز جو کسی دوسری چیز کے اندر داخل کی جائے (یہاں مراد بھیدی ہے)۔ «الشقة» سفر یا دور دراز راستہ۔ «خبال» کے معنی فساد اور «خبال» موت کو بھی کہتے ہیں۔ «ولا تفتني» یعنی مجھ کو مت جھڑک، مجھ پر خفا مت ہو۔ «كَرها» اور «كُرها» دونوں کا معنی ایک ہے یعنی زبردستی ناخوشی سے۔ «مدخلا» گھس بیٹھنے کا مقام (مثلا سرنگ وغیرہ)۔ «يجمحون» دوڑتے جائیں۔ «مؤتفكات» یہ «ائتفكت انقلبت بها الأرض.» سے نکلا ہے یعنی اس کی زمین الٹ دی گئی۔ «أهوى» یعنی اس کو ایک گڑھے میں دھکیل دیا۔ «عدن» کا معنی ہمیشگی کے ہیں۔ عرب لوگ بولتے ہیں «عدنت بأرض» یعنی میں اس سر زمین میں رہ گیا۔ اس سے «معدن» کا لفظ نکلا ہے۔ (جس کا معنی سونے یا چاندی یا کسی اور دھات کی کان کے ہیں)۔ «معدن صدق.» یعنی اس سر زمین میں جہاں سچائی اگتی ہے۔ «الخوالف»، «خالف» کی جمع ہے۔ «خالف» وہ جو مجھ کو چھوڑ کر پیچھے بیٹھ رہا۔ اسی سے ہے یہ حدیث «يخلفه في الغابرين» یعنی جو لوگ میت کے بعد باقی رہ گئے تو ان میں اس کا قائم مقام بن (یعنی ان کا محافظ اور نگہبان ہو)۔ اور «الخوالف» سے عورتیں مراد ہیں اس صورت میں یہ «يخلفه» کی جمع ہو گی (جیسے «فاعلة» کی جمع «فواعل» آتی ہے)۔ اگر «خالف» مذکر کی جمع ہو تو یہ «شاذ» ہو گی ایسے مذکر کی زبان عرب میں دو ہی «جمعه» آتی ہیں جیسے «فارس» اور «فوارس» اور «هالك» اور «هوالك» ۔ «الخيرات»، «خيرة» کی جمع ہے۔ یعنی نیکیاں بھلائیاں۔ «مرجئون» ڈھیل میں دیئے گئے۔ «الشفا» کہتے ہیں «شفير» کو یعنی کنارہ۔ «الجرف» وہ زمین جو ندی نالوں کے بہاؤ سے کھد جاتی ہے۔ «هار» گرنے والی اسی سے ہے «تهورت البئر» یعنی کنواں گر گیا۔ «لأواه» یعنی خدا کے خوف سے اور ڈر سے آہ و زاری کرنے والا جیسے شاعر ( «مشقب عبدى») کہتا ہے۔