(موقوف) حدثنا يحيى بن عبد الله السلمي، اخبرنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا جرير بن حازم، قال: اخبرني الزبير بن خريت، عن عكرمة،عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: لما نزلت إن يكن منكم عشرون صابرون يغلبوا مائتين سورة الانفال آية 65 شق ذلك على المسلمين حين فرض عليهم ان لا يفر واحد من عشرة، فجاء التخفيف، فقال: الآن خفف الله عنكم وعلم ان فيكم ضعفا فإن يكن منكم مائة صابرة يغلبوا مائتين سورة الانفال آية 66، قال: فلما خفف الله عنهم من العدة، نقص من الصبر بقدر ما خفف عنهم".(موقوف) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ السُّلَمِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الزُّبَيْرُ بْنُ خِرِّيتٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ،عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ سورة الأنفال آية 65 شَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ حِينَ فُرِضَ عَلَيْهِمْ أَنْ لَا يَفِرَّ وَاحِدٌ مِنْ عَشَرَةٍ، فَجَاءَ التَّخْفِيفُ، فَقَالَ: الآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ سورة الأنفال آية 66، قَالَ: فَلَمَّا خَفَّفَ اللَّهُ عَنْهُمْ مِنَ الْعِدَّةِ، نَقَصَ مِنَ الصَّبْرِ بِقَدْرِ مَا خُفِّفَ عَنْهُمْ".
ہم سے یحییٰ بن عبداللہ سلمی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو جریر بن حازم نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے زبیر ابن خریت نے خبر دی، انہیں عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب یہ آیت اتری «إن يكن منكم عشرون صابرون يغلبوا مائتين» کہ ”اگر تم میں سے بیس آدمی بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے۔“ تو مسلمانوں پر سخت گزرا کیونکہ اس آیت میں ان پر یہ فرض قرار دیا گیا تھا کہ ایک مسلمان دس کافروں کے مقابلے سے نہ بھاگے۔ اس لیے اس کے بعد تخفیف کی گئی۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا «الآن خفف الله عنكم وعلم أن فيكم ضعفا فإن يكن منكم مائة صابرة يغلبوا مائتين» کہ ”اب اللہ نے تم سے تخفیف کر دی اور معلوم کر لیا کہ تم میں جوش کی کمی ہے۔ سو اب اگر تم میں صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے۔“ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ تعداد کی اس کمی سے اتنی ہی مسلمانوں کے صبر میں کمی ہو گئی۔
Narrated Ibn `Abbas: When the Verse:--'If there are twenty steadfast amongst you (Muslims), they will overcome twohundred (non-Muslims).' was revealed, it became hard on the Muslims when it became compulsory that one Muslim ought not to flee (in war) before ten (non-Muslims). So (Allah) lightened the order by revealing: '(But) now Allah has lightened your (task) for He knows that there is weakness in you. So if there are of you one-hundred steadfast, they will overcome (two-hundred (non-Muslims).' (8.66) So when Allah reduced the number of enemies which Muslims should withstand, their patience and perseverance against the enemy decreased as much as their task was lightened for them.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 176
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4653
حدیث حاشیہ: ایمان اور عزم و حوصلہ کی بات ہے کہ جب مسلمانوں میں یہ چیزیں خوب ترقی پر تھيں، ان کا ایک ایک فرد دس دس پر غالب آتا تھا اور جب ان میں کمی ہو گئی تو مسلمانوں کی قوت میں بھی فرق آگیا۔ اللہ تعالیٰ کابہت بڑا فضل وکرم ہے کہ آج پارہ نمبر18 کی تسوید سے فراغت حاصل کر رہا ہوں۔ اس سال خصوصیت سے بہت سے افکار و ہموم کا شکار رہا۔ صحت نے بہت کافی حد تک مایوسی کے درجہ پر پہنچادیا۔ مالی وجانی نقصانات نے کمر ہمت کو توڑ کر رکھ دیا، پھر بھی دل میں یہی لگن رہی کہ حالات کچھ بھی ہوں۔ بہر حال و بہر صورت خدمت بخاری شریف کو انجام دینا ہے۔ کاتب بخاری مولانا محمد حسن لداخی مرحوم کی وفات حسرت آیات سے بہت کم امید تھی کہ یہ نیک سلسلہ حسب منشا چل سکے گا۔ مگراللہ پاک نے مخلصین کی دعاؤں کو قبول کیا اور مرحوم مولانا لداخی کی جگہ میرے پرانے دوست بھائی مولانا عبد الخالق صاحب خلیق بستوی کاتب دل وجان سے اس خدمت کے لیے تیار ہو گئے۔ الحمد للہ یہ پارہ حضرت مولانا موصوف ہی کی قلم کا لکھا ہوا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ پاک مجھ کو اور میرے سارے کاتب حضرات کو تندرستی کے ساتھ یہ خدمت مکمل کرنے کی سعادت عطا کرے۔ یہ پارہ زیادہ تر کتاب التفسیر پر مشتمل ہے۔ امام المحدثین حضرت امام بخاری ؒ نے اس میں مختلف الفاظ اور آیات کا انتخاب فرما کر ان کے معانی ومطالب اور شان نزول وغیرہ سلفی طرز پر بیان فرمائے ہیں۔ جن سے ہم جیسے قرآن مقدس کے طالب علموں کو بہت سی قیمتی معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔ خادم نے ترجمہ و تشریحات میں اختصار کو ملحوظ رکھا ہے۔ پھر بھی اس پارے کی ضخامت کافی ہو گئی ہے۔ اس ہوش ربا گرانی کے زمانے میں مسلسل اس خدمت کو انجام دینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ دماغی و ذہنی کد و کاوش مطالعہ کتب تراجم وشروح پھر کاتبوں اور مطابع کے چکر کاٹنے اور موجودہ گرانی کا مقابلہ کرنا یہ سارے حالات بہت ہی ہمت شکن ہیں۔ مگر مخلصین کی دعاؤں کا سہارا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم خاص سے یہاں تک پہنچا دیا۔ سہواً کچھ نہ کچھ اغلاط ضرور ملیں گی۔ اس لیے میں اپنے قدر دانوں سے معافی مانگنے کے ساتھ معزز علمائے کرام سے با ادب درخواست کروں گا کہ اصلاح فرما کر مجھ کو تہ دل سے شکر ادا کرنے کا موقع دیں اور مجھ نا چیز کو دعاؤں میں یاد رکھیں کہ میں بقایا خدمت باحسن طریق انجام دے سکوں جس کے لیے ابھی کافی وقت اور سرمایہ کی ضرورت ہے۔ یااللہ محض تیری رضا حاصل کرنے کے لیے تیرے حبیب رسول کریم ﷺ کے فرامین عالیہ کی یہ قلمی خدمت انجام دے رہا ہوں تو اس حقیر خدمت کو قبول فرماکر میرے اور میرے جملہ ہمدردان کرام کے لیے ذریعہ سعادت دارین بنائیو اور میرے بعد بھی اس تبلیغی سلسلہ کو جاری رکھوا کر اس صدقہ جاریہ کو دوام بخش دیجؤ۔ آمین ربنا تقبل منا إنك أنت السمیع العلیم و صلی اللہ علیٰ رسوله الکریم والحمد للہ رب العالمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4653
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4653
حدیث حاشیہ: 1۔ جب مسلمانوں میں ایمان عزم اور حوصلہ وغیرہ عروج پر تھا تو ان کا ایک ایک فرد دس، دس افراد پر بھاری تھا اور جب ان چیزوں میں کمی آگئی تو مسلمانوں کی قوت میں بھی فرق آگیا۔ یہ تخفیف کا منفی نتیجہ ہے اب یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ پہلا حکم منسوخ یا ساقط العمل ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ نو مسلم پوری طرح تیار ہو جائیں اور ان میں قوت ایمان پختہ ہو جائے تو پھر سابقہ حکم ہی نافذ العمل ہو گا، چنانچہ دور نبوی کی آخری جنگوں میں عملاً ایسا ہوا بھی تھا اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم أجمعین کے زمانے میں بھی ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ چنانچہ جنگ موتہ کے موقع پر تین ہزار مسلمان ایک لاکھ کافروں کے مقابلے میں ڈٹے رہے۔ 2۔ چونکہ مسلمان کے لیے دو سعادتیں ہیں جن سے کافر محروم ہیں مومن اگر جنگ میں کام آتا ہے تو سیدھا جنت میں جاتا ہے اور اگر صحیح سالم واپس آتا ہے تو مال غنیمت اور اجر عظیم لے کر لوٹتا ہے لیکن کافر صرف دنیاوی سامان کے لیے پڑتا ہے اور اس لیے وہ اخروی سعادت سے محروم رہتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4653