صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
3. بَابُ قَوْلِهِ: {وَإِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! ان کو وہ وقت بھی یاد دلاؤ جب ان کافروں نے کہا تھا کہ اے اللہ! اگر یہ (کلام) تیری طرف سے واقعی برحق ہے ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا پھر (کوئی اور ہی) عذاب درد ناک لے آ“۔
حدیث نمبر: 4648
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ هُوَ ابْنُ كُرْدِيدٍ صَاحِبُ الزِّيَادِيِّ، سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه، قال: قَالَ أَبُو جَهْلٍ:" اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ، فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ"، فَنَزَلَتْ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ {33} وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ سورة الأنفال آية 32-33الْآيَةَ.
مجھ سے احمد بن نضر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن معاذ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے صاحب الزیادی عبدالحمید نے جو کردید کے صاحبزادے تھے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ابوجہل نے کہا تھا کہ اے اللہ! اگر یہ کلام تیری طرف سے واقعی حق ہے تو ہم پر آسمانوں سے پتھر برسا دے یا پھر کوئی اور ہی عذاب درد ناک لے آ!“ تو اس پر آیت «وما كان الله ليعذبهم وأنت فيهم وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون * وما لهم أن لا يعذبهم الله وهم يصدون عن المسجد الحرام» ”حالانکہ اللہ ایسا نہیں کرے گا کہ انہیں عذاب دے، اس حال میں کہ آپ ان میں موجود ہوں اور نہ اللہ ان پر عذاب لائے گا اس حال میں کہ وہ استغفار کر رہے ہوں۔ ان لوگوں کے لیے کیا وجہ کہ اللہ ان پر عذاب (ہی سرے سے) نہ لائے درآں حالیکہ وہ مسجد الحرام سے روکتے ہیں۔“ آخر آیت تک۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4648 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4648
حدیث حاشیہ:
ابو جہل کی دعا قبول ہوئی اور بدر میں وہ ذلت کی موت مرا۔
آیت اور حدیث میں یہی مذکور ہوا ہے اگر وہ لوگ توبہ واستغفار کرتے تو اللہ تعالیٰ بھی ضرور ان پر رحم کرتا مگر ان کی قسمت میں اسلام نہ تھا۔
﴿ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ﴾ اس سے استغفار کی بھی بڑی فضیلت ثابت ہوئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4648
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4648
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مذکورہ دعا ابوجہل نے کی تھی جبکہ دوسری سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا قائل نضر بن حارث تھا۔
ان دونوں اقوال میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ دونوں نے ایسا کہا ہوگا۔
نضر بن حارث بھی ابوجہل کی طرح بہت گستاخ تھا۔
2۔
ابوجہل کی دعا قبول ہوئی، وہ بدر کے دن ذلت کی موت مرا۔
اسی طرح نضر بن حارث کو بھی رسوا کن عذاب سے دو چارہونا پڑا، وہ بھی بدر کے دن مقداد بن اسود کے ہاتھوں گرفتار ہوا، پھر اسے رسول اللہ ﷺ کے حکم سے باندھ کر قتل کیا گیا۔
3۔
بہرحال یہ لوگ انتہائی بے وقوف تھے کہ انھوں نے دین اسلام کے برحق ہونے کی صورت میں بھی اللہ تعالیٰ سے عذاب کا مطالبہ کیا، اسے قبول کرنے کی توفیق طلب نہ کی۔
اس سے بڑھ کر دنیا میں شاید کوئی سرکشی اور انکار نہ ہو۔
ابوجہل اور نضر بن حارث کی دعا کا جواب ہم آئندہ حدیث کے فوائد میں ذکر کریں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4648