(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا معتمر، عن ابيه حدثنا ابو عثمان انه حدثه عبد الرحمن بن ابي بكر رضي الله عنهما، ان اصحاب الصفة كانوا اناسا فقراء، وان النبي صلى الله عليه وسلم، قال مرة:" من كان عنده طعام اثنين فليذهب بثالث ومن كان عنده طعام اربعة فليذهب بخامس او سادس او كما، قال: وان ابا بكر جاء بثلاثة وانطلق النبي صلى الله عليه وسلم بعشرة وابو بكر ثلاثة، قال: فهو انا وابي وامي ولا ادري هل، قال: امراتي وخادمي بين بيتنا وبين بيت ابي بكر، وان ابا بكر تعشى عند النبي صلى الله عليه وسلم ثم لبث حتى صلى العشاء، ثم رجع فلبث حتى تعشى رسول الله صلى الله عليه وسلم فجاء بعد ما مضى من الليل ما شاء الله، قالت له: امراته ما حبسك عن اضيافك او ضيفك، قال: اوعشيتهم، قالت: ابوا حتى تجيء قد عرضوا عليهم فغلبوهم فذهبت فاختبات، فقال: يا غنثر فجدع وسب، وقال: كلوا، وقال: لا اطعمه ابدا، قال، وايم الله ما كنا ناخذ من اللقمة إلا ربا من اسفلها اكثر منها حتى شبعوا وصارت اكثر مما كانت قبل، فنظر ابو بكر فإذا شيء او اكثر، قال: لامراته يا اخت بني فراس، قالت: لا وقرة عيني لهي الآن اكثر مما قبل بثلاث مرات، فاكل منها ابو بكر، وقال: إنما كان الشيطان يعني يمينه، ثم اكل منها لقمة، ثم حملها إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاصبحت عنده وكان بيننا وبين قوم عهد فمضى الاجل فتفرقنا اثنا عشر رجلا مع كل رجل منهم اناس الله اعلم كم مع كل رجل غير انه بعث معهم، قال: اكلوا منها اجمعون او كما، قال: وغيره، يقول: فعرفنا من العرافة".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ أَبِيهِ حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ كَانُوا أُنَاسًا فُقَرَاءَ، وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ مَرَّةً:" مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَالِثٍ وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بِخَامِسٍ أَوْ سَادِسٍ أَوْ كَمَا، قَالَ: وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ جَاءَ بِثَلَاثَةٍ وَانْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ وَأَبُو بَكْرٍ ثَلَاثَةً، قَالَ: فَهُوَ أَنَا وَأَبِي وَأُمِّي وَلَا أَدْرِي هَلْ، قَالَ: امْرَأَتِي وَخَادِمِي بَيْنَ بَيْتِنَا وَبَيْنَ بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ، وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ تَعَشَّى عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لَبِثَ حَتَّى صَلَّى الْعِشَاءَ، ثُمَّ رَجَعَ فَلَبِثَ حَتَّى تَعَشَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ بَعْدَ مَا مَضَى مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ، قَالَتْ لَهُ: امْرَأَتُهُ مَا حَبَسَكَ عَنْ أَضْيَافِكَ أَوْ ضَيْفِكَ، قَالَ: أَوَعَشَّيْتِهِمْ، قَالَتْ: أَبَوْا حَتَّى تَجِيءَ قَدْ عَرَضُوا عَلَيْهِمْ فَغَلَبُوهُمْ فَذَهَبْتُ فَاخْتَبَأْتُ، فَقَالَ: يَا غُنْثَرُ فَجَدَّعَ وَسَبَّ، وَقَالَ: كُلُوا، وَقَالَ: لَا أَطْعَمُهُ أَبَدًا، قَالَ، وَايْمُ اللَّهِ مَا كُنَّا نَأْخُذُ مِنَ اللُّقْمَةِ إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرُ مِنْهَا حَتَّى شَبِعُوا وَصَارَتْ أَكْثَرَ مِمَّا كَانَتْ قَبْلُ، فَنَظَرَ أَبُو بَكْرٍ فَإِذَا شَيْءٌ أَوْ أَكْثَرُ، قَالَ: لِامْرَأَتِهِ يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ، قَالَتْ: لَا وَقُرَّةِ عَيْنِي لَهِيَ الْآنَ أَكْثَرُ مِمَّا قَبْلُ بِثَلَاثِ مَرَّاتٍ، فَأَكَلَ مِنْهَا أَبُو بَكْرٍ، وَقَالَ: إِنَّمَا كَانَ الشَّيْطَانُ يَعْنِي يَمِينَهُ، ثُمَّ أَكَلَ مِنْهَا لُقْمَةً، ثُمَّ حَمَلَهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحَتْ عِنْدَهُ وَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ فَمَضَى الْأَجَلُ فَتَفَرَّقْنَا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا مَعَ كُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ أُنَاسٌ اللَّهُ أَعْلَمُ كَمْ مَعَ كُلِّ رَجُلٍ غَيْرَ أَنَّهُ بَعَثَ مَعَهُمْ، قَالَ: أَكَلُوا مِنْهَا أَجْمَعُونَ أَوْ كَمَا، قَالَ: وَغَيْرُهُ، يَقُولُ: فَعَرَفْنَا مِنَ الْعِرَافَةِ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا، ان سے ان کے والد سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعثمان نہدی نے بیان کیا اور ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ صفہ والے محتاج اور غریب لوگ تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ جس کے گھر میں دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ ایک تیسرے کو بھی اپنے ساتھ لیتا جائے اور جس کے گھر چار آدمیوں کا کھانا ہو وہ پانچواں آدمی اپنے ساتھ لیتا جائے یا چھٹے کو بھی یا آپ نے اسی طرح کچھ فرمایا (راوی کو پانچ اور چھ میں شک ہے) خیر تو ابوبکر رضی اللہ عنہ تین اصحاب صفہ کو اپنے ساتھ لائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ دس اصحاب کو لے گئے اور گھر میں، میں تھا اور میرے ماں باپ تھے۔ ابوعثمان نے کہا مجھ کو یاد نہیں عبدالرحمٰن نے یہ بھی کہا، اور میری عورت اور خادم جو میرے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں کے گھروں میں کام کرتا تھا۔ لیکن خود ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا کھایا اور عشاء کی نماز تک وہاں ٹھہرے رہے (مہمانوں کو پہلے ہی بھیج چکے تھے) اس لیے انہیں اتنا ٹھہرنا پڑا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کھا لیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کو جتنا منظور تھا اتنا حصہ رات کا جب گزر گیا تو آپ گھر واپس آئے۔ ان کی بیوی نے ان سے کہا، کیا بات ہوئی۔ آپ کو اپنے مہمان یاد نہیں رہے؟ انہوں نے پوچھا: کیا مہمانوں کو اب تک کھانا نہیں کھلایا؟ بیوی نے کہا کہ مہمانوں نے آپ کے آنے تک کھانے سے انکار کیا۔ ان کے سامنے کھانا پیش کیا گیا تھا لیکن وہ نہیں مانے۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں تو جلدی سے چھپ گیا (کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ غصہ ہو گئے تھے)۔ آپ نے ڈانٹا، اے پاجی! اور بہت برا بھلا کہا، پھر (مہمانوں سے) کہا چلو اب کھاؤ اور خود قسم کھا لی کہ میں تو کبھی نہ کھاؤں گا۔ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم، پھر ہم جو لقمہ بھی (اس کھانے میں سے) اٹھاتے تو جیسے نیچے سے کھانا اور زیادہ ہو جاتا تھا (اتنی اس میں برکت ہوئی) سب لوگوں نے شکم سیر ہو کر کھایا اور کھانا پہلے سے بھی زیادہ بچ رہا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو دیکھا تو کھانا جوں کا توں تھا یا پہلے سے بھی زیادہ۔ اس پر انہوں نے اپنی بیوی سے کہا، اے بنی فراس کی بہن (دیکھو تو یہ کیا معاملہ ہوا) انہوں نے کہا، کچھ بھی نہیں، میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم، کھانا تو پہلے سے تین گنا زیادہ معلوم ہوتا ہے، پھر وہ کھانا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی کھایا اور فرمایا کہ یہ میرا قسم کھانا تو شیطان کا اغوا تھا۔ ایک لقمہ کھا کر اسے آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے وہاں وہ صبح تک رکھا رہا۔ اتفاق سے ایک کافر قوم جس کا ہم مسلمانوں سے معاہدہ تھا اور معاہدہ کی مدت ختم ہو چکی تھی۔ ان سے لڑنے کے لیے فوج جمع کی گئی۔ پھر ہم بارہ ٹکڑیاں ہو گئے اور ہر آدمی کے ساتھ کتنے آدمی تھے یہ اللہ ہی جانتا ہے مگر اتنا ضرور معلوم ہے کہ آپ نے ان نقیبوں کو لشکر والوں کے ساتھ بھیجا۔ حاصل یہ کہ فوج والوں نے اس میں سے کھایا۔ یا عبدالرحمٰن نے کچھ ایسا ہی کہا۔
Narrated `Abdur-Rahman bin Abi Bakr: The companions of Suffa were poor people. The Prophet once said, "Whoever has food enough for two persons, should take a third one (from among them), and whoever has food enough for four persons, should take a fifth or a sixth (or said something similar)." Abu Bakr brought three persons while the Prophet took ten. And Abu Bakr with his three family member (who were I, my father and my mother) (the sub-narrator is in doubt whether `Abdur-Rahman said, "My wife and my servant who was common for both my house and Abu Bakr's house.") Abu Bakr took his supper with the Prophet and stayed there till he offered the `Isha' prayers. He returned and stayed till Allah's Apostle took his supper. After a part of the night had passed, he returned to his house. His wife said to him, "What has detained you from your guests?" He said, "Have you served supper to them?" She said, "They refused to take supper until you come. They (i.e. some members of the household) presented the meal to them but they refused (to eat)" I went to hide myself and he said, "O Ghunthar!" He invoked Allah to cause my ears to be cut and he rebuked me. He then said (to them): Please eat!" and added, I will never eat the meal." By Allah, whenever we took a handful of the meal, the meal grew from underneath more than that handful till everybody ate to his satisfaction; yet the remaining food was more than the original meal. Abu Bakr saw that the food was as much or more than the original amount. He called his wife, "O sister of Bani Firas!" She said, "O pleasure of my eyes. The food has been tripled in quantity." Abu Bakr then started eating thereof and said, "It (i.e. my oath not to eat) was because of Sa all." He took a handful from it, and carried the rest to the Prophet. So that food was with the Prophet . There was a treaty between us and some people, and when the period of that treaty had elapsed, he divided US into twelve groups, each being headed by a man. Allah knows how many men were under the command of each leader. Anyhow, the Prophet surely sent a leader with each group. Then all of them ate of that meal.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 781
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا حماد، عن عبد العزيز، عن انس، وعن يونس، عن ثابت، عن انس رضي الله عنه، قال:" اصاب اهل المدينة قحط على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فبينا هو يخطب يوم جمعة إذ قام رجل، فقال: يا رسول الله هلكت الكراع هلكت الشاء فادع الله يسقينا فمد يديه ودعا، قال انس: وإن السماء لمثل الزجاجة فهاجت ريح انشات سحابا ثم اجتمع، ثم ارسلت السماء عزاليها فخرجنا نخوض الماء حتى اتينا منازلنا فلم نزل نمطر إلى الجمعة الاخرى فقام إليه ذلك الرجل او غيره، فقال: يا رسول الله تهدمت البيوت فادع الله يحبسه فتبسم، ثم قال: حوالينا ولا علينا فنظرت إلى السحاب تصدع حول المدينة كانه إكليل".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسٍ، وَعَنْ يُونُسَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أَصَابَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ قَحْطٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَيْنَا هُوَ يَخْطُبُ يَوْمَ جُمُعَةٍ إِذْ قَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكَتِ الْكُرَاعُ هَلَكَتِ الشَّاءُ فَادْعُ اللَّهَ يَسْقِينَا فَمَدَّ يَدَيْهِ وَدَعَا، قَالَ أَنَسٌ: وَإِنَّ السَّمَاءَ لَمِثْلُ الزُّجَاجَةِ فَهَاجَتْ رِيحٌ أَنْشَأَتْ سَحَابًا ثُمَّ اجْتَمَعَ، ثُمَّ أَرْسَلَتِ السَّمَاءُ عَزَالِيَهَا فَخَرَجْنَا نَخُوضُ الْمَاءَ حَتَّى أَتَيْنَا مَنَازِلَنَا فَلَمْ نَزَلْ نُمْطَرُ إِلَى الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى فَقَامَ إِلَيْهِ ذَلِكَ الرَّجُلُ أَوْ غَيْرُهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ تَهَدَّمَتِ الْبُيُوتُ فَادْعُ اللَّهَ يَحْبِسْهُ فَتَبَسَّمَ، ثُمَّ قَالَ: حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَنَظَرْتُ إِلَى السَّحَابِ تَصَدَّعَ حَوْلَ الْمَدِينَةِ كَأَنَّهُ إِكْلِيلٌ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو یونس سے بھی روایت کیا ہے۔ ان سے ثابت نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک سال قحط پڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز کے لیے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا: یا رسول اللہ! گھوڑے بھوک سے ہلاک ہو گئے اور بکریاں بھی ہلاک ہو گئیں۔ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہم پر پانی برسائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس وقت آسمان شیشے کی طرح (بالکل صاف) تھا۔ اتنے میں ہوا چلی۔ اس نے ابر (بادل) کو اٹھایا پھر ابر کے بہت سے ٹکڑے جمع ہو گئے اور آسمان نے گویا اپنے دہانے کھول دیئے۔ ہم جب مسجد سے نکلے تو گھر پہنچتے پہنچتے پانی میں ڈوب چکے تھے۔ بارش یوں ہی دوسرے جمعہ تک برابر ہوتی رہی۔ دوسرے جمعہ کو وہی صاحب یا کوئی دوسرے پھر کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مکانات گر گئے۔ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ بارش کو روک دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: اے اللہ! اب ہمارے چاروں طرف بارش برسا (جہاں اس کی ضرورت ہو) ہم پر نہ برسا۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ اسی وقت ابر پھٹ کر مدینہ کے ارد گرد سر پیچ کی طرح ہو گیا تھا۔
Narrated Anas: Once during the lifetime of Allah's Apostle, the people of Medina suffered from drought. So while the Prophet was delivering a sermon on a Friday a man got up saying, "O Allah's Apostle! The horses and sheep have perished. Will you invoke Allah to bless us with rain?" The Prophet lifted both his hands and invoked. The sky at that time was as clear as glass. Suddenly a wind blew, raising clouds that gathered together, and it started raining heavily. We came out (of the Mosque) wading through the flowing water till we reached our homes. It went on raining till the next Friday, when the same man or some other man stood up and said, "O Allah's Apostle! The houses have collapsed; please invoke Allah to withhold the rain." On that the Prophet smiled and said, "O Allah, (let it rain) around us and not on us." I then looked at the clouds to see them separating forming a sort of a crown round Medina.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 782
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان یحییٰ بن کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوحفص نے جن کا نام عمر بن علاء ہے اور جو عمرو بن علاء کے بھائی ہیں، بیان کیا، کہا کہ میں نے نافع سے سنا اور انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک لکڑی کا سہارا لے کر خطبہ دیا کرتے تھے۔ پھر جب منبر بن گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لیے اس پر تشریف لے گئے۔ اس پر اس لکڑی نے باریک آواز سے رونا شروع کر دیا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب تشریف لائے اور اپنا ہاتھ اس پر پھیرا اور عبدالحمید نے کہا کہ ہمیں عثمان بن عمر نے خبر دی، انہیں معاذ بن علاء نے خبر دی اور انہیں نافع نے اسی حدیث کی اور اس کی روایت ابوعاصم نے کی، ان سے ابورواد نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
Narrated Ibn `Umar: The Prophet used to deliver his sermons while standing beside a trunk of a datepalm. When he had the pulpit made, he used it instead. The trunk started crying and the Prophet went to it, rubbing his hand over it (to stop its crying).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 783
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا عبد الواحد بن ايمن، قال: سمعت ابي، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، ان النبي صلى الله عليه وسلم" كان يقوم يوم الجمعة إلى شجرة او نخلة، فقالت: امراة من الانصار او رجل يا رسول الله الا نجعل لك منبرا، قال:" إن شئتم فجعلوا له منبرا فلما كان يوم الجمعة دفع إلى المنبر فصاحت النخلة صياح الصبي، ثم نزل النبي صلى الله عليه وسلم فضمه إليه تئن انين الصبي الذي يسكن قال: كانت تبكي على ما كانت تسمع من الذكر عندها".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَيْمَنَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَقُومُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلَى شَجَرَةٍ أَوْ نَخْلَةٍ، فَقَالَتْ: امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ أَوْ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا نَجْعَلُ لَكَ مِنْبَرًا، قَالَ:" إِنْ شِئْتُمْ فَجَعَلُوا لَهُ مِنْبَرًا فَلَمَّا كَانَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ دُفِعَ إِلَى الْمِنْبَرِ فَصَاحَتِ النَّخْلَةُ صِيَاحَ الصَّبِيِّ، ثُمَّ نَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَمَّهُ إِلَيْهِ تَئِنُّ أَنِينَ الصَّبِيِّ الَّذِي يُسَكَّنُ قَالَ: كَانَتْ تَبْكِي عَلَى مَا كَانَتْ تَسْمَعُ مِنَ الذِّكْرِ عِنْدَهَا".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا اور انہوں نے جابر بن عبداللہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ کے لیے ایک درخت (کے تنے) کے پاس کھڑے ہوتے یا (بیان کیا کہ) کھجور کے درخت کے پاس۔ پھر ایک انصاری عورت نے یا کسی صحابی نے کہا: یا رسول اللہ! کیوں نہ ہم آپ کے لیے ایک منبر تیار کر دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہارا جی چاہے تو کر دو۔ چنانچہ انہوں نے آپ کے لیے منبر تیار کر دیا۔ جب جمعہ کا دن ہوا تو آپ اس منبر پر تشریف لے گئے۔ اس پر اس کھجور کے تنے سے بچے کی طرح رونے کی آواز آنے لگی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے اور اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔ جس طرح بچوں کو چپ کرنے کے لیے لوریاں دیتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح اسے چپ کرایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تنا اس لیے رو رہا تھا کہ وہ اللہ کے اس ذکر کو سنا کرتا تھا جو اس کے قریب ہوتا تھا۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: The Prophet used to stand by a tree or a date-palm on Friday. Then an Ansari woman or man said. "O Allah's Apostle! Shall we make a pulpit for you?" He replied, "If you wish." So they made a pulpit for him and when it was Friday, he proceeded towards the pulpit (for delivering the sermon). The datepalm cried like a child! The Prophet descended (the pulpit) and embraced it while it continued moaning like a child being quietened. The Prophet said, "It was crying for (missing) what it used to hear of religious knowledge given near to it."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 784
(مرفوع) حدثنا إسماعيل، قال: حدثني اخي، عن سليمان بن بلال، عن يحيى بن سعيد، قال: اخبرني حفص بن عبيد الله بن انس بن مالك، انه سمع جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، يقول:" كان المسجد مسقوفا على جذوع من نخل فكان النبي صلى الله عليه وسلم إذا خطب يقوم إلى جذع منها، فلما صنع له المنبر وكان عليه فسمعنا لذلك الجذع صوتا كصوت العشار حتى جاء النبي صلى الله عليه وسلم، فوضع يده عليها فسكنت".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حَفْصُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ:" كَانَ الْمَسْجِدُ مَسْقُوفًا عَلَى جُذُوعٍ مِنْ نَخْلٍ فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ يَقُومُ إِلَى جِذْعٍ مِنْهَا، فَلَمَّا صُنِعَ لَهُ الْمِنْبَرُ وَكَانَ عَلَيْهِ فَسَمِعْنَا لِذَلِكَ الْجِذْعِ صَوْتًا كَصَوْتِ الْعِشَارِ حَتَّى جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهَا فَسَكَنَتْ".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے، ان سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، انہیں حفص بن عبیداللہ بن انس بن مالک نے خبر دی اور انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ مسجد نبوی کی چھت کھجور کے تنوں پر بنائی گئی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ کے لیے تشریف لاتے تو آپ ان میں سے ایک تنے کے پاس کھڑے ہو جاتے لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے منبر بنا دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر تشریف لائے۔ پھر ہم نے اس تنے سے اس طرح کی رونے کی آواز سنی جیسی بوقت ولادت اونٹنی کی آواز ہوتی ہے۔ آخر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قریب آ کر اس پر ہاتھ رکھا تو وہ چپ ہوا۔
Narrated Anas bin Malik: That he heard Jabir bin `Abdullah saying, "The roof of the Mosque was built over trunks of datepalms working as pillars. When the Prophet delivered a sermon, he used to stand by one of those trunks till the pulpit was made for him, and he used it instead. Then we heard the trunk sending a sound like of a pregnant she-camel till the Prophet came to it, and put his hand over it, then it became quiet."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 785
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابن ابي عدي، عن شعبة، ح حدثني بشر بن خالد، حدثنا محمد، عن شعبة، عن سليمان سمعت ابا وائليحدث، عن حذيفة، ان عمر بن الخطاب رضي الله عنه، قال: ايكم يحفظ قول رسول الله صلى الله عليه وسلم في الفتنة، فقال حذيفة: انا احفظ كما، قال: قال هات إنك لجريء، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فتنة الرجل في اهله وماله وجاره تكفرها الصلاة والصدقة والامر بالمعروف، والنهي عن المنكر، قال: ليست هذه ولكن التي تموج كموج البحر، قال: يا امير المؤمنين لا باس عليك منها إن بينك وبينها بابا مغلقا، قال: يفتح الباب او يكسر، قال: لا بل يكسر، قال: ذاك احرى ان لا يغلق، قلنا: علم الباب، قال: نعم كما ان دون غد الليلة إني حدثته حديثا ليس بالاغاليط فهبنا ان نساله وامرنا مسروقا فساله، فقال: من الباب، قال: عمر".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، ح حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍيُحَدِّثُ، عَنْ حُذَيْفَةَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَيُّكُمْ يَحْفَظُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتْنَةِ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: أَنَا أَحْفَظُ كَمَا، قَالَ: قَالَ هَاتِ إِنَّكَ لَجَرِيءٌ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَجَارِهِ تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصَّدَقَةُ وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ، قَالَ: لَيْسَتْ هَذِهِ وَلَكِنْ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ، قَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَا بَأْسَ عَلَيْكَ مِنْهَا إِنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا، قَالَ: يُفْتَحُ الْبَابُ أَوْ يُكْسَرُ، قَالَ: لَا بَلْ يُكْسَرُ، قَالَ: ذَاكَ أَحْرَى أَنْ لَا يُغْلَقَ، قُلْنَا: عَلِمَ الْبَابَ، قَالَ: نَعَمْ كَمَا أَنَّ دُونَ غَدٍ اللَّيْلَةَ إِنِّي حَدَّثْتُهُ حَدِيثًا لَيْسَ بِالْأَغَالِيطِ فَهِبْنَا أَنْ نَسْأَلَهُ وَأَمَرْنَا مَسْرُوقًا فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: مَنِ الْبَابُ، قَالَ: عُمَرُ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، (دوسری سند) کہا مجھ سے بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے، ان سے شعبہ نے، ان سے سلیمان نے، انہوں نے ابووائل سے سنا، وہ حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا: فتنہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کس کو یاد ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ بولے کہ مجھے زیادہ یاد ہے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر بیان کرو (ماشاء اللہ) تم تو بہت جری ہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان کی ایک آزمائش (فتنہ) تو اس کے گھر، مال اور پڑوس میں ہوتا ہے جس کا کفارہ، نماز، روزہ، صدقہ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسی نیکیاں بن جاتی ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس کے متعلق نہیں پوچھتا، بلکہ میری مراد اس فتنہ سے ہے جو سمندر کی طرح (ٹھاٹھیں مارتا) ہو گا۔ انہوں نے کہا اس فتنہ کا آپ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان بند دروازہ ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا وہ دروازہ کھولا جائے گا یا توڑا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ نہیں بلکہ توڑ دیا جائے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا کہ پھر تو بند نہ ہو سکے گا۔ ہم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا عمر رضی اللہ عنہ اس دروازے کے متعلق جانتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ اسی طرح جانتے تھے جیسے دن کے بعد رات کے آنے کو ہر شخص جانتا ہے۔ میں نے ایسی حدیث بیان کی جو غلط نہیں تھی۔ ہمیں حذیفہ رضی اللہ عنہ سے (دروازہ کے متعلق) پوچھتے ہوئے ڈر معلوم ہوا۔ اس لیے ہم نے مسروق سے کہا تو انہوں نے پوچھا کہ وہ دروازہ کون ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ وہ خود عمر رضی اللہ عنہ ہی ہیں۔
Narrated Hudhaifa: Once `Umar bin Al-Khattab said, said, "Who amongst you remembers the statement of Allah's Apostle regarding the afflictions?" Hudhaifa replied, "I remember what he said exactly." `Umar said. "Tell (us), you are really a daring man!'' Hudhaifa said, "Allah's Apostle said, 'A man's afflictions (i.e. wrong deeds) concerning his relation to his family, his property and his neighbors are expiated by his prayers, giving in charity and enjoining what is good and forbidding what is evil.' " `Umar said, "I don't mean these afflictions but the afflictions that will be heaving up and down like waves of the sea." Hudhaifa replied, "O chief of the believers! You need not fear those (afflictions) as there is a closed door between you and them." `Umar asked, "Will that door be opened or broken?" Hudhaifa replied, "No, it will be broken." `Umar said, "Then it is very likely that the door will not be closed again." Later on the people asked Hudhaifa, "Did `Umar know what that door meant?" He said. "Yes, `Umar knew it as everyone knows that there will be night before the tomorrow morning. I narrated to `Umar an authentic narration, not lies." We dared not ask Hudhaifa; therefore we requested Masruq who asked him, "What does the door stand for?" He said, "`Umar."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 786
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، حدثنا ابو الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا تقوم الساعة حتى تقاتلوا قوما نعالهم الشعر وحتى تقاتلوا الترك صغار الاعين حمر الوجوه ذلف الانوف كان وجوههم المجان المطرقة".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا قَوْمًا نِعَالُهُمُ الشَّعَرُ وَحَتَّى تُقَاتِلُوا التُّرْكَ صِغَارَ الْأَعْيُنِ حُمْرَ الْوُجُوهِ ذُلْفَ الْأُنُوفِ كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قیامت اس وقت تک نہیں قائم ہو گی جب تک تم ایک ایسی قوم کے ساتھ جنگ نہ کر لو جن کے جوتے بال کے ہوں اور جب تک تم ترکوں سے جنگ نہ کر لو، جن کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی، چہرے سرخ ہوں گے، ناک چھوٹی اور چپٹی ہو گی، چہرے ایسے ہوں گے جیسے تہ بہ تہ ڈھال ہوتی ہے۔“
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "The Hour will not be established till you fight a nation wearing hairy shoes, and till you fight the Turks, who will have small eyes, red faces and flat noses; and their faces will be like flat shields.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 787
(مرفوع) «وتجدون من خير الناس اشدهم كراهية لهذا الامر، حتى يقع فيه، والناس معادن، خيارهم في الجاهلية خيارهم في الإسلام» .(مرفوع) «وَتَجِدُونَ مِنْ خَيْرِ النَّاسِ أَشَدَّهُمْ كَرَاهِيَةً لِهَذَا الأَمْرِ، حَتَّى يَقَعَ فِيهِ، وَالنَّاسُ مَعَادِنُ، خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الإِسْلاَمِ» .
اور تم حکومت کے لیے سب سے زیادہ بہتر شخص اسے پاؤ گے جو حکومت کرنے کو برا جانے (یعنی اس منصب کو خود کے لیے ناپسند کرے) یہاں تک کہ وہ اس میں پھنس جائے۔ لوگوں کی مثال کان کی سی ہے جو جاہلیت میں شریف تھے، وہ اسلام لانے کے بعد بھی شریف ہیں۔
And you will find that the best people are those who hate responsibility of ruling most of all till they are chosen to be the rulers. And the people are of different natures: The best in the pre-lslamic period are the best in Islam.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4 , Book 56 , Number 787
(مرفوع) «ولياتين على احدكم زمان لان يراني احب إليه من ان يكون له مثل اهله وماله» .(مرفوع) «وَلَيَأْتِيَنَّ عَلَى أَحَدِكُمْ زَمَانٌ لأَنْ يَرَانِي أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَهُ مِثْلُ أَهْلِهِ وَمَالِهِ» .
اور تم پر ایک ایسا دور بھی آنے والا ہے کہ تم میں سے کوئی اپنے سارے گھربار اور مال و دولت سے بڑھ کر مجھ کو دیکھ لینا زیادہ پسند کرے گا۔
(مرفوع) حدثني يحيى، حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن همام، عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا تقوم الساعة حتى تقاتلوا خوزا، وكرمان من الاعاجم حمر الوجوه فطس الانوف صغار الاعين وجوههم المجان المطرقة نعالهم الشعر"، تابعه غيره، عن عبد الرزاق.(مرفوع) حَدَّثَنِي يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا خُوزًا، وَكَرْمَانَ مِنْ الْأَعَاجِمِ حُمْرَ الْوُجُوهِ فُطْسَ الْأُنُوفِ صِغَارَ الْأَعْيُنِ وُجُوهُهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ نِعَالُهُمُ الشَّعَرُ"، تَابَعَهُ غَيْرُهُ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ.
مجھ سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے اور ان سے ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ تم ایرانیوں کے شہر خوز اور کرمان والوں سے جنگ نہ کر لو گے۔ چہرے ان کے سرخ ہوں گے۔ ناک چپٹی ہو گی۔ آنکھیں چھوٹی ہوں گی اور چہرے ایسے ہوں گے جیسے تہ بہ تہ ڈھال ہوتی ہے اور ان کے جوتے بالوں والے ہوں گے۔ یحییٰ کے علاوہ اس حدیث کو اوروں نے بھی عبدالرزاق سے روایت کیا ہے۔
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "The Hour will not be established till you fight with the Khudh and the Kirman from among the non-Arabs. They will be of red faces, flat noses and small eyes; their faces will look like flat shields, and their shoes will be of hair."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 788