Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْمَنَاقِبِ
کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
25. بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 3583
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ أَبُو غَسَّانَ، حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ وَاسْمُهُ عُمَرُ بْنُ الْعَلَاءِ أَخُو أَبِي عَمْرِو بْنِ الْعَلَاءِ قَالَ: سَمِعْتُ نَافِعًا، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَخْطُبُ إِلَى جِذْعٍ فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ تَحَوَّلَ إِلَيْهِ فَحَنَّ الْجِذْعُ فَأَتَاهُ فَمَسَحَ يَدَهُ عَلَيْهِ"، وَقَالَ عَبْدُ الْحَمِيدِ، أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ الْعَلَاءِ، عَنْ نَافِعٍ، بِهَذَا وَرَوَاهُ أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي رَوَّادٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان یحییٰ بن کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوحفص نے جن کا نام عمر بن علاء ہے اور جو عمرو بن علاء کے بھائی ہیں، بیان کیا، کہا کہ میں نے نافع سے سنا اور انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک لکڑی کا سہارا لے کر خطبہ دیا کرتے تھے۔ پھر جب منبر بن گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لیے اس پر تشریف لے گئے۔ اس پر اس لکڑی نے باریک آواز سے رونا شروع کر دیا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب تشریف لائے اور اپنا ہاتھ اس پر پھیرا اور عبدالحمید نے کہا کہ ہمیں عثمان بن عمر نے خبر دی، انہیں معاذ بن علاء نے خبر دی اور انہیں نافع نے اسی حدیث کی اور اس کی روایت ابوعاصم نے کی، ان سے ابورواد نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3583 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3583  
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر ؒ نے کہا کہ معلوم نہیں یہ عبدالحمید نامی راوی کون ہیں؟ مزی نے کہا کہ یہ عبدبن حمید حافظ مشہور ہیں، مگر میں نے ان کی تفسیر اور مسنددونوں میں یہ حدیث تلاش کی تو مجھ کو نہیں ملی۔
البتہ دارمی نے اس کو نکالا ہے، عثمان بن عمر سے آخر تک اسی اسناد سے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3583   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 1081  
´جز سے کُل کو مراد لینا`
«. . . عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَدَّنَ، قَالَ لَهُ تَمِيمٌ الدَّارِيُّ: أَلَا أَتَّخِذُ لَكَ مِنْبَرًا يَا رَسُولَ اللَّهِ يَجْمَعُ، أَوْ يَحْمِلُ عِظَامَكَ؟ قَالَ: " بَلَى " فَاتَّخَذَ لَهُ مِنْبَرًا مِرْقَاتَيْنِ . . . .»
. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم (بڑھاپے کی وجہ سے) جب بھاری ہو گیا تو تمیم داری رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں آپ کے لیے ایک منبر نہ تیار کر دوں جو آپ کی ہڈیوں کو مجتمع رکھے یا اٹھائے رکھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، کیوں نہیں!، چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دو زینوں والا ایک منبر بنا دیا . . . [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /باب فِي اتِّخَاذِ الْمِنْبَرِ: 1081]
فوائد و مسائل:
اس حدیث میں سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کے لئے مجازاً «عظام» کا لفظ استعمال کیا ہے۔
اسی لیے محدث البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«فعلمت منه أنهم كانوا يطلقون العظام، ويريدون البدن كله، من باب إطلاق ‏‏‏‏الجزء وإرادة الكل، كقوله تعالى * (وقرآن الفجر) * أي: صلاة الفجر. ‏‏‏‏فزال الإشكال والحمد لله»
مجھے اس حدیث سے یہ معلوم ہوا ہے کہ عرب لوگ لفظ «عظام» بول کر پورا جسم مراد لیتے ہیں۔ یہ جز سے کُل کو مراد لینے کے قبیل سے ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: «وَقُرْآنَ الْفَجْرِ» [17-الإسراء:78] یہاں فجر کے قرآن سے مراد نماز فجر ہے۔ الحمد اللہ اشکال زائل ہو گیا ہے۔ [سلسلة الاحاديث الصحيحة للالباني: 313]
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 61-66، حدیث/صفحہ نمبر: 21   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1081  
´منبر بنانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم (بڑھاپے کی وجہ سے) جب بھاری ہو گیا تو تمیم داری رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں آپ کے لیے ایک منبر نہ تیار کر دوں جو آپ کی ہڈیوں کو مجتمع رکھے یا اٹھائے رکھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، کیوں نہیں!، چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دو زینوں والا ایک منبر بنا دیا۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1081]
1081۔ اردو حاشیہ:
اس سے پہلے گزرا کے لکڑی کا یہ منبر ایک غلام نے بنایا تھا اور اس روایت میں ہے کہ تمیم داری نے اسے بنایا، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے پہلی روایت کو زیادہ قوی قرار دیا ہے۔ اور دوسرا احتمال یہ بیان کیا ہے کہ اس کے بنانے میں یہ سارے ہی کسی نہ کسی طریقے سے شریک رہے ہوں۔ علاوہ ازیں اس روایت میں ہے کہ یہ منبر دو سیڑھیوں پر مشتمل تھا جبکہ دوسری روایت میں تین سیڑھیوں کا ذکر ہے، تو بات یہ ہے کہ دو سیڑھیوں کے ذکر کرنے والے راوی نے وہ تیسری سیڑھی شما ر نہیں کی۔ جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوتے تھے۔ تفصیل کے لئے دیکھیے: [فتح الباري والعون]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1081