(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا معتمر، عن ابيه حدثنا ابو عثمان انه حدثه عبد الرحمن بن ابي بكر رضي الله عنهما، ان اصحاب الصفة كانوا اناسا فقراء، وان النبي صلى الله عليه وسلم، قال مرة:" من كان عنده طعام اثنين فليذهب بثالث ومن كان عنده طعام اربعة فليذهب بخامس او سادس او كما، قال: وان ابا بكر جاء بثلاثة وانطلق النبي صلى الله عليه وسلم بعشرة وابو بكر ثلاثة، قال: فهو انا وابي وامي ولا ادري هل، قال: امراتي وخادمي بين بيتنا وبين بيت ابي بكر، وان ابا بكر تعشى عند النبي صلى الله عليه وسلم ثم لبث حتى صلى العشاء، ثم رجع فلبث حتى تعشى رسول الله صلى الله عليه وسلم فجاء بعد ما مضى من الليل ما شاء الله، قالت له: امراته ما حبسك عن اضيافك او ضيفك، قال: اوعشيتهم، قالت: ابوا حتى تجيء قد عرضوا عليهم فغلبوهم فذهبت فاختبات، فقال: يا غنثر فجدع وسب، وقال: كلوا، وقال: لا اطعمه ابدا، قال، وايم الله ما كنا ناخذ من اللقمة إلا ربا من اسفلها اكثر منها حتى شبعوا وصارت اكثر مما كانت قبل، فنظر ابو بكر فإذا شيء او اكثر، قال: لامراته يا اخت بني فراس، قالت: لا وقرة عيني لهي الآن اكثر مما قبل بثلاث مرات، فاكل منها ابو بكر، وقال: إنما كان الشيطان يعني يمينه، ثم اكل منها لقمة، ثم حملها إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاصبحت عنده وكان بيننا وبين قوم عهد فمضى الاجل فتفرقنا اثنا عشر رجلا مع كل رجل منهم اناس الله اعلم كم مع كل رجل غير انه بعث معهم، قال: اكلوا منها اجمعون او كما، قال: وغيره، يقول: فعرفنا من العرافة".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ أَبِيهِ حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ كَانُوا أُنَاسًا فُقَرَاءَ، وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ مَرَّةً:" مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَالِثٍ وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بِخَامِسٍ أَوْ سَادِسٍ أَوْ كَمَا، قَالَ: وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ جَاءَ بِثَلَاثَةٍ وَانْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ وَأَبُو بَكْرٍ ثَلَاثَةً، قَالَ: فَهُوَ أَنَا وَأَبِي وَأُمِّي وَلَا أَدْرِي هَلْ، قَالَ: امْرَأَتِي وَخَادِمِي بَيْنَ بَيْتِنَا وَبَيْنَ بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ، وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ تَعَشَّى عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لَبِثَ حَتَّى صَلَّى الْعِشَاءَ، ثُمَّ رَجَعَ فَلَبِثَ حَتَّى تَعَشَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ بَعْدَ مَا مَضَى مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ، قَالَتْ لَهُ: امْرَأَتُهُ مَا حَبَسَكَ عَنْ أَضْيَافِكَ أَوْ ضَيْفِكَ، قَالَ: أَوَعَشَّيْتِهِمْ، قَالَتْ: أَبَوْا حَتَّى تَجِيءَ قَدْ عَرَضُوا عَلَيْهِمْ فَغَلَبُوهُمْ فَذَهَبْتُ فَاخْتَبَأْتُ، فَقَالَ: يَا غُنْثَرُ فَجَدَّعَ وَسَبَّ، وَقَالَ: كُلُوا، وَقَالَ: لَا أَطْعَمُهُ أَبَدًا، قَالَ، وَايْمُ اللَّهِ مَا كُنَّا نَأْخُذُ مِنَ اللُّقْمَةِ إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرُ مِنْهَا حَتَّى شَبِعُوا وَصَارَتْ أَكْثَرَ مِمَّا كَانَتْ قَبْلُ، فَنَظَرَ أَبُو بَكْرٍ فَإِذَا شَيْءٌ أَوْ أَكْثَرُ، قَالَ: لِامْرَأَتِهِ يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ، قَالَتْ: لَا وَقُرَّةِ عَيْنِي لَهِيَ الْآنَ أَكْثَرُ مِمَّا قَبْلُ بِثَلَاثِ مَرَّاتٍ، فَأَكَلَ مِنْهَا أَبُو بَكْرٍ، وَقَالَ: إِنَّمَا كَانَ الشَّيْطَانُ يَعْنِي يَمِينَهُ، ثُمَّ أَكَلَ مِنْهَا لُقْمَةً، ثُمَّ حَمَلَهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحَتْ عِنْدَهُ وَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ فَمَضَى الْأَجَلُ فَتَفَرَّقْنَا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا مَعَ كُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ أُنَاسٌ اللَّهُ أَعْلَمُ كَمْ مَعَ كُلِّ رَجُلٍ غَيْرَ أَنَّهُ بَعَثَ مَعَهُمْ، قَالَ: أَكَلُوا مِنْهَا أَجْمَعُونَ أَوْ كَمَا، قَالَ: وَغَيْرُهُ، يَقُولُ: فَعَرَفْنَا مِنَ الْعِرَافَةِ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا، ان سے ان کے والد سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعثمان نہدی نے بیان کیا اور ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ صفہ والے محتاج اور غریب لوگ تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ جس کے گھر میں دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ ایک تیسرے کو بھی اپنے ساتھ لیتا جائے اور جس کے گھر چار آدمیوں کا کھانا ہو وہ پانچواں آدمی اپنے ساتھ لیتا جائے یا چھٹے کو بھی یا آپ نے اسی طرح کچھ فرمایا (راوی کو پانچ اور چھ میں شک ہے) خیر تو ابوبکر رضی اللہ عنہ تین اصحاب صفہ کو اپنے ساتھ لائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ دس اصحاب کو لے گئے اور گھر میں، میں تھا اور میرے ماں باپ تھے۔ ابوعثمان نے کہا مجھ کو یاد نہیں عبدالرحمٰن نے یہ بھی کہا، اور میری عورت اور خادم جو میرے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں کے گھروں میں کام کرتا تھا۔ لیکن خود ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا کھایا اور عشاء کی نماز تک وہاں ٹھہرے رہے (مہمانوں کو پہلے ہی بھیج چکے تھے) اس لیے انہیں اتنا ٹھہرنا پڑا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کھا لیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کو جتنا منظور تھا اتنا حصہ رات کا جب گزر گیا تو آپ گھر واپس آئے۔ ان کی بیوی نے ان سے کہا، کیا بات ہوئی۔ آپ کو اپنے مہمان یاد نہیں رہے؟ انہوں نے پوچھا: کیا مہمانوں کو اب تک کھانا نہیں کھلایا؟ بیوی نے کہا کہ مہمانوں نے آپ کے آنے تک کھانے سے انکار کیا۔ ان کے سامنے کھانا پیش کیا گیا تھا لیکن وہ نہیں مانے۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں تو جلدی سے چھپ گیا (کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ غصہ ہو گئے تھے)۔ آپ نے ڈانٹا، اے پاجی! اور بہت برا بھلا کہا، پھر (مہمانوں سے) کہا چلو اب کھاؤ اور خود قسم کھا لی کہ میں تو کبھی نہ کھاؤں گا۔ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم، پھر ہم جو لقمہ بھی (اس کھانے میں سے) اٹھاتے تو جیسے نیچے سے کھانا اور زیادہ ہو جاتا تھا (اتنی اس میں برکت ہوئی) سب لوگوں نے شکم سیر ہو کر کھایا اور کھانا پہلے سے بھی زیادہ بچ رہا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو دیکھا تو کھانا جوں کا توں تھا یا پہلے سے بھی زیادہ۔ اس پر انہوں نے اپنی بیوی سے کہا، اے بنی فراس کی بہن (دیکھو تو یہ کیا معاملہ ہوا) انہوں نے کہا، کچھ بھی نہیں، میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم، کھانا تو پہلے سے تین گنا زیادہ معلوم ہوتا ہے، پھر وہ کھانا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی کھایا اور فرمایا کہ یہ میرا قسم کھانا تو شیطان کا اغوا تھا۔ ایک لقمہ کھا کر اسے آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے وہاں وہ صبح تک رکھا رہا۔ اتفاق سے ایک کافر قوم جس کا ہم مسلمانوں سے معاہدہ تھا اور معاہدہ کی مدت ختم ہو چکی تھی۔ ان سے لڑنے کے لیے فوج جمع کی گئی۔ پھر ہم بارہ ٹکڑیاں ہو گئے اور ہر آدمی کے ساتھ کتنے آدمی تھے یہ اللہ ہی جانتا ہے مگر اتنا ضرور معلوم ہے کہ آپ نے ان نقیبوں کو لشکر والوں کے ساتھ بھیجا۔ حاصل یہ کہ فوج والوں نے اس میں سے کھایا۔ یا عبدالرحمٰن نے کچھ ایسا ہی کہا۔
Narrated `Abdur-Rahman bin Abi Bakr: The companions of Suffa were poor people. The Prophet once said, "Whoever has food enough for two persons, should take a third one (from among them), and whoever has food enough for four persons, should take a fifth or a sixth (or said something similar)." Abu Bakr brought three persons while the Prophet took ten. And Abu Bakr with his three family member (who were I, my father and my mother) (the sub-narrator is in doubt whether `Abdur-Rahman said, "My wife and my servant who was common for both my house and Abu Bakr's house.") Abu Bakr took his supper with the Prophet and stayed there till he offered the `Isha' prayers. He returned and stayed till Allah's Apostle took his supper. After a part of the night had passed, he returned to his house. His wife said to him, "What has detained you from your guests?" He said, "Have you served supper to them?" She said, "They refused to take supper until you come. They (i.e. some members of the household) presented the meal to them but they refused (to eat)" I went to hide myself and he said, "O Ghunthar!" He invoked Allah to cause my ears to be cut and he rebuked me. He then said (to them): Please eat!" and added, I will never eat the meal." By Allah, whenever we took a handful of the meal, the meal grew from underneath more than that handful till everybody ate to his satisfaction; yet the remaining food was more than the original meal. Abu Bakr saw that the food was as much or more than the original amount. He called his wife, "O sister of Bani Firas!" She said, "O pleasure of my eyes. The food has been tripled in quantity." Abu Bakr then started eating thereof and said, "It (i.e. my oath not to eat) was because of Sa all." He took a handful from it, and carried the rest to the Prophet. So that food was with the Prophet . There was a treaty between us and some people, and when the period of that treaty had elapsed, he divided US into twelve groups, each being headed by a man. Allah knows how many men were under the command of each leader. Anyhow, the Prophet surely sent a leader with each group. Then all of them ate of that meal.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 781
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3581
حدیث حاشیہ: حضرت صدیق اکبر ؓ کی اس بیوی کو ام رومان کہاجاتا تھا۔ ام رومان فراس بن غنم بن مالک بن کنانہ کی اولاد میں سے تھیں عرب کے محاورہ میں جو کوئی کسی قبیلے سے ہوتا ہے اس کو اس کا بھائی کہتے ہیں۔ اس حدیث میں بھی آپ کے ایک عظیم معجزہ کا ذکر ہے۔ یہی مطابقت باب ہے، اس حدیث کے ذیل میں مولانا وحید الزماں مرحوم لکھتے ہیں، ہوا یہ ہوگا کہ حضرت ابوبکر ؓ نے شام کو کھانا آنحضرت ﷺ کے گھر کھالیا ہوگا مگر آنحضرت ﷺ نے نہ کھایا ہوگا۔ عشاءکے بعد آپ نے کھایاہوگا۔ اس حدیث کے ترجمہ میں بہت اشکال ہے اور بڑی مشکل سے معنی جمتے ہیں ورنہ تکرار بے فائدہ لازم آتی ہے اور ممکن ہے راوی نے الفاظ میں غلطی کی ہو۔ چنانچہ مسلم کی روایت میں دوسرے لفظ تعشی کے بدل حتی نعس ہے یعنی آنحضرت ﷺ کے پاس اتنا ٹھہرے کہ آپ اونگھنے لگے۔ قاضی عیاض نے کہا یہی ٹھیک ہے۔ بعض راویوں نے فتفرقنا اثنا عشر رجلا نقل کیا ہے، جس کے مطابق یہاں ترجمہ کیا گیا اور بعض نسخوں میں ففرقنا یعنی ہماری بارہ ٹکڑیاں ہوگئیں۔ ہرٹکڑی ایک آدمی کے تحت میں تھی۔ بعض نسخوں میں یوں ہے کہ بارہ آدمیوں کو مسلمانوں نے نقیب بنایا۔ بعض میں فقرینا ہے۔ یعنی ہم نے بارہ آدمیوں کی ضیافت کی۔ ہر آدمی کے ساتھ کتنے آدمی تھے یہ اللہ ہی کو معلوم ہے۔ اس حدیث شریف میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی کرامت مذکور ہے مگر اولیاءاللہ کی کرامت ان کے پیغمبروں کا معجزہ ہے کیونکہ پیغمبرہی کی تابعداری کی برکت سے انکو یہ درجہ ملاہے۔ اس لیے باب کا مطلب حاصل ہوگیا۔ یہ حدیث اوپر گزر چکی ہے۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3581
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3581
حدیث حاشیہ: 1۔ اصحاب صفہ مسجد کے آخری حصے میں رہا کرتے تھے جونادار لوگوں کے لیے تیار کیا گیا تھا جن کے پاس رہنے کے لیے کوئی جگہ یا مکان نہ تھا اور ان کا وہاں اہل و عیال بھی نہ ہوتا تھا ان میں سے کسی کی شادی ہو جانے فوت ہو جانے یا سفر پر جانے کی صورت میں یہ حضرات کم و بیش ہوتے رہتے تھے وہ لوگوں کے مہمان تھے اور رسول اللہ ﷺ سے علمی فائدہ حاصل کرتے تھے۔ 2۔ اس حدیث میں حضرت ابو بکر ؓ کی کرامت کا ذکر ہے مگر اولیاء کی کرامت بھی داصل ان کے پیغمبر کا معجزہ ہوتی ہے کیونکہ رسول کی فرمانبرداری کے نتیجے میں انھیں کرامت کا اعزاز ملتا ہے عنوان معجزات اور کرامات دونوں کو شامل ہے بعض شارحین نے اعتراض کیا ہے کہ عنوان علامات نبوت کا ہے جبکہ اس حدیث میں حضرت ابو بکر ؓ کی کرامت کا ذکر ہے اس لیے یہ حدیث عنوان کے مطابق نہیں لیکن اس عتراض کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ اس کھانے میں پوری برکت تو رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے کے بعد ہوئی اس لیے اس کھانے کو تمام لشکر نے کھایا اور سب اس سے سیر ہو گئے اگرچہ اس برکت کی ابتدا حضرت ابو بکر ؓ کے گھر سے ہوئی تھی۔ اس طرح یہ حدیث معجزہ اور کرامت دونوں پر مشتمل ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3581
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 602
´اپنی بیوی یا مہمان سے رات کو (عشاء کے بعد) گفتگو کرنا` «. . . عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ كَانُوا أُنَاسًا فُقَرَاءَ، وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَالِثٍ، وَإِنْ أَرْبَعٌ فَخَامِسٌ أَوْ سَادِسٌ، وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ جَاءَ بِثَلَاثَةٍ . . . .» ”. . . عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث بیان کی کہ اصحاب صفہ نادار مسکین لوگ تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے گھر میں دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ تیسرے (اصحاب صفہ میں سے کسی) کو اپنے ساتھ لیتا جائے۔ اور جس کے ہاں چار آدمیوں کا کھانا ہے تو وہ پانچویں یا چھٹے آدمی کو سائبان والوں میں سے اپنے ساتھ لے جائے۔ پس ابوبکر رضی اللہ عنہ تین آدمی اپنے ساتھ لائے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ السَّمَرِ مَعَ الضَّيْفِ وَالأَهْلِ:: 602]
تشریح: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مہمانوں کو گھر بھیج دیا تھا اور گھر والوں کو کہلوا بھیجا تھا کہ مہمانوں کو کھانا کھلا دیں۔ لیکن مہمان یہ چاہتے تھے کہ آپ ہی کے ساتھ کھانا کھائیں۔ ادھر آپ مطمئن تھے۔ اس لیے یہ صورت پیش آئی۔ پھر آپ کے آنے پر انھوں نے کھانا کھایا۔ دوسری روایتوں میں یہ بھی ہے کہ سب نے پیٹ بھر کر کھانا کھا لیا۔ اور اس کے بعد بھی کھانے میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کرامت تھی۔ کرامت اولیاء برحق ہے۔ مگر اہل بدعت نے جو جھوٹی کرامتیں گھڑ لی ہیں۔ وہ محض لایعنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت دے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 602
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5365
حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اصحاب صفہ محتاج لوگ تھے، ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہے، وہ تین کو لے اور جس کے پاس چار کا کھانا، وہ پانچواں چھٹا لے جائے۔“ یا جو آپﷺ نے فرمایا: اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین افراد کو لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس افراد کو لے گئے اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین افراد لائے، کیونکہ گھر میں میں، میرا باپ اور میری ماں تھے، (اور... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:5365]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) يا عنثر: اے نادان، جاہل، کمینے، کیونکہ انہوں نے سمجھا عبدالرحمٰن نے مہمانوں کو کھانا کھلانے میں کوتاہی کی ہے، اس لیے، انہیں برا بھلا کہا اور ناک کٹنے کی بات کی۔ (2) لاهنئيا: تم نے گھر والوں کو پریشان کیا اور بیٹے کی بجائے باپ کی حاضری پر اصرار کیا، اس لیے کھانا تمہارے لیے خوش گوار نہ ہو، یا کھانا پڑے پڑے ٹھنڈا ہوگیا، اس لیے خوش گوار نہیں ہے۔ فوائد ومسائل: اصحاب صفہ، طالب علم تھے، جو گھر بار چھوڑ کر تعلیم کے لیے آپ کے پاس آتے تھے اور مسجد کے چھپر میں ہی رہتے تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے کھانے کا انتظام فرماتے اور وہ خود بھی اس کے لیے کوشش کرتے اور آپ نے لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے ہمدردی اور خیرخواہی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ایک دن ساتھیوں سے فرمایا، ہر آدمی اپنی وسعت و گنجائش کے مطابق ان میں سے ایک یا دو کو لے جائے اور دوسروں کو ترغیب دینے کے لیے خود اپنے گھر کے افراد کی تعداد کے مطابق دس آدمیوں کو لے گئے، اس طرح آپ نے آغاز اپنے گھر سے کیا اور سب سے زیادہ جودوسخا کا مظاہرہ فرمایا اور یہ اسوہ حسنہ ہی دراصل لوگوں کو حوصلہ دلاتا ہے اور ان کے اندر کام کرنے کی رغبت پیدا کرتا ہے، جو بدقسمتی سے آج مفقود ہے، کوئی دینی و دنیوی لیڈر دوسروں کے لیے نمونہ نہیں بنتا صرف زبانی کلامی نعروں سے لوگوں کا پیٹ بھرتا ہے، آج یہ لوگ اپنی تجوریوں کا منہ کھول دیں تو لوگ بھی یقینا ان کی اقتدا میں اپنا مال فقراء اور مساکین کو دینے کے لیے تیار ہو جائیں اور غربت کا علاج ہو جائے اور اس حدیث سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قلبی تعلق اور ربط بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنے مہمان اپنے بیٹے کے سپرد کر کے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے گئے اور رات گئے تک، جب تک آپ سونے نہیں گئے، گھر واپس نہیں آئے اور پھر مہمانوں کی خدمت میں کوتاہی کا مرتکب خیال کر کے اپنے شادی شدہ بیٹے کو بھی برا بھلا کہا اور وہ ڈر کے مارے چھپ گیا، جس سے معلوم ہوا وہ دوسروں کے لیے تو بہت نرم اور شفیق تھے، لیکن بیٹوں کا سخت محاسبہ کرتے تھے اور انہوں نے مہمانوں کے بیجا اصرار پر غصہ کا اظہار فرماتے ہوئے، کھانا کھانے سے انکار کیا اور قسم اٹھا دی، لیکن جب مہمانوں نے بھی قسم اٹھا دی تو اپنی قسم کو توڑ ڈالا تاکہ مہمان بھوکے نہ رہیں اور اس کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے ان کی کرامت ظاہر کر دی کہ کھانے میں برکت ڈال دی، جس کو دیکھ کر انہوں نے دوبارہ لقمہ لیا اور پھر کھانا آپ کو پیش کر دیا، جس میں آپ کی کرامت کا ظہور ہوا کہ وہ کھانا بارہ افراد کے ماتحت افراد کے لیے کافی ہو گیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5365
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:602
602. حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اصحاب صفہ نادار لوگ تھے۔ نبی ﷺ نے (ان کے متعلق) فرمایا تھا: ”جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہے، وہ تیسرا آدمی ساتھ لے جائے اور اگر چار کا ہو تو پانچواں یا چھٹا (ان میں سے لے جائے)۔“ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اپنے ساتھ تین آدمی لے کر گئے اور خود نبی ﷺ نے اپنے ہمراہ دس آدمیوں کو لیا۔ حضرت عبدالرحمٰن ؓ نے کہا کہ گھر میں اس وقت میں اور میرے والدین تھے۔ راوی کہتا ہے کہ مجھے یاد نہیں کہ آپ نے یہ کہا یا نہیں کہ گھر میں میری اہلیہ اور خادم بھی تھا جو میرے اور میرے والد گرامی کے گھر میں مشترکہ طور پر کام کرتا تھا۔ الغرض حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے نبی ﷺ کے ہاں رات کا کھانا کھا لیا اور تھوڑی دیر کے لیے وہاں ٹھہر گئے، پھر عشاء کی نماز پڑھ لی گئی، لوٹ کر پھر تھوڑی دیر ٹھہرے، یہاں تک کہ نبی ﷺ نے رات کا کھانا تناول فرمایا۔ اس کے بعد آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:602]
حدیث حاشیہ: (1) دن کے اوقات میں کاروباری مصروفیات اور دیگر مشاغل کی وجہ سے انسان گھریلو ضروریات کے متعلق اہل خانہ سے تبادلۂ خیالات اور باہمی مشاورت کےلیے فرصت نہیں پاسکتا، اس لیے رات کے وقت کھانے وغیرہ سے فراغت کے بعد بیوی بچوں سے بات چیت کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے، نیز مہمان کی آمد کا کوئی طے شدہ وقت نہیں ہوتا، وہ کسی بھی وقت حاضر ہوسکتا ہے۔ عشاء کے بعد اس کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت پیش آسکتی ہے، اس لیے شریعت نے ایسی ہنگامی ضروریات کا خیال رکھا ہے۔ امام بخاری ؒ اللہ چونکہ بندوں کی ضروریات کے ساتھ نصوص پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں، اس لیے آپ نے قائم کردہ عنوان کو درج بالا حدیث سے ثابت کیا ہے۔ (2) اس حدیث سے درج ذیل مسائل کا اثبات ہوتا ہے: ٭جب لوگوں پر رزق کی تنگی ہوتو حاکم وقت ان کی کفالت بقدر وسعت دوسرے لوگوں پر ڈال سکتا ہے۔ ٭رئیس قوم کے ساتھ کھانا تناول کرنے کی گنجائش ہے، اگرچہ گھر میں مہمان موجود ہوں۔ ٭صاحب منزل کی طرح دیگر افراد کو بھی چاہیے کہ وہ مہمانوں کا پورا پورا خیال رکھیں۔ ٭مہمانوں کو چاہیے کہ وہ صاحب منزل کے احترام کے پیش نطر کھانے کے لیے اس کا انتطار کریں۔ ٭کوئی بابرکت چیز گھر میں آئے تو اہل علم اور صاحبان فضل کوبھی اس میں شریک کرنا چاہیے۔ ٭اولیاء کی کرامات برحق ہیں، لیکن اہل بدعت نے اس آڑ میں جو شاخسانہ کھڑا کیا ہے وہ خود ساختہ ہے۔ ٭کسی کوتاہی پر خوف اور ڈر کے پیش نظر اپنے والد یا بڑے کی نگاہوں سے اوجھل ہوجانا جائز ہے۔ ٭اولاد کو کسی کوتاہی کی وجہ سے ڈانٹ پلانا اور اسے برا بھلا کہنا درست ہے۔ ٭اگر کسی ناروابات پر قسم اٹھالی جائے تو اسے توڑا جاسکتا ہے۔ ٭اگر ضرورت سے زائد کھانا موجود ہو تو اگلے دن کےلیے محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ ٭اگر صاحب منزل نے ہدایت کردی ہو تو مہمان کو اس کی عدم موجودگی میں کھانا کھالینا چاہیے۔ (عمدة القاري: 142/4)(3) چونکہ کتاب المواقیت کا اختتام ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے حسب عادت براعت اختتام کا پوراپورا خیال رکھا ہے۔ اس حدیث میں (مضى الأجل) کے الفاظ ہیں۔ ان سے موت کی طرف اشارہ ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ہر وقت موت کی تیاری میں رہے۔ دنیا کی مہلت کسی بھی وقت ختم ہوسکتی ہے۔ والله المستعان.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 602