سیدنا نعمان بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھ کو کچھ دیا تو (میری والدہ) عمرہ بنت رواحہ نے کہا کہ میں راضی نہیں ہوں یہاں تک کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر گواہ بنا لو پس وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کی کہ میں نے اپنے بیٹے کو جو عمرہ بنت رواحہ (کے بطن) سے ہے، کچھ دیا ہے لیکن عمرہ (میری اہلیہ) نے کہا کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر گواہ بنا لوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ”کیا تم نے اپنے سب لڑکوں کو اسی قدر دیا ہے؟“ تو انھوں نے کہا جی نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ سے ڈرو اور اولاد کے درمیان انصاف کرو۔“(نعمان رضی اللہ عنہ) کہتے تھے کہ پھر انھوں نے اپنی دی ہوئی شے واپس لے لی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جو شخص اپنی ہبہ کی ہوئی چیز کو واپس کر لے وہ مثل اس کتے کی ہے جو اپنے قے کر کے پھر کھا لے۔“
ام المؤمنین میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے اپنی ایک لونڈی کو آزاد کر دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت نہیں لی پھر جب ان کی باری کا دن آیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے جاتے تھے تو انھوں نے عرض کی کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں نے اپنی لونڈی کو آزاد کر دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا واقعی تم آزاد کر چکی ہو؟“ انھوں نے عرض کی جی ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اس لونڈی کو اپنے ننھیال والوں کو دے دیتیں تو اس میں تم کو زیادہ ثواب حاصل ہوتا۔“
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے تھے، ان میں سے کسی کا نام نکل آتا تھا اس کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے ہر بیوی کے لیے ایک دن رات مقرر کر دیتے تھے سوائے سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کے کہ انھوں نے اپنا دن رات ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دیا تھا اور انھیں اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی مطلوب تھی۔
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ قبائیں تقسیم فرمائیں اور سیدنا مخرمہ رضی اللہ عنہ کو نہیں دی تو انھوں نے کہا کہ اے میرے بیٹے! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلو، چنانچہ میں ان کے ساتھ چلا گیا، پھر انھوں نے کہا کہ اندر جاؤ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میری طرف سے بلا لاؤ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا لایا پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور ان قباؤں میں سے ایک قباء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ہم نے تمہارے لیے چھپا رکھی ہے۔“ انھوں نے دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مخرمہ خوش ہو یا نہیں؟“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کے گھر گئے تو اس میں داخل نہیں ہوئے (باہر ہی سے واپس تشریف لے گئے) جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ آئے تو سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا۔ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے دروازے پر ایک ریشمی پردہ دیکھا۔“(اس لیے واپس چلا آیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھلا ہم کو دنیا سے کیا مطلب؟“ پھر وہ گھر واپس گئے اور ان سے یہ بات بیان کر دی۔ سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں جو حکم دیں (وہی ہو گا)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ پردہ فلاں حاجت مند لوگوں کو دے دیں۔“
امیرالمؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک دھاری دار ریشمی جوڑا بھیجا، میں نے وہ پہن لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر غصہ کا اثر دیکھا تو میں نے اس کو پھاڑ کر اپنی (رشتہ دار) عورتوں میں تقسیم کر دیا۔
سیدنا عبدالرحمن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سو تیس آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ”کیا تم میں سے کسی کے پاس کچھ کھانا ہے؟“ تو ایک شخص کے پاس ایک صاع غلہ وغیرہ نکلا، اس کو خمیر کیا گیا پھر اس کے بعد ایک مشرک درازقد، پراگندہ بال، اپنی بکریوں کو ہنکاتا ہوا آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”یہ بیچنے کے لیے ہیں یا کسی کا عطیہ ہے۔“ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (عطیہ کی بجائے) ہبہ کا لفظ بولا۔ اس نے کہا نہیں بلکہ فروخت کرنے کے لیے۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک بکری خرید لی پھر وہ ذبح کی گئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کلیجی وغیرہ کی نسبت حکم دیا کہ بھون لی جائے اور اللہ کی قسم ایک سو تیس آدمیوں میں سے کوئی شخص ایسا نہ تھا جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کلیجی کی بوٹیاں نہ دی ہوں۔ جو موجود تھا، اس کو دے دیں اور جو موجود نہ تھا تو اس کے لیے رکھ دیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے گوشت کو دو بڑی قابوں میں رکھا تو سب لوگوں نے کھایا اور ہم سب سیر ہو گئے پھر بھی جو کچھ قابوں میں بچ رہا وہ ہم نے اونٹ پر رکھ لیا یا اسی طرح کچھ کہا۔
سیدہ اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں میری ماں میرے پاس آئی اور وہ مشرکہ تھیں۔ (میں نے نہ اس کو گھر آنے دیا اور نہ اس کا تحفہ قبول کیا)۔ اس کے بعد میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ دریافت کیا۔ میں نے یہ بھی کہا کہ میری ماں محبت سے میرے پاس آئی ہے تو کیا میں اپنی ماں کے ساتھ اچھا سلوک کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں تم اپنی ماں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ(جن دنوں مروان حاکم تھا، ایک مقدمہ میں) انھوں نے گواہی دی کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں مکان اور حجرہ سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ کو دیا تھا پس مروان نے ان کی شہادت پر سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ کے بیٹیوں کے حق میں فیصلہ دیا۔