سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی (سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا) کے جنازے کے ہمراہ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کو دیکھا کہ آنسو بہا رہی تھیں پھر سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (جب قبر تیار ہو گئی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی شخص ایسا ہے جس نے رات کو جماع نہ کیا ہو۔“ تو ابوطلحہ نے عرض کی کہ میں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم (قبر میں) اترو۔“ چنانچہ وہ ان کی قبر میں اترے۔
امیرالمؤمنین عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میت پر اس کے عزیزوں کے رونے کے سبب عذاب ہوتا ہے۔ پس امیرالمؤمنین عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ عمر (رضی اللہ عنہ) کے حال پر رحم فرمائے، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ مومن پر اس کے عزیزوں کے رونے سے عذاب کیا جاتا ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا تھا: ”اللہ تعالیٰ کافر پر بسبب اس کے عزیزوں کے رونے کے عذاب زیادہ کرتا ہے۔“ اور اس کے بعد فرمانے لگیں کہ تمہیں قرآن (کی یہ آیت) کافی ہے: ”کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔“(سورۃ الانعام: 164)
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک یہودی عورت (کی قبر) پر ہوا جس کے مرنے پر اس کے عزیز و اقارب رو رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ لوگ اس کے لیے رو رہے ہیں حالانکہ اس پر اس کی قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔“
سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”میرے اوپر جھوٹ بولنا ایسا نہیں ہے جیسے تم میں سے کسی پر جھوٹ بولنا، جو شخص میرے اوپر جھوٹ بولے اسے چاہیے کہ دوزخ میں اپنا ٹھکانہ ڈھونڈ لے۔“ اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جو شخص کسی پر نوحہ کرے گا اس پر اس نوحہ کرنے کی وجہ سے عذاب کیا جائے گا۔“
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو (غم میں اپنے) رخساروں پر طمانچے مارے اور گریبان پھاڑے اور جاہلیت کی سی باتیں کرے۔“
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع کے سال میری عیادت کے لیے تشریف لاتے تھے۔ ایک مرض کی وجہ سے جو مجھ پر سنگین ہو گیا تھا تو میں نے عرض کی میرے مرض کی یہ کیفیت تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ ہی رہے ہیں۔ اور میں مالدار آدمی ہوں اور میرے بعد وارث بجز میری اکلوتی لڑکی کے کوئی نہیں تو کیا میں اپنے مال کی دو تہائی خیرات کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”نہیں“ میں نے عرض کی کہ نصف لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے عرض کی کہ ایک تہائی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک تہائی (میں کچھ مضائقہ نہیں اور ایک تہائی) بھی بہت زیادہ ہے۔ تم اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ جاؤ یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں فقیر چھوڑ جاؤ کہ وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں اور تم جو کچھ بغرض رضائے الٰہی خرچ کرو گے اس پر تمہیں ثواب ملے گا یہاں تک کہ جو (لقمہ) تم اپنی بیوی کے منہ میں دو گے (اس کا بھی ثواب ملے گا)۔“ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! کیا میں اپنے اصحاب کے بعد (مکہ میں) چھوڑ دیا جاؤں گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اگر چھوڑ دیے جاؤ گے اور نیک کام کرو گے تو اس سے تمہارا درجہ اور مرتبہ بلند ہی ہوتا رہے گا پھر تم شاید (ابھی نہ مرو گے بلکہ) تمہاری عمردراز ہو گی یہاں تک کہ کچھ لوگوں (یعنی مسلمانوں) کو تم سے نفع پہنچے اور کچھ لوگوں (یعنی کافروں) کو تم سے نقصان پہنچے گا۔ اے اللہ! میرے اصحاب کے لیے ان کی ہجرت کامل کر دے اور انہیں پھر ان کے پیچھے نہ لوٹا (یعنی مکہ میں انہیں موت نہ دے) لیکن بے چارا سعد بن خولہ۔“(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے افسوس کا اظہار کرتے تھے) کہ وہ مکہ میں فوت ہو گئے۔“
سیدنا ابوموسیٰ (اشعری) رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ سخت بیمار ہو گئے تو (ایک دن) ان پر غشی طاری ہو گئی اور ان کا سر ان کے رشتہ داروں میں سے کسی عورت کی گود میں تھا تو وہ رونے لگیں۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ میں اتنی طاقت نہ تھی کہ ان کو منع کرتے پھر جب ہوش آیا تو کہنے لگے کہ میں اس شخص سے بری ہوں جس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برات کا اظہار فرمایا بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت غم میں چلا کے رونے والی اور سر منڈوانے والی اور گریبان وغیرہ پھاڑنے والی عورت سے برات ظاہر فرمائی ہے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زید بن حارثہ اور جعفر اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہما کی شہادت کی خبر آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر رنج کا اثر معلوم ہوتا تھا اور میں کواڑ کی درز سے دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کی عورتوں کا اور ان کے رونے کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ انہیں منع کرے۔ چنانچہ وہ گیا اور اس نے منع کیا۔ پھر وہ دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ وہ نہیں مانتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں منع کرو۔“ چنانچہ وہ گیا اور منع کیا۔ پھر تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! وہ مجھ پر غالب آ گئیں، میرا کہا نہیں مانتیں۔ تو ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا کر ان کے منہ میں خاک ڈال دے۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک لڑکا بیمار ہوا اور وہ فوت ہو گیا اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ (اس وقت گھر میں نہ تھے کسی کام سے) باہر گئے ہوئے تھے پس جب ان کی بیوی (ام سلیم) نے دیکھا کہ وہ فوت ہو گیا تو انہوں نے اس کو غسل دے کر اور کفن پہنا کر گھر کے ایک گوشے میں لٹا دیا پھر جب رات کو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ گھر آئے تو پوچھا کہ لڑکا کیسا ہے؟ تو ان کی بیوی (ام سلیم) نے کہا کہ سکون میں ہے اور میں امید کرتی ہوں کہ وہ آرام ہی کر رہا ہو گا۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سمجھے کہ وہ سچ کہہ رہی ہیں۔ پس ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے رات اپنی بیوی کے پاس گزاری پھر جب صبح ہوئی تو غسل کیا اور باہر جانے لگے تب ام سلیم نے انہیں بتایا کہ لڑکا تو انتقال کر چکا ہے۔ پس انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ صبح کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد ان (میاں بیوی) سے جو کچھ واقعہ کا صدور ہوا اس کی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”امید ہے اللہ تعالیٰ تم دونوں کی اس رات میں برکت دے گا۔“ انصار میں سے ایک شخص (سفیان مجھ سے) کہتا تھا کہ میں نے دونوں (میاں بیوی) کے نو (9) لڑکے دیکھے جو سب قاری قرآن تھے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ابوسیف لوہار کے ہاں گئے اور وہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے) سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کے رضاعی باپ تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کو لے لیا اور انہیں بوسہ دیا اور ان کے اوپر منہ مبارک رکھا پھر ہم اس کے بعد ابوسیف کے ہاں گئے اور سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ جانکنی کے عالم میں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ پس عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ (روتے ہیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابن عوف! یہ تو ایک رحمت ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور روئے اور فرمایا: ”آنکھ رو رہی ہے اور دل رنجیدہ ہے اور ہم زبان سے نہیں کہتے مگر وہی بات جس سے ہمارا پروردگار راضی ہو اور اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے بڑے غمگین ہیں۔