سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی تشہد کے بارے میں حدیث ابھی گزری ہے (دیکھئیے باب: دوسرے قعدہ میں (بھی) تشہد پڑھنا (چاہیے)) یہاں اس روایت میں، حدیث کے آخر میں یہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد جو جو دعا اسے اچھی معلوم ہو اور وہ مانگنا چاہے تو وہ مانگ لے۔
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اختتام نماز پر جب سلام پھیرتے، تو جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سلام پورا کر چکتے تو عورتیں کھڑی ہو جاتیں (اور چل دیا کرتیں) تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کھڑے ہونے سے پہلے تھوڑی دیر ٹھہر جایا کرتے تھے (یعنی وہیں بیٹھے رہتے تھے)۔ امام زہری فرماتے ہیں: میرا خیال ہے اور پورا علم تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم محض اس لیے ٹھہر جاتے تھے تاکہ عورتیں چلی جائیں اور مرد نماز سے فارغ ہو کر انہیں نہ پائیں۔
سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو ہم نے بھی سلام پھیر دیا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب لوگ فرض نماز سے فارغ ہوں تو اس وقت بلند آواز سے ذکر کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اقدس میں (رائج) تھا اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ بھی کہتے ہیں کہ جب میں سنتا تھا کہ لوگ ذکر کرتے ہوئے لوٹے ہیں تو میں (نماز کے) مکمل ہو جانے کو معلوم کر لیتا تھا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ نادار لوگ آئے اور انھوں نے کہا کہ زیادہ دولت والے لوگ بڑے بڑے درجے اور دائمی عیش حاصل کر رہے ہیں، وہ نماز پڑھتے ہیں جیسا کہ ہم نماز پڑھتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں جس طرح ہم روزہ رکھتے ہیں (غرض جو عبادت ہم کرتے ہیں وہ اس میں شریک ہیں اور) ان کے پاس مال دولت کی زیادتی ہے جس سے وہ حج کرتے ہیں، عمرہ کرتے ہیں اور جہاد کرتے ہیں اور صدقہ دیتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تم سے ایک ایسی بات نہ بیان کروں کہ اگر اس پر عمل کرو تو جو لوگ تم سے آگے نکل گئے ہوں تم ان کو پا لو اور تمہیں تمہارے بعد کوئی نہ پائے گا اور تم ان تمام لوگوں میں، جن کے درمیان تم ہو بہتر ہو جاؤ گے سوائے اس کے جو اسی کے مثل عمل کرے۔ لہٰذا تم ہر نماز کے بعد 33 مرتبہ سبحان اللہ، 33 مرتبہ الحمدللہ اور 33 مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہم لوگوں نے اختلاف کیا اور ہم میں سے بعض نے کہا کہ ہم 33 مرتبہ تسبیح پڑھیں گے اور 33 مرتبہ تحمید اور 34 مرتبہ تکبیر پڑھیں گے تو میں نے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ، الحمدللہ اور اللہ اکبر یہ سب 33، 33 مرتبہ ہو جائے۔“
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد (یہ دعا)”کوئی مبعود نہیں سوائے اللہ کے، وہ ایک ہے، کوئی اس کا شریک نہیں، اسی کی ہے بادشاہت اور اسی کے لیے ہے تعریف اور وہ ہر بات پر قادر ہے۔ اے اللہ! جو کچھ تو دے اس کا کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو روک لے اس کا کوئی دینے والا نہیں اور کوشش والے کی کوشش تیرے سامنے کچھ فائدہ نہیں دیتی۔“ پڑھا کرتے تھے۔
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں بارش کے بعد (جو رات کے وقت ہوئی تھی) صبح کی نماز پڑھائی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز سے) فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف منہ کر کے فرمایا: ”تم جانتے ہو کہ تمہارے پروردگار عزوجل نے کیا فرمایا ہے؟ وہ بولے کہ اللہ اور اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جانتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ میرے بندوں میں سے کچھ لوگ مومن بنے اور کچھ کافر۔ تو جن لوگوں نے کہا کہ ہم پر اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی تو ایسے لوگ میرے اوپر (یعنی اللہ پر) ایمان لائے اور ستاروں (وغیرہ) کا انکار کیا اور جن لوگوں نے یہ کہا کہ ہم پر فلاں ستارے کے سبب سے بارش ہوئی تو وہ میرے (یعنی اللہ تعالیٰ کے) منکر ہوئے اور ستاروں پر ایمان لائے۔“
سیدنا عقبہ (بن حارث) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے مدینہ میں عصر کی نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیر کر جلدی سے کھڑے ہوئے اور آدمیوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے اپنی کسی بیوی کے حجرہ کی طرف تشریف لے گئے۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قدر تیزی سے گھبرا گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان (لوگوں) کے پاس واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قدر تیزی کی وجہ سے متعجب ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے کچھ سونا یاد آ گیا تھا جو ہمارے ہاں رکھا ہوا تھا تو میں نے اس بات کو برا سمجھا کہ وہ مجھے اللہ کی یاد سے روکے لہٰذا میں نے اس کو تقسیم کرنے کا حکم دے دیا۔“
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں سے خواہ مخواہ شیطان کا کچھ حصہ نہ لگائے کہ وہ یہ سمجھے کہ اس پر ضروری ہے کہ (نماز کے بعد) صرف اپنی داہنی طرف کو گھومے، بیشک یقیناً میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر اپنی بائیں طرف کو گھومتے دیکھا ہے۔