سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے بارے میں فرمایا: ”میں ان سے جنت کی مٹی جو کہ میدے کی طرح سفید ہے، کے بارے میں سوال کرتا ہوں۔“ پھر آپ نے ان سے سوال کیا۔ انہوں نے کہا: اے ابوالقاسم! وہ روٹی کی مانند ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روٹی بھی میدے کی ہی ہوتی ہے۔“
-" اهل الجنة امشاطهم الذهب ومجامرهم الالوة".-" أهل الجنة أمشاطهم الذهب ومجامرهم الألوة".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اہل جنت کی کنگھیاں سونے کی ہوں گے اور ان کی انگیٹھیوں میں (جلانے کے لیے) خوشبودار لکڑی ہو گی۔“
-" صغارهم دعاميص الجنة، يتلقى احدهم اباه ـ او قال: ابويه ـ فياخذ بثوبه ـ او قال بيده ـ كما آخذ انا بصنفة ثوبك هذا فلا يتناهى ـ او قال: فلا ينتهي ـ حتى يدخله الله وإياه الجنة".-" صغارهم دعاميص الجنة، يتلقى أحدهم أباه ـ أو قال: أبويه ـ فيأخذ بثوبه ـ أو قال بيده ـ كما آخذ أنا بصنفة ثوبك هذا فلا يتناهى ـ أو قال: فلا ينتهي ـ حتى يدخله الله وإياه الجنة".
ابوحسان کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ میرے دو بیٹے فوت ہو گئے ہیں، کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ایسی حدیث بیان کر سکتے ہیں، جس سے ہمیں اپنے فوت شدگان کے بارے میں صبر و تسلی ہو جائے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” (مومنوں کے) چھوٹے بچے جنت کے کیڑے ہوں گے (یعنی بے روک ٹوک جنت میں آتے جاتے رہیں گے)۔ ایسا بچہ اپنے باپ یا اپنے والدین سے ملاقات کرے گا، اس کا ہاتھ پکڑ لے گا، جس طرح میں نے تیرے کپڑے کا کنارہ پکڑ لیا ہے، اور اسے نہیں چھوڑے گا، حتیٰ کہ اﷲ تعالیٰ اسے اور اس کے باپ دونوں کو جنت میں داخل کر دے گا۔“
- (للشهيد عند الله خصال: 1- يغفر له في اول دفعة من دمه. 2- ويرى مقعده من الجنة. 3- ويحلى حلية الإيمان. 4- ويزوج [اثنتين وسبعين زوجة] من الحور العين. 5- ويجار من عذاب القبر. 6- ويامن من الفزع الاكبر. 7- ويوضع على راسه تاج الوقار، الياقوتة منه خير من الدنيا وما فيها. 8- ويشفع في سبعين إنسانا من اهل بيته).- (للشهيد عند الله خصال: 1- يغفرُ له في أول دفعةٍ من دمه. 2- ويُرى مقعده من الجنة. 3- ويُحلى حلية الإيمان. 4- ويُزوجُ [اثنتين وسبعين زوجة] من الحور العين. 5- ويجارُ من عذاب القبر. 6- ويأمن من الفزع الأكبر. 7- ويوضع على رأسه تاج الوقار، الياقوتة منه خير من الدنيا وما فيها. 8- ويشفع في سبعين إنساناً من أهل بيته).
سیدنا مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شہید کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ انعامات ہیں: (۱) اس کے خون کے پہلے قطرے کے گرتے ہی اسے بخش دیا جاتا ہے۔ (۲) وہ جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے۔ (۳) اسے ایمان کے زیور سے مزین کیا جاتا ہے۔ (۴) بہتر مو ٹی آنکھوں والی حوروں سے اس کی شادی کی جائے گی۔ (۵) اسے عذ اب قبر سے محفوظ رکھا جائے گا۔ (۶) وہ (قیامت کی) بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہے گا۔ (۷) اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جائے گا، جس کا ایک موتی دنیا و مافیہا سے بہتر ہو گا اور (۸) اس کے گھر کے ستر افراد کے حق میں اس کی سفارش قبول کی جائے گی۔“
-" ارواح الشهداء في جوف طير خضر، لها قناديل معلقة بالعرش، تسرح من الجنة حيث شاءت، ثم تاوي إلى تلك القناديل، فاطلع إليهم ربهم إطلاعة، فقال: هل تشتهون شيئا؟ قالوا: اي شيء نشتهي ونحن نسرح من الجنة حيث شئنا؟ ففعل ذلك بهم ثلاث مرات، فلما راوا انهم لن يتركوا من ان يسالوا، قالوا: يا رب! نريد ان ترد ارواحنا في اجسادنا، حتى نقتل في سبيلك مرة اخرى! فلما راى ان ليس لهم حاجة تركوا".-" أرواح الشهداء في جوف طير خضر، لها قناديل معلقة بالعرش، تسرح من الجنة حيث شاءت، ثم تأوي إلى تلك القناديل، فاطلع إليهم ربهم إطلاعة، فقال: هل تشتهون شيئا؟ قالوا: أي شيء نشتهي ونحن نسرح من الجنة حيث شئنا؟ ففعل ذلك بهم ثلاث مرات، فلما رأوا أنهم لن يتركوا من أن يسألوا، قالوا: يا رب! نريد أن ترد أرواحنا في أجسادنا، حتى نقتل في سبيلك مرة أخرى! فلما رأى أن ليس لهم حاجة تركوا".
مسروق کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں دریافت کیا: «وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ»(۳-آل عمران:۱۶۹) ”جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہیں ان کو ہرگز مردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس سے روزیاں دیے جاتے ہیں۔“ انہوں نے کہا: آگاہ رہو، ہم نے اس آیت کے بارے میں سوال کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب دیا تھا: ”شہدا کی ارواح سبز پرندوں کے اندر ہوتی ہیں، ان کے لیے عرش کے ساتھ قندیلیں معلق ہیں، وہ جہاں چاہیں جنت میں چگتے رہتے ہیں اور پھر ان قندیلوں کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ ان کا رب اوپر سے دیکھ کر انہیں کہتا ہیں: (مزید) کوئی چیز چاہتے ہو؟ وہ کہتے ہیں: ہم کس چیز کی تمنا کریں، ہم تو مرضی کے مطابق جنت میں چگتے رہتے ہیں، (مزید کس چیز کا سوال کیا جائے)۔“ اللہ تعالیٰ تین دفعہ یہی عمل دہراتا ہے۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ انہیں (مزید) سوال کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے تو وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! تو ہماری ارواح ہمارے جسموں میں لوٹا دے تاکہ تیرے راستے میں ایک دفعہ پھر شہید ہو سکیں۔ جب اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ ان کو (مزید کسی چیز کی کوئی) ضرورت نہیں ہے، تو انہیں (ان کے حال پر) چھوڑ دیتا ہے۔“
- (لو ان ما يقل ظفر مما في الجنة بدا؛ لتزخرفت له خوافق السماوات والارض، ولو ان رجلا من اهل الجنة اطلع فبدا اساوره؛ لطمس ضوء الشمس كما تطمس الشمس ضوء النجوم).- (لو أنّ ما يُقِلُّ ظفرٌ ممّا في الجنّةِ بدَا؛ لتزخرفَت له خَوافقُ السماواتِ والأرضِ، ولو أنَّ رجُلاً من أهلِ الجنّةِ اطّلع فبدَا أساورُه؛ لطمسَ ضَوءَ الشّمسِ كما تطمسُ الشّمسُ ضَوءَ النُّجومِ).
سیدنا سعد بن ابووقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر جنت کی ناخن کی مقدار سے کم چیز کو (دنیا) میں ظاہر کر دیا جائے تو آسمانوں و زمینوں کے کنارے روشن ہو جائیں گے۔ اگر کوئی جنتی ( دنیا میں) جھانکے اور اس کے کنگن بھی نمودار ہوں تو ( ان کی تابناکی کے سامنے) سورج کی روشنی بےنور ہو جائے گی، جیسے سورج، ستارے کی روشنی کو ختم کر دیتا ہے۔“