-" إن الله اصطفى كنانة من ولد إسماعيل واصطفى قريشا من كنانة واصطفى من قريش بني هاشم واصطفاني من بني هاشم".-" إن الله اصطفى كنانة من ولد إسماعيل واصطفى قريشا من كنانة واصطفى من قريش بني هاشم واصطفاني من بني هاشم".
سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے کنانہ کو، کنانہ سے قریش کو، قریش سے بنی ہاشم کو اور بنو ہاشم میں سے میں (محمد) کو منتخب کیا۔“
-" اكتب، فوالذي نفسي بيده ما يخرج منه إلا حق".-" اكتب، فوالذي نفسي بيده ما يخرج منه إلا حق".
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتا تھا، اسے یاد کرنے کی غرض سے لکھ لیتا تھا، مجھے قریشیوں نے ایسا کرنے سے روک دیا اور کہا: کیا تو ہر بات لکھ لیتا ہے، جبکہ صورتحال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں، جو ناراضگی اور خوشی میں باتیں کرتے ہیں۔ پس میں نے لکھنا ترک کر دیا اور جب یہ ( قریشیوں والی بات) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ کی طرف انگلی سے اشارہ کیا اور فرمایا: ”لکھتا رہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میرے منہ سے سوائے حق کے کچھ نہیں نکلتا۔“
-" ابلغا صاحبكما ان ربي قد قتل ربه كسرى في هذه الليلة".-" أبلغا صاحبكما أن ربي قد قتل ربه كسرى في هذه الليلة".
محمد بن عمر اسلمی اپنی سندوں کے ساتھ چند ایک صحابہ، جن میں سے بعض کی احادیث کے الفاظ دوسروں کی احادیث میں خلط ملط ہو گئے، سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ، جو چھ میں ایک تھے، کو کسری کی طرف اسلام کی دعوت دینے کے لیے بھیجا اور ایک خط بھی لکھا۔ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط کسری تک پہنچایا، وہ اس پر پڑھا گیا، اس نے خط پکڑا اور پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس صورتحال کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! اس کی بادشاہت کے پرخچے اڑا دے۔“ پھر کسری نے یمن کے گورنر باذان کی طرف خط لکھا کہ کوئی دو باہمت آدمی حجاز والے شخص (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس بھیج تاکہ وہ ہمیں اس کی حقیقت سے آگاہ کریں۔ باذان نے اپنے میر منشی اور ایک دوسرے آدمی کو اپنا خط دے کر بھیجا۔ یہ دونوں مدینہ پہنچے اور باذان کا خط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور انہیں دعوت اسلام دی، اس وقت ان کے مونڈھوں کا گوشت کانپ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ ”تم دونوں آج چلے جاؤ، کل مجھے ملنا، میں تمہیں اپنے ارادے پر مطلع کروں گا۔“ جب وہ دوسرے دن آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”میری بات اپنے لیڈر (باذان) تک پہنچا دو کہ اس رات میرے رب نے اس کے رب کسری کو ہلاک کر دیا ہے۔“
- (كان ضخم اليدين والقدمين، حسن الوجه، لم ار بعده ولا قبله مثله).- (كان ضخم اليدين والقدمين، حسن الوجه، لم أرَ بعدَه ولا قبله مثله).
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موٹے ہاتھوں اور پیروں والے اور خوبصورت چہرے والے تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اور آپ کے بعد آپ جیسا کوئی نہیں دیکھا۔
-" كان شبح الذراعين، اهدب اشفار العينين، بعيد ما بين المنكبين، يقبل جميعا ويدبر جميعا، لم يكن فاحشا ولا متفحشا ولا صخابا في الاسواق".-" كان شبح الذراعين، أهدب أشفار العينين، بعيد ما بين المنكبين، يقبل جميعا ويدبر جميعا، لم يكن فاحشا ولا متفحشا ولا صخابا في الأسواق".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھرے ہوئے بازوؤں والے اور لمبی پلکوں والے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان فاصلہ زیادہ تھا۔ پورے وجود کے ساتھ متوجہ ہوا کرتے تھے اور پورے وجود کے ساتھ پیٹھ پھیرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدخلق تھے نہ بدزبان اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بازاروں میں شور کرنے والے بھی نہیں تھے۔
-" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ابيض، كانما صيغ من فضة، رجل الشعر".-" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أبيض، كأنما صيغ من فضة، رجل الشعر".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ ایسا سفید تھا کہ گویا کہ آپ کو چاندی سے بنایا گیا ہو اور آپ کے بال معمولی گھنگریالے تھے۔