-" لا تزال طائفة من امتي يقاتلون على الحق ظاهرين إلى يوم القيامة، قال: فينزل عيسى بن مريم صلى الله عليه وسلم فيقول اميرهم: تعال صل لنا، فيقول: لا، إن بعضكم على بعض امراء، تكرمة الله على هذه الامة".-" لا تزال طائفة من أمتي يقاتلون على الحق ظاهرين إلى يوم القيامة، قال: فينزل عيسى بن مريم صلى الله عليه وسلم فيقول أميرهم: تعال صل لنا، فيقول: لا، إن بعضكم على بعض أمراء، تكرمة الله على هذه الأمة".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کی ایک جماعت حق پر قتال کرتی ہوئی روز قیامت تک غالب رہے گی، جب عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے تو ان کا امیر ان سے کہے گا آؤ، ہمیں نماز پڑھاؤ۔ وہ کہیں گے نہیں، تم ہی ایک دوسرے کے امیر بن سکتے ہو، ( میں جماعت نہیں کراؤں گا) یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس امت کی عزت افزائی ہے۔“
- (لا تزال من امتي عصابة قوامة على امر الله عز وجل، لا يضرها من خالفها؛ تقاتل اعداءها، كلما ذهب حرب نشب حرب قوم آخرين، يزيغ الله قلوب قوم ليرزقهم منه، حتى تاتيهم الساعة، كانها قطع الليل المظلم، فيفزعون لذلك؛ حتى يلبسوا له ابدان الدروع، وقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: هم اهل الشام، ونكت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بإصبعه؛ يومئ بها إلى الشام حتى اوجعها).- (لا تزالُ من أمَّتي عِصابةٌ قوَّامةٌ على أمْرِ الله عزّ وجلّ، لا يضرُّها من خالفَها؛ تقاتلُ أعداءها، كلما ذهبَ حربٌ نشِبَ حربُ قومٍ آًخرين، يزيغُ اللهُ قلوب قوم ليرزقَهم منه، حتى تأتيهم الساعةُ، كأنّها قطعُ الليلِ المظلمِ، فيفزعونَ لذلك؛ حتّى يلبسُوا له أبدانَ الدُّروع، وقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: همْ أهلُ الشّامِ، ونكَتَ رسولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - بإصبعِه؛ يومئُ بها إلى الشّامِ حتّى أوجَعها).
عمیر بن اسود اور کثیر بن مرہ حضرمی کہتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابن سمط کہتے تھے کہ مسلمان زمین میں قیامت برپا ہونے تک موجود رہیں گے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کی ایک جماعت اللہ کے حکم پر قائم دائم رہے گی، اس کا مخالف اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا، وہ اپنے دشمنوں سے جہاد کرتی رہے گی، جب کبھی ایک لڑائی ختم ہو گی تو دوسری جنگ چھڑ جائے گی، اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں کو راہ راست سے ہٹاتا رہے گا تاکہ ان سے (مال غنیمت کے ذریعے) ان کو رزق دیتا رہے، حتیٰ کہ قیامت آ جائے گی، گویا کہ وہ اندھیری رات کے ٹکڑے ہوں گے، اس وجہ سے وہ گھبرا جائیں گے، حتیٰ کہ وہ چھوٹی چھوٹی زرہیں پہنیں گے۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اہل شام ہیں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی انگلی کے ذریعے زمین کو کریدا (یعنی شام کی طرف خط کھینچا)، حتیٰ کہ آپ کو تکلیف بھی ہوئی۔
-" إذا فسد اهل الشام فلا خير فيكم، لا تزال طائفة من امتي منصورين لا يضرهم من خذلهم حتى تقوم الساعة".-" إذا فسد أهل الشام فلا خير فيكم، لا تزال طائفة من أمتي منصورين لا يضرهم من خذلهم حتى تقوم الساعة".
سیدنا معاویہ بن قرہ اپنے باپ سیدنا قرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اہل شام میں فساد پیدا ہو جائے گا تو تم میں بھی کوئی خیر باقی نہ رہے گی۔ میری امت کی ایک جماعت کی ہمیشہ مدد کی جاتی رہے گی، انہیں رسوا کرنے (کی کوشش کرنے) والا قیامت برپا ہونے تک انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔“
-" اوقدوا واصطنعوا، اما إنه لا يدرك قوم بعدكم صاعكم ولا مدكم".-" أوقدوا واصطنعوا، أما إنه لا يدرك قوم بعدكم صاعكم ولا مدكم".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر فرمایا: ”رات کو آگ نہ جلایا کرو۔“ بعد میں ایک دن فرمایا: ”آگ جلاؤ اور کھانا تیار کرو، خبردار! تمہارے بعد والے تمہارے صاع اور مد (جیسے پیمانوں) کو نہیں پا سکیں گے۔“
-" لا ياتي على الناس مائة سنة، وعلى الارض عين تطرف ممن هو حي اليوم".-" لا يأتي على الناس مائة سنة، وعلى الأرض عين تطرف ممن هو حي اليوم".
نعیم بن دجاجہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابومسعود عقبہ بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: تم ہو جو کہتے ہو کہ لوگوں پر ابھی تک سو برس نہیں گزریں گے کہ جھپکنے والی آنکھیں ختم ہو جائیں گی (یعنی تمام لوگ سو برس کی مدت میں فنا ہو جائیں گے)؟ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا تھا کہ ”لوگوں پر ابھی تک سو سال نہیں گزریں گے کہ ہر وہ جھپکنے والی آنکھ ختم ہو جائے گی جو آج زندہ ہے۔“ اللہ کی قسم! اس امت کی امید سو برس کے بعد بھی ہو گی۔
-" [يا ابا هريرة] خذهن (يعني تمرات دعا فيهن صلى الله عليه وسلم بالبركة) فاجمعهن في مزودك هذا، او في هذا المزود، كلما اردت ان تاخذ منه شيئا، فادخل يدك فيه فخذه ولا تنثره نثرا".-" [يا أبا هريرة] خذهن (يعني تمرات دعا فيهن صلى الله عليه وسلم بالبركة) فاجمعهن في مزودك هذا، أو في هذا المزود، كلما أردت أن تأخذ منه شيئا، فأدخل يدك فيه فخذه ولا تنثره نثرا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ کھجوریں لے کر آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اللہ تعالیٰ سے ان کی برکت کی دعا کریں۔ آپ نے ان کو اپنے سامنے رکھا اور برکت کی دعا کی، پھر فرمایا: ”ابوہریرہ! اٹھا لو اور اپنے تھیلے میں جمع کر لو، جب اس سے کھجوریں نکالنے کا ارادہ ہو تو اس کے اندر ہاتھ داخل کر کے نکال لینا اور انہیں بکھیر نا نہیں“ ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اللہ کے راستہ میں اس تھیلے سے بہت سے ( اور ایک روایت کے مطابق پچاس) وسق کھجوروں کے نکالے، ہم اس سے کھاتے رہتے تھے اور میں اس تھیلے کو اپنی کمر کے ساتھ رکھتا تھا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت والے دن وہ تھیلا میری کمر سے کٹ گیا اور وہ کھجوریں گر پڑیں۔
-" يا بني بياضة! انكحوا ابا هند، وانحكوا إليه. وكان حجاما".-" يا بني بياضة! أنكحوا أبا هند، وانحكوا إليه. وكان حجاما".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوہند رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سر کے اوپر والے حصے پر سنگی لگائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنو بیاضہ! ابوہند کو نکاح دو اور اسے منگنی کا پیغام بھیجو۔“ وہ پچھنے لگانے والا تھا۔
-" يا صفية إن اباك الب علي العرب، وفعل وفعل، يعتذر لها".-" يا صفية إن أباك ألب علي العرب، وفعل وفعل، يعتذر لها".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عہنا کی آنکھوں میں سبزی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”یہ آپ کی آنکھوں میں سبزی کیسے آ گئی؟“ انہوں نے کہا: میں نے اپنے خاوند سے کہا، میں نے خواب میں اپنی گود میں گرا ہوا چاند دیکھا۔ اس نے (یہ خواب سنتے ہی) مجھے تھپڑ مارا اور کہا: کیا تو یثرب (مدینہ منورہ) کا بادشاہ چاہتی ہے؟ پھر اس (صفیہ) نے خود کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی چیز ناپسند نہیں تھی، کیونکہ آپ نے میرے باپ اور میرے خاوند کو قتل کیا تھا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عذر پیش کرتے رہے اور فرمایا: ”صفیہ! (دیکھو!) تیرے باپ نے عرب کو مجھ پر اکسایا اور یہ یہ (جرائم) کئے۔۔۔۔“ آپ عذر پیش کرتے رہے۔ بالآخر انہوں نے کہا: (جو چیز میں محسوس کر رہی تھی) وہ میرے دل سے نکل گئی۔
-" يعيش هذا الغلام قرنا. فعاش مائة سنة. يعني عبد الله بن بسر".-" يعيش هذا الغلام قرنا. فعاش مائة سنة. يعني عبد الله بن بسر".
سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”یہ لڑکا ایک صدی تک زندہ رہے گا۔“ پس وہ لڑکا (واقعی) سو سال تک زندہ رہا۔
- (إنها مباركة، إنها طعام طعم).- (إنها مباركة، إنها طعامُ طُعْمٍ).
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(زمزم کا پانی) مبارک ہے، یہ کھانے کا کھانا ہے۔“ یہ حدیث سیدنا ابوذر، سیدنا عبداللہ بن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے۔ یہ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، وہ کہتے ہیں ہم اپنی قوم غفار، جو حرمت والے مہینے کو حلال سمجھتے تھے، سے وفد کی صورت میں نکلے۔ میں (ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ)، میرا بھائی انیس اور میری ماں روانہ ہوئے، ہم اپنے ماموں کے پاس آ کر ٹھہرے۔ انہوں نے ہماری بڑی عزت کی اور ہمارے ساتھ احسان کیا، لیکن ان کی قوم ہم سے حسد کرنے لگی۔ اس لیے انہوں نے کہا: جب تو اپنے اہل خانہ سے باہر جاتا ہے تو انیس ان کے پاس آ جاتا ہے۔ پس ہمارا ماموں آیا اور جو بات اسے کہی گئی، اس کے سلسلے میں ہماری غیبت کرنے لگ گیا۔ میں نے اسے کہا: جو تو نے ہمارے ساتھ نیکی کی تھی، اسے تو تو نے گدلا کر دیا ہے اور آئندہ ہم آپ کے پاس نہیں آئیں گے۔ ہم اپنی اونٹنیوں کے قریب پہنچے اور سوار ہو کر چل پڑے، میرے ماموں نے کپڑا اوڑھ کر رونا شروع کر دیا۔ ہم چلتے گئے اور مکہ کے قریب جا کر پڑاؤ ڈالا۔ انیس ہماری اونٹنیوں سے دور رہنے لگ گیا۔ وہ دونوں نجومی کے پاس گئے، اس نے انیس کو منتخب کیا، پس انیس ہماری اور اتنی اور اونٹنیاں لے کر ہمارے پاس آیا۔ اس نے کہا: اے میرے بھتیجے! میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملنے سے تین برس پہلے سے نماز پڑھ رہا تھا۔ میں نے کہا: کس کے لیے؟ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ کے لیے۔ میں نے کہا: تو کس طرف رخ کرتا تھا۔ اس نے کہا: جس طرف میرا رب میرا رخ موڑ دیتا تھا۔ میں رات کے آخری حصے میں نماز عشاء ادا کرتا تھا۔ اب میں گم سم ہو کر لیٹ گیا، یہاں تک کہ سورج چڑھ آیا۔ انیس نے کہا: مجھے مکہ میں کوئی کام ہے، تو مجھے کفایت کر۔ انیس چلا گیا، مکہ پہنچ گیا اور مجھے اچھائی کا بدلہ برائی سے دیا۔ پھر وہ واپس آ گیا۔ میں نے پوچھا: تو نے کیا کیا ہے؟ اس نے کہا: میں مکہ میں ایک ایسے آدمی کو ملا ہوں جو تیرے دین پر ہے، وہ خیال کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مبعوث فرمایا ہے۔ میں نے کہا: لوگ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا: لوگ اسے شاعر، نجومی اور جادوگر کہتے ہیں۔ انیس خود بھی ایک شاعر تھا۔ اس نے کہا: لیکن میں نے نجومیوں کا کلام سنا ہے اور اس کے کلام کو زبان اور شعرا کے کلام پر پیش کیا ہے، لیکن کسی کی زبان یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ وہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام بھی) شعر ہے۔ اللہ کی قسم! وہ صادق ہے اور لوگ جھوٹے ہیں۔ میں نے کہا: اب تو مجھے کفایت کر، تاکہ میں بھی جا کر دیکھ سکوں (کہ اصل ماجرا کیا ہے؟) میں مکہ پہنچ گیا اور ایک آدمی پر رعب ڈالتے ہوئے پوچھا: وہ آدمی کہاں ہے جس کو تم لوگ بے دین کہتے ہو؟ اس نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ بے دین۔ (یہ سنتے ہی) اہل وادی مٹی کے ڈھیلے اور ہڈیاں لیکر مجھ پر چڑھ دوڑے، میں بے ہوش ہو کر گر پڑا، جب (مجھے افاقہ ہوا اور) میں اٹھا تو ایسے لگتا تھا کہ میں ایک سرخ پتھر ہوں۔ میں زمزم پانی پر آیا، خون دھویا، اس کا پانی پیا اور اے میرے بھتیجے! میں وہاں تیس دنوں تک ٹھیرا رہا۔ میرے پاس مائے زمزم کے علاوہ کوئی کھانا نہیں تھا، وہی پی کر میں موٹا ہوتا رہا (یعنی خوراک کی کمی پوری کرتا رہا) اور اپنے پیٹ کی سلوٹیں ختم کرتا رہا۔ مجھے بھوک کی وجہ سے ہونے والی لاغری محسوس نہیں ہوئی۔ (دن گزرتے رہے اور) ایک دن مکہ میں چاندنی رات اور صاف فضا تھی، اچانک ان کے کانوں میں یہ آواز پڑی کہ کوئی بھی بیت اللہ کا طواف نہ کرے اور دو عورتیں اساف اور نائلہ کو پکار رہی تھیں۔ اس نے کہا: وہ طواف کے دوران میرے پاس سے گزریں، میں نے کہا: ایک کی دوسری سے شادی کر دو۔ لیکن وہ اپنے قول سے باز نہ آئیں۔ (چکر کے دوران پھر) میرے پاس سے گزریں۔ میں نے کہا: یہ تو لکڑی کی طرح ہیں اور میں نے بات کنایتہً نہیں کی۔ وہ دونوں چیختی چلاتی چلتی گئیں اور یہ کہتی گئیں کہ کاش ہماری جماعت کا بھی کوئی آدمی یہاں ہوتا! اس نے کہا: اسی اثناء میں ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر (بلندی سے) اترتے ہوئے آ رہے تھے۔ انہوں نے کہا تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ انہوں نے کہا کعبہ اور اس کے پردوں کے درمیان بےدین ہے۔ انہوں نے کہا: اس نے تمہیں کیا کہا؟ انہوں کہا: ایسی بات کہی کہ جس سے منہ بھر جاتا ہے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور حجر اسود کا استلام کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی نے بیت اللہ کا طواف اور پھر نماز پڑھی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو ابوذر نے کہا: میں پہلا آدمی تھا جس نے انہیں اسلام کا سلام پیش کیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ پر سلامتی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وعلیک ورحمۃ اللہ“ پھر فرمایا: ”آپ کون ہیں؟“ میں نے کہا: میں غفار قبیلے سے ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ جھکایا اور اپنی انگلی اپنی پیشانی پر رکھی۔ میں دل ہی دل میں کہنے لگا کہ شاید آپ نے غفار کی طرف میری نسبت کو ناپسند کیا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑنا چاہا لیکن آپ کے ساتھی نے مجھے روک دیا اور وہ آپ کو مجھ سے زیادہ جانتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا: کون تجھے کھانا کھلاتا تھا؟ میں نے کہا: زمزم کے پانی کے علاوہ میرے پاس کوئی کھانا نہیں ہے، یہی پانی پی کر میں موٹا ہوتا رہا اور اپنے پیٹ کی سلوٹیں پر کرتا رہا اور مجھے بھوک کی وجہ سے کوئی لاغری محسوس نہیں ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ پانی مبارک ہے اور یہ کھانے کا کھانا ہے۔“ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں، آج رات میں اس کو کھانا کھلاؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ چل پڑے اور میں بھی ان کے ساتھ چل دیا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دروازہ کھولا اور طائف کا منقیٰ لانا شروع کیا۔ یہ پہلا کھانا تھا جو میں نے کھایا، پھر کچھ باقی بھی بچ گیا تھا۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی کھجوروں والی زمین میرے لیے مطیع کر دی گئی ہے، مجھے لگتا ہے کہ وہ یثرب (مدینہ) ہے، کیا تو اپنی قوم کو میرا پیغام دے گا، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تیرے ذریعے ان کو نفع دے اور ان کی وجہ سے تجھے اجر و ثواب بھی عطا کرے۔ میں انیس کے پاس پہنچا۔ اس نے پوچھا: تو نے کیا کیا ہے؟ میں نے کہا: اسلام قبول کر لیا ہے اور تصدیق کی ہے۔ اس نے کہا: میں بھی تیرے دین سے بے رغبتی نہیں کرتا، میں بھی مطیع ہو گیا ہوں اور میں نے بھی تصدیق کی ہے ہم دونوں اپنی ماں کے پاس گئے تو کہنے لگی مجھے بھی تمہارے دین سے بے رغبتی نہیں میں بھی مسلمان و مطیع ہو گئی۔ ہم سوار ہوئے اور اپنی قوم غفار کے پاس پہنچ گئے۔ نصف قبیلہ تو مسلمان ہو گیا۔ ایماء بن رحضہ غفاری، جو ان کا سردار تھا، ان کو نماز پڑھاتا تھا۔ اور نصف قبیلے نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائیں گے تو ہم بھی مسلمان ہو جائیں گے۔ پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہ نصف قبیلہ کے لوگ بھی مسلمان ہو گئے۔ اسلم قبیلہ کے لوگ آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! جس چیز پر ہمارے بھائی مسلمان ہوئے، ہم بھی اسی چیز پر مسلمان ہوتے ہیں۔ پھر وہ مسلمان ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غفار قبیلہ، اللہ اس کو بخش دے اور اسلم قبیلہ، اللہ اسے سلامتی کے ساتھ رکھے۔“