Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سلسله احاديث صحيحه
المناقب والمثالب
فضائل و مناقب اور معائب و نقائص
سیدنا ابوذر، سیدنا انیس اور ان کی قوم غفار کے ایمان لانے کا واقعہ
حدیث نمبر: 3495
- (إنها مباركة، إنها طعامُ طُعْمٍ).
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (‏‏‏‏زمزم کا پانی) مبارک ہے، یہ کھانے کا کھانا ہے۔ یہ حدیث سیدنا ابوذر، سیدنا عبداللہ بن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے۔ یہ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، وہ کہتے ہیں ہم اپنی قوم غفار، جو حرمت والے مہینے کو حلال سمجھتے تھے، سے وفد کی صورت میں نکلے۔ میں (‏‏‏‏ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ)، میرا بھائی انیس اور میری ماں روانہ ہوئے، ہم اپنے ماموں کے پاس آ کر ٹھہرے۔ انہوں نے ہماری بڑی عزت کی اور ہمارے ساتھ احسان کیا، لیکن ان کی قوم ہم سے حسد کرنے لگی۔ اس لیے انہوں نے کہا: جب تو اپنے اہل خانہ سے باہر جاتا ہے تو انیس ان کے پاس آ جاتا ہے۔ پس ہمارا ماموں آیا اور جو بات اسے کہی گئی، اس کے سلسلے میں ہماری غیبت کرنے لگ گیا۔ میں نے اسے کہا: جو تو نے ہمارے ساتھ نیکی کی تھی، اسے تو تو نے گدلا کر دیا ہے اور آئندہ ہم آپ کے پاس نہیں آئیں گے۔ ہم اپنی اونٹنیوں کے قریب پہنچے اور سوار ہو کر چل پڑے، میرے ماموں نے کپڑا اوڑھ کر رونا شروع کر دیا۔ ہم چلتے گئے اور مکہ کے قریب جا کر پڑاؤ ڈالا۔ انیس ہماری اونٹنیوں سے دور رہنے لگ گیا۔ وہ دونوں نجومی کے پاس گئے، اس نے انیس کو منتخب کیا، پس انیس ہماری اور اتنی اور اونٹنیاں لے کر ہمارے پاس آیا۔ اس نے کہا: اے میرے بھتیجے! میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملنے سے تین برس پہلے سے نماز پڑھ رہا تھا۔ میں نے کہا: کس کے لیے؟ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ کے لیے۔ میں نے کہا: تو کس طرف رخ کرتا تھا۔ اس نے کہا: جس طرف میرا رب میرا رخ موڑ دیتا تھا۔ میں رات کے آخری حصے میں نماز عشاء ادا کرتا تھا۔ اب میں گم سم ہو کر لیٹ گیا، یہاں تک کہ سورج چڑھ آیا۔ انیس نے کہا: مجھے مکہ میں کوئی کام ہے، تو مجھے کفایت کر۔ انیس چلا گیا، مکہ پہنچ گیا اور مجھے اچھائی کا بدلہ برائی سے دیا۔ پھر وہ واپس آ گیا۔ میں نے پوچھا: تو نے کیا کیا ہے؟ اس نے کہا: میں مکہ میں ایک ایسے آدمی کو ملا ہوں جو تیرے دین پر ہے، وہ خیال کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مبعوث فرمایا ہے۔ میں نے کہا: لوگ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا: لوگ اسے شاعر، نجومی اور جادوگر کہتے ہیں۔ انیس خود بھی ایک شاعر تھا۔ اس نے کہا: لیکن میں نے نجومیوں کا کلام سنا ہے اور اس کے کلام کو زبان اور شعرا کے کلام پر پیش کیا ہے، لیکن کسی کی زبان یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ وہ (‏‏‏‏محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام بھی) شعر ہے۔ اللہ کی قسم! وہ صادق ہے اور لوگ جھوٹے ہیں۔ میں نے کہا: اب تو مجھے کفایت کر، تاکہ میں بھی جا کر دیکھ سکوں (‏‏‏‏کہ اصل ماجرا کیا ہے؟) میں مکہ پہنچ گیا اور ایک آدمی پر رعب ڈالتے ہوئے پوچھا: وہ آدمی کہاں ہے جس کو تم لوگ بے دین کہتے ہو؟ اس نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ بے دین۔ (‏‏‏‏یہ سنتے ہی) اہل وادی مٹی کے ڈھیلے اور ہڈیاں لیکر مجھ پر چڑھ دوڑے، میں بے ہوش ہو کر گر پڑا، جب (‏‏‏‏مجھے افاقہ ہوا اور) میں اٹھا تو ایسے لگتا تھا کہ میں ایک سرخ پتھر ہوں۔ میں زمزم پانی پر آیا، خون دھویا، اس کا پانی پیا اور اے میرے بھتیجے! میں وہاں تیس دنوں تک ٹھیرا رہا۔ میرے پاس مائے زمزم کے علاوہ کوئی کھانا نہیں تھا، وہی پی کر میں موٹا ہوتا رہا (‏‏‏‏یعنی خوراک کی کمی پوری کرتا رہا) اور اپنے پیٹ کی سلوٹیں ختم کرتا رہا۔ مجھے بھوک کی وجہ سے ہونے والی لاغری محسوس نہیں ہوئی۔ (‏‏‏‏دن گزرتے رہے اور) ایک دن مکہ میں چاندنی رات اور صاف فضا تھی، اچانک ان کے کانوں میں یہ آواز پڑی کہ کوئی بھی بیت اللہ کا طواف نہ کرے اور دو عورتیں اساف اور نائلہ کو پکار رہی تھیں۔ اس نے کہا: وہ طواف کے دوران میرے پاس سے گزریں، میں نے کہا: ایک کی دوسری سے شادی کر دو۔ لیکن وہ اپنے قول سے باز نہ آئیں۔ (‏‏‏‏چکر کے دوران پھر) میرے پاس سے گزریں۔ میں نے کہا: یہ تو لکڑی کی طرح ہیں اور میں نے بات کنایتہً نہیں کی۔ وہ دونوں چیختی چلاتی چلتی گئیں اور یہ کہتی گئیں کہ کاش ہماری جماعت کا بھی کوئی آدمی یہاں ہوتا! اس نے کہا: اسی اثناء میں ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر (‏‏‏‏بلندی سے) اترتے ہوئے آ رہے تھے۔ انہوں نے کہا تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ انہوں نے کہا کعبہ اور اس کے پردوں کے درمیان بےدین ہے۔ انہوں نے کہا: اس نے تمہیں کیا کہا؟ انہوں کہا: ایسی بات کہی کہ جس سے منہ بھر جاتا ہے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور حجر اسود کا استلام کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی نے بیت اللہ کا طواف اور پھر نماز پڑھی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو ابوذر نے کہا: میں پہلا آدمی تھا جس نے انہیں اسلام کا سلام پیش کیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ پر سلامتی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وعلیک ورحمۃ اللہ پھر فرمایا: آپ کون ہیں؟ میں نے کہا: میں غفار قبیلے سے ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ جھکایا اور اپنی انگلی اپنی پیشانی پر رکھی۔ میں دل ہی دل میں کہنے لگا کہ شاید آپ نے غفار کی طرف میری نسبت کو ناپسند کیا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑنا چاہا لیکن آپ کے ساتھی نے مجھے روک دیا اور وہ آپ کو مجھ سے زیادہ جانتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا: کون تجھے کھانا کھلاتا تھا؟ میں نے کہا: زمزم کے پانی کے علاوہ میرے پاس کوئی کھانا نہیں ہے، یہی پانی پی کر میں موٹا ہوتا رہا اور اپنے پیٹ کی سلوٹیں پر کرتا رہا اور مجھے بھوک کی وجہ سے کوئی لاغری محسوس نہیں ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ پانی مبارک ہے اور یہ کھانے کا کھانا ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں، آج رات میں اس کو کھانا کھلاؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ چل پڑے اور میں بھی ان کے ساتھ چل دیا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دروازہ کھولا اور طائف کا منقیٰ لانا شروع کیا۔ یہ پہلا کھانا تھا جو میں نے کھایا، پھر کچھ باقی بھی بچ گیا تھا۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی کھجوروں والی زمین میرے لیے مطیع کر دی گئی ہے، مجھے لگتا ہے کہ وہ یثرب (‏‏‏‏مدینہ) ہے، کیا تو اپنی قوم کو میرا پیغام دے گا، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تیرے ذریعے ان کو نفع دے اور ان کی وجہ سے تجھے اجر و ثواب بھی عطا کرے۔ میں انیس کے پاس پہنچا۔ اس نے پوچھا: تو نے کیا کیا ہے؟ میں نے کہا: اسلام قبول کر لیا ہے اور تصدیق کی ہے۔ اس نے کہا: میں بھی تیرے دین سے بے رغبتی نہیں کرتا، میں بھی مطیع ہو گیا ہوں اور میں نے بھی تصدیق کی ہے ہم دونوں اپنی ماں کے پاس گئے تو کہنے لگی مجھے بھی تمہارے دین سے بے رغبتی نہیں میں بھی مسلمان و مطیع ہو گئی۔ ہم سوار ہوئے اور اپنی قوم غفار کے پاس پہنچ گئے۔ نصف قبیلہ تو مسلمان ہو گیا۔ ایماء بن رحضہ غفاری، جو ان کا سردار تھا، ان کو نماز پڑھاتا تھا۔ اور نصف قبیلے نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائیں گے تو ہم بھی مسلمان ہو جائیں گے۔ پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہ نصف قبیلہ کے لوگ بھی مسلمان ہو گئے۔ اسلم قبیلہ کے لوگ آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! جس چیز پر ہمارے بھائی مسلمان ہوئے، ہم بھی اسی چیز پر مسلمان ہوتے ہیں۔ پھر وہ مسلمان ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غفار قبیلہ، اللہ اس کو بخش دے اور اسلم قبیلہ، اللہ اسے سلامتی کے ساتھ رکھے۔