- (إنها مباركة، إنها طعام طعم).- (إنها مباركة، إنها طعامُ طُعْمٍ).
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(زمزم کا پانی) مبارک ہے، یہ کھانے کا کھانا ہے۔“ یہ حدیث سیدنا ابوذر، سیدنا عبداللہ بن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے۔ یہ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، وہ کہتے ہیں ہم اپنی قوم غفار، جو حرمت والے مہینے کو حلال سمجھتے تھے، سے وفد کی صورت میں نکلے۔ میں (ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ)، میرا بھائی انیس اور میری ماں روانہ ہوئے، ہم اپنے ماموں کے پاس آ کر ٹھہرے۔ انہوں نے ہماری بڑی عزت کی اور ہمارے ساتھ احسان کیا، لیکن ان کی قوم ہم سے حسد کرنے لگی۔ اس لیے انہوں نے کہا: جب تو اپنے اہل خانہ سے باہر جاتا ہے تو انیس ان کے پاس آ جاتا ہے۔ پس ہمارا ماموں آیا اور جو بات اسے کہی گئی، اس کے سلسلے میں ہماری غیبت کرنے لگ گیا۔ میں نے اسے کہا: جو تو نے ہمارے ساتھ نیکی کی تھی، اسے تو تو نے گدلا کر دیا ہے اور آئندہ ہم آپ کے پاس نہیں آئیں گے۔ ہم اپنی اونٹنیوں کے قریب پہنچے اور سوار ہو کر چل پڑے، میرے ماموں نے کپڑا اوڑھ کر رونا شروع کر دیا۔ ہم چلتے گئے اور مکہ کے قریب جا کر پڑاؤ ڈالا۔ انیس ہماری اونٹنیوں سے دور رہنے لگ گیا۔ وہ دونوں نجومی کے پاس گئے، اس نے انیس کو منتخب کیا، پس انیس ہماری اور اتنی اور اونٹنیاں لے کر ہمارے پاس آیا۔ اس نے کہا: اے میرے بھتیجے! میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملنے سے تین برس پہلے سے نماز پڑھ رہا تھا۔ میں نے کہا: کس کے لیے؟ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ کے لیے۔ میں نے کہا: تو کس طرف رخ کرتا تھا۔ اس نے کہا: جس طرف میرا رب میرا رخ موڑ دیتا تھا۔ میں رات کے آخری حصے میں نماز عشاء ادا کرتا تھا۔ اب میں گم سم ہو کر لیٹ گیا، یہاں تک کہ سورج چڑھ آیا۔ انیس نے کہا: مجھے مکہ میں کوئی کام ہے، تو مجھے کفایت کر۔ انیس چلا گیا، مکہ پہنچ گیا اور مجھے اچھائی کا بدلہ برائی سے دیا۔ پھر وہ واپس آ گیا۔ میں نے پوچھا: تو نے کیا کیا ہے؟ اس نے کہا: میں مکہ میں ایک ایسے آدمی کو ملا ہوں جو تیرے دین پر ہے، وہ خیال کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مبعوث فرمایا ہے۔ میں نے کہا: لوگ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا: لوگ اسے شاعر، نجومی اور جادوگر کہتے ہیں۔ انیس خود بھی ایک شاعر تھا۔ اس نے کہا: لیکن میں نے نجومیوں کا کلام سنا ہے اور اس کے کلام کو زبان اور شعرا کے کلام پر پیش کیا ہے، لیکن کسی کی زبان یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ وہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام بھی) شعر ہے۔ اللہ کی قسم! وہ صادق ہے اور لوگ جھوٹے ہیں۔ میں نے کہا: اب تو مجھے کفایت کر، تاکہ میں بھی جا کر دیکھ سکوں (کہ اصل ماجرا کیا ہے؟) میں مکہ پہنچ گیا اور ایک آدمی پر رعب ڈالتے ہوئے پوچھا: وہ آدمی کہاں ہے جس کو تم لوگ بے دین کہتے ہو؟ اس نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: یہ بے دین۔ (یہ سنتے ہی) اہل وادی مٹی کے ڈھیلے اور ہڈیاں لیکر مجھ پر چڑھ دوڑے، میں بے ہوش ہو کر گر پڑا، جب (مجھے افاقہ ہوا اور) میں اٹھا تو ایسے لگتا تھا کہ میں ایک سرخ پتھر ہوں۔ میں زمزم پانی پر آیا، خون دھویا، اس کا پانی پیا اور اے میرے بھتیجے! میں وہاں تیس دنوں تک ٹھیرا رہا۔ میرے پاس مائے زمزم کے علاوہ کوئی کھانا نہیں تھا، وہی پی کر میں موٹا ہوتا رہا (یعنی خوراک کی کمی پوری کرتا رہا) اور اپنے پیٹ کی سلوٹیں ختم کرتا رہا۔ مجھے بھوک کی وجہ سے ہونے والی لاغری محسوس نہیں ہوئی۔ (دن گزرتے رہے اور) ایک دن مکہ میں چاندنی رات اور صاف فضا تھی، اچانک ان کے کانوں میں یہ آواز پڑی کہ کوئی بھی بیت اللہ کا طواف نہ کرے اور دو عورتیں اساف اور نائلہ کو پکار رہی تھیں۔ اس نے کہا: وہ طواف کے دوران میرے پاس سے گزریں، میں نے کہا: ایک کی دوسری سے شادی کر دو۔ لیکن وہ اپنے قول سے باز نہ آئیں۔ (چکر کے دوران پھر) میرے پاس سے گزریں۔ میں نے کہا: یہ تو لکڑی کی طرح ہیں اور میں نے بات کنایتہً نہیں کی۔ وہ دونوں چیختی چلاتی چلتی گئیں اور یہ کہتی گئیں کہ کاش ہماری جماعت کا بھی کوئی آدمی یہاں ہوتا! اس نے کہا: اسی اثناء میں ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر (بلندی سے) اترتے ہوئے آ رہے تھے۔ انہوں نے کہا تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ انہوں نے کہا کعبہ اور اس کے پردوں کے درمیان بےدین ہے۔ انہوں نے کہا: اس نے تمہیں کیا کہا؟ انہوں کہا: ایسی بات کہی کہ جس سے منہ بھر جاتا ہے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور حجر اسود کا استلام کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی نے بیت اللہ کا طواف اور پھر نماز پڑھی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو ابوذر نے کہا: میں پہلا آدمی تھا جس نے انہیں اسلام کا سلام پیش کیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ پر سلامتی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وعلیک ورحمۃ اللہ“ پھر فرمایا: ”آپ کون ہیں؟“ میں نے کہا: میں غفار قبیلے سے ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ جھکایا اور اپنی انگلی اپنی پیشانی پر رکھی۔ میں دل ہی دل میں کہنے لگا کہ شاید آپ نے غفار کی طرف میری نسبت کو ناپسند کیا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑنا چاہا لیکن آپ کے ساتھی نے مجھے روک دیا اور وہ آپ کو مجھ سے زیادہ جانتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا: کون تجھے کھانا کھلاتا تھا؟ میں نے کہا: زمزم کے پانی کے علاوہ میرے پاس کوئی کھانا نہیں ہے، یہی پانی پی کر میں موٹا ہوتا رہا اور اپنے پیٹ کی سلوٹیں پر کرتا رہا اور مجھے بھوک کی وجہ سے کوئی لاغری محسوس نہیں ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ پانی مبارک ہے اور یہ کھانے کا کھانا ہے۔“ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں، آج رات میں اس کو کھانا کھلاؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ چل پڑے اور میں بھی ان کے ساتھ چل دیا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دروازہ کھولا اور طائف کا منقیٰ لانا شروع کیا۔ یہ پہلا کھانا تھا جو میں نے کھایا، پھر کچھ باقی بھی بچ گیا تھا۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی کھجوروں والی زمین میرے لیے مطیع کر دی گئی ہے، مجھے لگتا ہے کہ وہ یثرب (مدینہ) ہے، کیا تو اپنی قوم کو میرا پیغام دے گا، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تیرے ذریعے ان کو نفع دے اور ان کی وجہ سے تجھے اجر و ثواب بھی عطا کرے۔ میں انیس کے پاس پہنچا۔ اس نے پوچھا: تو نے کیا کیا ہے؟ میں نے کہا: اسلام قبول کر لیا ہے اور تصدیق کی ہے۔ اس نے کہا: میں بھی تیرے دین سے بے رغبتی نہیں کرتا، میں بھی مطیع ہو گیا ہوں اور میں نے بھی تصدیق کی ہے ہم دونوں اپنی ماں کے پاس گئے تو کہنے لگی مجھے بھی تمہارے دین سے بے رغبتی نہیں میں بھی مسلمان و مطیع ہو گئی۔ ہم سوار ہوئے اور اپنی قوم غفار کے پاس پہنچ گئے۔ نصف قبیلہ تو مسلمان ہو گیا۔ ایماء بن رحضہ غفاری، جو ان کا سردار تھا، ان کو نماز پڑھاتا تھا۔ اور نصف قبیلے نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائیں گے تو ہم بھی مسلمان ہو جائیں گے۔ پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہ نصف قبیلہ کے لوگ بھی مسلمان ہو گئے۔ اسلم قبیلہ کے لوگ آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! جس چیز پر ہمارے بھائی مسلمان ہوئے، ہم بھی اسی چیز پر مسلمان ہوتے ہیں۔ پھر وہ مسلمان ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غفار قبیلہ، اللہ اس کو بخش دے اور اسلم قبیلہ، اللہ اسے سلامتی کے ساتھ رکھے۔“
रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “(ज़मज़म का पानी) मुबारक है, यह खाने का खाना है।” यह हदीस हज़रत अबु ज़र, हज़रत अब्दुल्लाह बिन अब्बास रज़ि अल्लाह अन्हुम से रिवायत है। यह हज़रत अबु ज़र रज़ि अल्लाहु अन्ह की हदीस है, वह कहते हैं कि हम अपनी क़ौम ग़िफ़ार, जो हुर्मत वाले महीने को हलाल समझते थे, एक साथ निकले। मैं (अबु ज़र), मेरा भाई उनेस और मेरी मां रवाना हुए, हम अपने मामा के पास आकर ठहरे। उन्हों ने हमारी बड़ी इज़्ज़त की और हमारे साथ अच्छा व्यवहार किया लेकिन उनकी क़ौम हमसे हसद (जलन) करने लगी। इस लिये उन्हों ने कहा जब तू अपने परिवार से बाहर जाता है तो उनेस उनके पास आजाता है। बस हमारा मामा आया और जो बात उस से कही गई, उसके बार में हमारी ग़ीबत (चुग़ली) करने लग गया। मैं ने उस से कहा जो तू ने हमारे साथ नेकी की थी, उसे तो तू ने गंदा कर दिया है और अब हम आप के पास नहीं आएंगे। हम अपनी ऊंटनियों पर सवार होकर चल पड़े, मेरे मामा ने कपड़ा ओढ़कर रोना शुरू करदिया। हम चलते गए और मक्का के क़रीब जाकर पड़ाव डाला। उनेस हमारी ऊंटनियों से दूर रहने लग गया। वे दोनों ज्योतिषी के पास गए, उस ने उनेस को चुन लिया, बस उनेस हमारी जितनी ही और ऊंटनियां लेकर हमारे पास आया। उस ने कहा ऐ मेरे भतीजे मैं तो रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम को मिलने से तीन वर्षों पहले से नमाज़ पढ़ रहा था। मैं ने कहा किस के लिये ? उस ने कहा अल्लाह तआला के लिये। मैं ने कहा तू किस ओर मुंह करता था। उस ने कहा जिस ओर मेरा रब्ब मेरा मुंह मोड़ देता था। मैं रात के अंतिम समय में ईशा की नमाज़ पढ़ा करता था। अब मैं चुप होकर लेट गया, यहाँ तक कि सूर्य चढ़ आया। उनेस ने कहा मुझे मक्का में कोई काम है, तू यहां देखभाल कर। उनेस चला गया, मक्का पहुंच गया और मुझे अच्छाई का बदला बुराई से दिया। फिर वह वापस आगया। मैं ने पूछा कि तू ने वहां क्या किया है ? उस ने कहा कि मैं मक्का में एक ऐसे आदमी को मिला हूँ जो तेरे दीन पर है, वह कहता है कि अल्लाह तआला ने उसे भेजा है। मैं ने कहा लोग उसके बारे में क्या कहते हैं ? उस ने कहा लोग उसे कवि, ज्योतिषी और जादूगर कहते हैं। उनेस ख़ुद भी एक कवि था। उस ने कहा, लेकिन मैं ने ज्योतिषियों की कविताएं सुनी हैं और उसके शब्दों को अच्छी भाषा जानने वाले लोगों के शब्दों पर रखा गया है, लेकिन कोई यह फ़ैसला नहीं कर सकता है कि वह (मुहम्मद सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के शब्द) कविता हैं। अल्लाह की क़सम वह सच्चा है और लोग झूठे हैं। मैं ने कहा अब तू यहां देखभाल कर, ताकि मैं भी जाकर देख सकूं (कि असल बात क्या है) मैं मक्का पहुंच गया और उन में से एक कमज़ोर आदमी से पूछा वह आदमी कहाँ है जिस को तुम लोग बे-दीन कहते हो ? उस ने मेरी ओर इशारा करते हुए कहा यह बे-दीन है (यह सुनते ही) घाटी के लोग मिट्टी के ढेले और हड्डियां लेकर मुझ पर चढ़ दौड़े मैं बेहोश होकर गिर पड़ा, जब (मुझे होश आया) मैं उठा तो ऐसे लगता था कि मैं एक लाल पत्थर हूँ। मैं ज़मज़म पानी पर आया, ख़ून धोया, उस का पानी पिया और ऐ मेरे भतीजे मैं वहां तीस दिनों तक ठहरा रहा, मेरे पास ज़मज़म के पानी के सिवा कोई खाना नहीं था, वही पीकर में मोटा होता रहा (यानी खाने की कमी पूरी करता रहा) और अपने पेट की सलवटें ख़त्म करता रहा। मुझे भूक के कारण होने वाली कमज़ोरी महसूस नहीं हुई। (दिन गुज़रते रहे और) एक दिन मक्का में चांदनी रात और साफ़ हवा थी ‘ अचानक कानों में यह आवाज़ पड़ी कि कोई भी बेतुल्लाह का तवाफ़ न करे और दो औरतें इसाफ़ और नाइलह को पुकार रही थीं। उस ने कहा वे तवाफ़ करते समय मेरे पास से ग़ुज़रीं, मैं ने कहा एक की दूसरी से शादी करदो। लेकिन वह अपने कहने से न रुकीं। (चक्कर के बीच फिर) मेरे पास से ग़ुज़रीं। मैं ने कहा यह तो लकड़ी की तरह हैं और मैं ने बात छिपा कर नहीं की। वह दोनों चीख़ती चिल्लाती और यह कहती हुई चली गईं कि काश हमारे समूह का भी कोई आदमी यहाँ होता। उस ने कहा इसी बीच में उनके सामने रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम और अबु बक्र रज़ि अल्लाहु अन्ह (ऊंचाई से) उतरते हुए आरहे थे। उन्हों ने कहा तुम्हें किया हो गया है ? तो उन्हों ने कहा कअबा और उसके पर्दों के बीच बे-दीन है। उन्हों ने कहा उस ने तुम्हें क्या कहा ? उन्हों ने कहा ऐसी बात कही कि जिस से मुंह भर जाता है। इतने में रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम आए और हजर अस्वद का अस्तिलाम किया और आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम और आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के साथी ने बेतुल्लाह का तवाफ़ किया और फिर नमाज़ पढ़ी। जब नमाज़ पढ़ चुके तो अबु ज़र ने कहा ! मैं पहला आदमी था जिस ने उन्हें इस्लाम का सलाम किया और कहा कि ऐ अल्लाह के रसूल आप पर सलामती हो। आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! ’’ « وَعَلَیْکَ وَرَحْمَةُ اللہ » ” फिर फ़रमाया ! ’’ तुम कौन हो ?” मैं ने कहा कि मैं ग़िफ़ार क़बीले से हूँ। फिर आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने अपना हाथ झुकाया और अपनी ऊँगली अपनी माथे पर रखी। मैं दिल ही दिल में कहने लगा कि शायद आप ने मेरा ग़िफ़ार से संबंध होने को ना-पसंद किया। मैं ने आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम का हाथ पकड़ना चाहा लेकिन आपके साथी ने मुझे रोक दिया और वह आप को मुझ से अधिक जानता था। फिर आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने अपना सिर उठाया और पूछा ! “कौन तुझे खाना खिलता था ?” मैं ने कहा कि ज़मज़म के पानी के सिवा मेरे पास कोई खाना नहीं है, यही पानी पीकर मैं मोटा होता रहा और अपने पेट की सलवटें भरता रहा और मुझे भूक के कारण कोई कमज़ोरी महसूस नहीं हुई। आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “यह पानी मुबारक है और यह खाने का खाना है।” हज़रत अबु बक्र रज़ि अल्लाहु अन्ह ने कहा ऐ अल्लाह के रसूल मुझे अनुमति दें आज रात में इस को खाना खिलाऊं गा। रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम और अबु बक्र रज़ि अल्लाहु अन्ह चल पड़े और मैं भी उनके साथ चल दिया। हज़रत अबु बक्र रज़ि अल्लाहु अन्ह ने दरवाज़ा खोला और ताइफ़ का मुनक़्क़ा लाना शुरू किया। यह पहला खाना था जो मैं ने खाया फिर कुछ बाक़ी भी बच गया था। फिर मैं रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के पास आया और आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “कोई खजूरों वाली ज़मीन मुझे सौंपी गई है, मुझे लगता है कि वह यसरब (मदीना) है, क्या तू अपनी क़ौम को मेरा संदेश पहुंचा देगा, संभव है कि अल्लाह तआला तेरे माध्यम से उनको लाभ दे और उनके कारण तुझे बदला और सवाब भी दे।” मैं उनेस के पास पहुंचा। उस ने पूछा तू ने क्या किया है ? मैं ने कहा इस्लाम स्वीकार कर लिया है और सच मान लिया है। उस ने कहा मैं भी तेरे दीन से मुंह नहीं मोड़ता, मैं भी स्वीकार करता हूँ और मैं ने भी सच्च मान लिया है। फिर हम अपनी मां के पास गए वह कहने लगीं मैं भी तेरे दीन से मुंह नहीं मोड़ती, मैं भी सच्च मान कर मुसलमान होगई। हम सवार हुए और अपनी क़ौम ग़िफ़ार के पास पहुंच गए। आधा क़बीला तो मुसलमान हो गया। एमाअ बिन रहज़ह ग़िफ़ारी जो उनका सरदार था उनको नमाज़ पढ़ाता था। और आधे क़बीले ने कहा जब रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम मदीने आएंगे तो हम भी मुसलमान हो जाएंगे। बस जब रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम मदीना आए तो वह आधे क़बीले के लोग भी मुसलमान होगए। असलम क़बीले के लोग आए और कहा ऐ अल्लाह के रसूल जिस चीज़ पर हमारे भाई मुसलमान हुए, हम भी उसी चीज़ पर मुसलमान होते हैं। फिर वे मुसलमान हो गए और रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “ग़िफ़ार क़बीला, अल्लाह उसको क्षमा करदे और असलम क़बीला, अल्लाह उसे सलामती (सुरक्षा) के साथ रखे।”
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 3585
قال الشيخ الألباني: - (إنها مباركة، إنها طعامُ طُعْمٍ) . _____________________ جاء من حديث أبي ذر، وابن عباس: أولاً: حديث أبي ذر، وله عنه طريقان: الأول: عن عبد الله بن الصامت: رواه مسلم (3/152- 155) من طريق حميد بن هلال عن عبد الله بن الصامت عن أبي ذر قال: خرجنا من قومنا غفار- وكانوا يحلون الشهر الحرام-، فخرجت أنا وأخي أنيس وأمنا، فنزلنا على خال لنا، فأكرمنا خالنا، وأحسن إلينا، فحسدنا قومه، فقالوا: إنك إذا خرجت عن أهلك خالف إليهم أنيس، فجاء خالنا، فنثا علينا الذي قيل له، فقلت: أمّا ما مضى من معروفك فقد كدَّرته، ولا جماع لك فيما بعد، فقربنا صرمتنا فاحتملنا عليها، وتغطى خالنا ثوبه، فجعل يبكي، فانطلقنا حتى نزلنا بحضرة مكة، فنافر أنيس عن صرمتنا وعن مثلها، فأتيا الكاهن، فخير أنيساً، فأتانا أنيس بصرمتنا ومثلها معها، قال: وقد صليت يا ابن أخي! قبل أن ألقى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بثلاث سنين، قلت: لمن؟ قال: لله، قلت: فأين توجه؟ قال: أتوجه حيث يوجهني ربي، أصلي عشاء حتى إذا كان من آخر الليل، ألقيت كأني خفاء حتى تعلوني الشمس، فقال أنيس: إن لي حاجة بمكة فاكفني، فانطلق أنيس، حتى أتى مكة، فراث علي، ثم جاء، فقلت: ما صنعت؟ قال: لقيت رجلاً بمكة على دينك، يزعم أن الله أرسله، قلت: فما يقول الناس؟ قال: يقولون: شاعر، كاهن، ساحر، وكان أنيس أحد الشعراء، قال أنيس: لقد سمعت قول __________جزء : 7 /صفحہ : 1558__________ الكهنة، فما هو بقولهم، ولقد وضعت قوله على أقراء الشعر، فما يلتئم على لسان أحد بعدي أنه شعر، والله! إنه لصادق، وإنهم لكاذبون، قال: قلت: فاكفني حتى أذهب فأنظر، قال: فأتيت مكة، فتضعّفت رجلاً منهم، فقلت: أين هذا الذي تدعونه الصابىء؟ فأشار إلي، فقال: الصابىء؟! فمال على أهل الوادي بكل مدرة وعظم حتى خررت مغشياً علي، قال: فارتفعت حين ارتفعت كأني نصب أحمر، قال: فأتيت زمزم، فغسلت عني الدماء، وشربت من مائها، ولقد لبثت- يا ابن أخي- ثلاثين بين ليلة ويوم، ما كان لي طعام إلا ماء زمزم، فسمنت حتى تكسرت عُكَن بطني، وما وجدت على كبدي سخفة جوع، قال: فبينا أهل مكة في ليلة قمراء إضحيان؛ إذ ضرب على أسمختهم، فما يطوف بالبيت أحد، وامرأتان منهم تدعوان إسافاً ونائلة، قال: فأتتا علي في طوافهما، فقلت: أنكحا أحدهما الأخرى، قال: فما تناهتا عن قولهما، قال: فأتتا علي، فقلت هن مثل الخشبة، غير أني لا أكني، فانطلقتا تولولان وتقولان: لو كان هاهنا أحد من أنفارنا! قال: فاستقبلهما رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وأبو بكر وهما هابطان، قال: "ما لكما؟ "، قالتا: الصابىء بين الكعبة وأستارها، قال: "ما قال لكما؟ "، قالتا: إنه قال لنا كلمة تملأ الفم، وجاء رسول الله - صلى الله عليه وسلم - حتى استلم الحجر، وطاف بالبيت هو وصاحبه، ثم صلى، فلما قضى صلاته قال أبو ذر: فكنت أنا أول من حياه بتحية الإسلام، قال: فقلت: السلام عليك يا رسول الله! فقال: "وعليك ورحمة الله "، ثم قال: "من أنت؟ "، قال: قلت: من غفار، قال: فأهوى بيده، فوضع أصابعه على جبهته، فقلت في نفسي: كره أن انتميت إلى غفار؟! فذهبت آخذ بيده، فَقَدَعَنِي صاحبه- وكان أعلم به مني- ثم رفع رأسه، ثم قال: "متى كنت هاهنا؟ "، قال: قلت: قد كنت هاهنا منذ ثلاثين بين ليلة ويوم، قال: "فمن كان يطعمك؟ "، __________جزء : 7 /صفحہ : 1559__________ قال: قلت: ما كان لي طعام إلا ماء زمزم، فسمنت حتى تكسرت عُكن بطني، وما أجد على كبدي سُخفة جوع، قال: ... فذكره. فقال أبو بكر: يا رسول الله! ائذن لي في طعامه الليلة؟! فانطلق رسول الله- صلى الله عليه وسلم - وابوبكر، وانطلقت معهما، ففتح أبوبكر باباً، فجعل يقبض لنا من زبيب. الطائف، وكان ذلك أول طعام أكلته بها، ثم غَبَرْتُ ما غَبَرْتُ، ثم أتيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال: "إنه قد وجهت لي أرض ذات نخل، لا أراها إلا يثرب؛ فهل أنت مُبَلِّغٌ عني قومك، عسى الله أن ينفعهم بك وبأجرك فيهم ". فأتيت أنيساً، فقال: ما صنعت؟ قلت: صنعت أني قد أسلمت وصدقت، قال: ما بي رغبة عن دينك؛ فإني قد أسلمت وصدقت، فأتينا أمَّنا فقالت: ما بي رغبة عن دينكما، فإني قد أسلمت وصدقت، فاحتملنا حتى أتينا قومنا غفاراً، فأسلم نصفهم، وكان يؤمهم إيماء بن رحضة الغفاري، وكان سيدهم، وقال نصفهم: إذا قدم رسول الله - صلى الله عليه وسلم - المدينة أسلمنا، فقدم رسول الله - صلى الله عليه وسلم - المدينة، فأسلم نصفهم الباقي، وجاءت أسلم، فقالوا: يا رسول الله! إخوتنا؛ نسلم على الذي أسلموا عليه! فأسلموا، فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "غفار غفر الله لها، وأسلم سالمهاالله". وقد رواه عن حميد جماعة- مطولاً ومختصراً-: أولهم: خالد الحذاء: وهي رواية مسلم- المتقدمة-. ورواه أيضاً البزار في "مسنده " (1171) بلفظ: "زمزم: طعام طعم، وشفاء سقم "، والفاكهي في "أخبار مكة" (1080) بلفظ: "إنهاطعام طعم، وشفاء سقم ". __________جزء : 7 /صفحہ : 1560__________ الثاني: سليمان بن المغيرة: رواه ابن أبي شيبة (18447) بلفظ: "إنها مباركة؛ إنها طعام طعم "، وابن حبان (7133) ، وأحمد (4/174-175و175) من طريقين عن سليمان بن المغيرة - ولم يسق متنه في الموضع الثاني-، والطيالسي (61) ، وابن سعد في "الطبقات الكبرى" (4/219- 222) ، والفاكهي في "أخبار مكة " (1081) - وعزا المتن دون إيراده لما قبله، وقال: وزاد فيه: "إنها مباركة "، والبيهقي في "الدلائل " (2/ 211) و"السنن " (5/147) بلفظ: "إنها مباركة؛ إنها طعام طعم، وشفاء سقم "، وأبو نعيم في "الدلائل " (ص 207- 210) - دون قوله: "وشفاء سقم "، وفي "الحلية" (1/157 و 159) مختصراً جذاً، ولم يسق حديث الترجمة. الثالث: ابن عون: رواه الأزرقي في "تاريخ مكة " (2/53) بلفظ: "إنها طعام طعم "، والبزار (1172) - ولم يسق لفظه-، والفاكهي (1082) - ولم يسق لفظه-، وابن عدي في "الكامل " (6/ 2301) بلفظ: "زمزم طعام طعم، وشفاء سقم ". الرابع: عبد الله بن بكر المزني: رواه الطبراني في "المعجم الصغير" (947- " الروض النضير") بلفظ: "إنها مباركة؛ إنها طعام طعم، وشفاء سقم ". الخامس: أبو هلال الراسبي: رواه أبو نعيم في "الحلية" (1/157- 159) مختصراً جذاً، وليس فيه حديث الترجمة. __________جزء : 7 /صفحہ : 1561__________ السادس: عبد العزيز بن المختار: رواه الطبراني في "المعجم الكبير" (1640) بلفظ: "إنها مباركة؛ إنها طعام طعم ". السابع: عمرو بن مرة: رواه الطبراني في "الكبير" (1639) - ولم يسق لفظه-. قلت: وقد شذت رواية الطحاوي في "مشكل الآثار" (1863) عن رواية الجماعة المذكورين عن حميد، فجاءت عنده من طريق الطيالسي عن سليمان بن المغيرة (عن أبي عمران الجوني) عن عبد الله به! وقد أورد الحافظ الحديث في "المطالب العالية " (1404- النسخة المسندة) عاطفاً إسناده على إسناد ابن أبي شيبة من طريق سليمان بن المغيرة على الجادة. وقال البوصيري في "إتحاف الخيرة المهرة" (3524- المسندة) : "إسناده صحيح ". أما الطريق الثاني عن أبي ذر؛ فهو من طريق أبي ليلى الأشعري عنه: وهو في "معجم الطبراني الكبير" (773) و"الأحاديث الطوال " (رقم: 5) له، وعنه: أبو نعيم في "الحلية" (1/157- 158) ، والحاكم (3/ 341) ، وسكت عنه! وقال الذهبي في "التلخيص ": "إسناده صالح ". وأما حديث ابن عباس؛ فقد رواه الطبراني وغيره بلفظ: "خير ماء على وجه الأرض ماء زمزم؛ فيه طعام من الطعم، وشفاء من السقم ". وهو مخرج فيما تقدم من هذه "السلسلة" (برقم 1065) . * __________جزء : 7 /صفحہ : 1562__________ ¤