- (يدخل من هذا الباب رجل من خير ذي يمن، على وجهه مسحة ملك. فدخل جرير).- (يَدخُلُ مِن هذا البابِ رجلٌ مِن خيرِ ذي يَمَنٍ، على وجههِ مَسحَةُ ملكٍ. فدخلَ جريرٌ).
قیس کہتے ہیں کہ سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے اسلام لانے کے بعد جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا، آپ مسکرا پڑے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مو قع پر فرمایا: ”اس دروازے سے یمن کا سب سے بہترین آدمی داخل ہو گا، اس کے چہرے پر بادشاہ کا نشان ہو گا۔“ اتنے میں سیدنا جریر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے۔
سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: احد والے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو زرہیں زیب تن کر رکھی تھیں، آپ نے ایک چٹان پر چڑھنا چاہا لیکن اتنی استطاعت نہیں ر ہی تھی۔ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نیچے بیٹھ گئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر قدم رکھا اور چٹان پر چڑھ گئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”طلحہ نے (اپنے حق میں جنت کو) واجب کر لیا ہے۔“
-" من سره ان ينظر إلى شهيد يمشي على وجه الارض فلينظر إلى طلحة بن عبيد الله".-" من سره أن ينظر إلى شهيد يمشي على وجه الأرض فلينظر إلى طلحة بن عبيد الله".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جو آدمی روئے زمین پر چلتے ہوئے شہید کو دیکھ کر خوش ہوتا ہو، وہ طلحہ بن عبیداللہ کو دیکھ لے۔“
-" من سره ان ينظر إلى رجل يمشي على الارض وقد قضى نحبه فلينظر إلى طلحة".-" من سره أن ينظر إلى رجل يمشي على الأرض وقد قضى نحبه فلينظر إلى طلحة".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں اپنے حجرے میں تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ صحن میں تشریف فرما تھے، میرے اور ان کے درمیان ایک پردہ تھا۔ سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ آپ کی طرف آ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کو یہ بات خوش کرتی ہے کہ وہ ایسے آدمی کو دیکھے جو اپنی نذر (باری) پوری کر کے زمین پر چل رہا ہو، وہ طلحہ کی طرف دیکھ لے۔“
-" لو قلت: (بسم الله)، لطارت بك الملائكة والناس ينظرون إليك".-" لو قلت: (بسم الله)، لطارت بك الملائكة والناس ينظرون إليك".
موسیٰ بن طلحہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ غزوہ احد والے دن مجھے ایک تیر لگا۔ میں نے کہا: «حس» ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم «بسم الله» کہتے تو فرشتے تجھے لے کر اڑ جاتے اور لوگ دیکھ رہے ہوتے۔“
-" الاخوات الاربع: ميمونة وام الفضل وسلمى واسماء بنت عميس - اختهن لامهن - مؤمنات".-" الأخوات الأربع: ميمونة وأم الفضل وسلمى وأسماء بنت عميس - أختهن لأمهن - مؤمنات".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ چار بہنیں مومنہ ہیں: میمونہ، ام الفضل، سلمیٰ، اسما بنت عمیس۔ مؤخر الذکر، اول الذکر تینوں کی اخیافی (یعنی ماں کی طرف سے) بہن ہے۔“
-" بعثني إلى [قومي] (باهلة)، [فانتهيت إليهم وانا طاو]، فاتيت وهم على الطعام، (وفي رواية: ياكلون دما)، فرجعوا بي واكرموني، [قالوا: مرحبا بالصدي بن عجلان، قالوا: بلغنا انك صبوت إلى هذا الرجل. قلت: لا ولكن آمنت بالله وبرسوله، وبعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إليكم اعرض عليكم الإسلام وشرائعه] وقالوا: تعال كل. فقلت: [ويحكم إنما] جئت لانهاكم عن هذا، وانا رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم اتيتكم لتؤمنوا به، [فجعلت ادعوهم إلى الإسلام]، فكذبوني وزبروني، [فقلت لهم: ويحكم ائتوني بشيء من ماء فإني شديد العطش. قال: وعلي عمامتي، قالوا: لا ولكن ندعك تموت عطشا!]، فانطلقت وانا جائع ظمآن قد نزل بي جهد شديد. [قال: فاغتممت، وضربت راسي في العمامة] فنمت [في الرمضاء في حر شديد] فاتيت في منامي بشربة من لبن [لم ير الناس الذ منه، فامكنني منها]، فشربت ورويت وعظم بطني. فقال القوم: اتاكم رجل من خياركم واشرافكم فرددتموه، فاذهبوا إليه فاطعموه من الطعام والشراب ما يشتهي. فاتوني بطعام! قلت: لا حاجة لي في طعامكم وشرابكم، فإن الله قد اطعمني وسقاني، فانظروا إلى الحال التي انا عليها، [فاريتهم بطني]، فنظروا، فآمنوا بي وبما جئت به من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، [فاسلموا عن آخرهم]".-" بعثني إلى [قومي] (باهلة)، [فانتهيت إليهم وأنا طاو]، فأتيت وهم على الطعام، (وفي رواية: يأكلون دما)، فرجعوا بي وأكرموني، [قالوا: مرحبا بالصدي بن عجلان، قالوا: بلغنا أنك صبوت إلى هذا الرجل. قلت: لا ولكن آمنت بالله وبرسوله، وبعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إليكم أعرض عليكم الإسلام وشرائعه] وقالوا: تعال كل. فقلت: [ويحكم إنما] جئت لأنهاكم عن هذا، وأنا رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم أتيتكم لتؤمنوا به، [فجعلت أدعوهم إلى الإسلام]، فكذبوني وزبروني، [فقلت لهم: ويحكم ائتوني بشيء من ماء فإني شديد العطش. قال: وعلي عمامتي، قالوا: لا ولكن ندعك تموت عطشا!]، فانطلقت وأنا جائع ظمآن قد نزل بي جهد شديد. [قال: فاغتممت، وضربت رأسي في العمامة] فنمت [في الرمضاء في حر شديد] فأتيت في منامي بشربة من لبن [لم ير الناس ألذ منه، فأمكنني منها]، فشربت ورويت وعظم بطني. فقال القوم: أتاكم رجل من خياركم وأشرافكم فرددتموه، فاذهبوا إليه فأطعموه من الطعام والشراب ما يشتهي. فأتوني بطعام! قلت: لا حاجة لي في طعامكم وشرابكم، فإن الله قد أطعمني وسقاني، فانظروا إلى الحال التي أنا عليها، [فأريتهم بطني]، فنظروا، فآمنوا بي وبما جئت به من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، [فأسلموا عن آخرهم]".
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے میری قوم ”باہلہ“ کی طرف ( بحیثیت مبلغ) بھیجا، جب میں ان کے پاس پہنچا تو بھوکا تھا اور وہ اس وقت کھانا کھا رہے تھے، (ایک روایت میں ہے کہ خون کھا رہے تھے)۔ وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور میری عزت و آبرو کی، انہوں نے کہا: صدی بن عجلان کو خوش آمدید۔ انہوں نے کہا: ہمیں یہ خبر موصول ہوئی ہے کہ تم اس آدمی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف مائل ہو گئے ہو (کیا بات اسی طرح ہے)؟ میں نے کہا: نہیں نہیں۔ میں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لایا ہوں اور اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ( قاصد بنا کر) بھیجا ہے تاکہ تم پر اسلام اور اس کے شرعی قوانین پیش کروں۔ انہوں نے کہا: آؤ کھانا کھاؤ۔ میں نے کہا: تمہارا ستیاناس ہو، میں تو تمہیں اس (قسم کے کھانوں سے) منع کرنے کے لیے آیا ہوں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہوں، میں تمہارے پاس آیا ہوں تاکہ تم لوگ مومن بن جاؤ۔ میں انہیں دعوت اسلام دیتا رہا اور وہ مجھے جھٹلاتے اور جھڑکتے رہے۔ میں نے انہیں کہا: تمہارا ناس ہو، میں سخت پیاسا ہوں، پانی تو پلاؤ، اس وقت میرے پاس ایک پگڑی بھی رکھی ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا: نہیں۔ ہم تجھے یوں ہی چھوڑے رکھیں گے، حتیٰ کہ تو مر جائے گا۔ میں سخت بھوک اور پیاس کی حالت میں وہاں سے چل دیا، میں اس وقت بری طرح تھک ہار چکا تھا اور دم گھٹ رہا تھا، میں نے اپنا سر پگڑی میں دیا اور گرمی کی شدت میں تپتی ہوئی زمین پر سو گیا، خواب میں میرے پاس دودھ لایا گیا (اور اتنا لذیذ کہ) لوگوں نے اس جیسا لذت والا دودھ نہیں دیکھا ہو گا، مجھے اس کو پینے کا موقع دیا گیا، میں نے پیا اور سیراب ہو گیا اور میرا پیٹ بڑا ہو گیا۔ لوگوں نے کہا: تمہارے پاس ایک اعلی و اشرف آدمی آیا تھا، لیکن تم نے (اس کی کوئی عزت نہیں کی) اور اسے دھتکار دیا، جاؤ اور اسے اس کی چاہت کے مطابق کھانا کھلاؤ اور مشروب پلاؤ۔ وہ میرے پاس کھانا لائے، لیکن میں نے کہا: مجھے تمہارے کھانے پینے کی کوئی ضرورت نہیں، اللہ تعالیٰ نے مجھے کھلایا بھی ہے اور پلایا بھی ہے۔ یہ میرا وجود دیکھ لو۔ پھر میں نے ان کو اپنا (سیر و سیراب) پیٹ دکھایا، جب انہوں نے یہ (کرامت) صورتحال دیکھی تو وہ مجھ پر اور جو کچھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لایا تھا، اس پر ایمان لے آئے اور سارے کے سارے مسلمان ہو گئے۔
-" كان اصحابه صلى الله عليه وسلم يتناشدون الشعر، ويتذاكرون اشياء من امر الجاهلية، وهو ساكت، فربما تبسم معهم".-" كان أصحابه صلى الله عليه وسلم يتناشدون الشعر، ويتذاكرون أشياء من أمر الجاهلية، وهو ساكت، فربما تبسم معهم".
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سو سے زیادہ دفعہ مجلس کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں صحابہ اشعار پڑھتے تھے اور جاہلیت والے امور کا تذکرہ کرتے تھے، آپ خاموش بیٹھے رہتے یا بسا اوقات مسکرا دیتے تھے۔
-" خذو القرآن من اربعة من ابن مسعود وابي بن كعب ومعاذ بن جبل وسالم مولى ابى حذيفة".-" خذو القرآن من أربعة من ابن مسعود وأبي بن كعب ومعاذ بن جبل وسالم مولى أبى حذيفة".
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن مجید کی تعلیم ان چار افراد سے حاصل کرو: عبداللہ بن مسعود، ابی بن کعب، معاذ بن جبل اور مولائے ابوحذیفہ سالم۔“
- (هذا سالم مولى ابي حذيفة، الحمد لله الذي جعل في امتي مثل هذا).- (هذا سالم مولى أبي حذيفة، الحمد لله الذي جعل في أمتي مثل هذا).
زوجہ رسول عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے عہد رسول میں عشاء کے بعد گھر پہنچنے میں تاخیر ہو گئی، جب میں آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم کہاں تھی؟“ میں نے کہا: میں ایک صحابی کی (مسحورکن) تلاوت سنتی رہی، اس قسم کی (حسین) قرأت اور آواز اس نے پہلے کسی سے نہیں سنی۔ آپ میری بات سن کر اٹھے اور چل پڑے، میں بھی آپ کے ساتھ چل دی، آپ نے اسی آدمی کی تلاوت غور سے سنی اور میری طرف متوجہ ہو کر کہا:“ یہ ابوحذیفہ کا غلام سالم ہے، ساری تعریف اس اللہ کی ہے جس نے میری امت میں اس قسم کے افراد بھی پیدا کئے ہیں۔“