-" إذا مررتم باليهود... فلا تسلموا عليهم وإذا سلموا عليكم فقولوا: وعليكم".-" إذا مررتم باليهود... فلا تسلموا عليهم وإذا سلموا عليكم فقولوا: وعليكم".
سیدنا ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم یہودیوں کے پاس سے گزرو تو انہیں سلام نہ کہو اور اگر وہ تمہیں سلام کہیں تو جواب میں صرف «وعليكم»”اور تم پر بھی ہو“ کہو۔“
-" كان ناس ياتون رسول الله صلى الله عليه وسلم من اليهود، فيقولون السام عليك! فيقول: وعليكم. ففطنت بهم عائشة فسبتهم، (وفي رواية: قالت عائشة: بل عليكم السام والذام) فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مه يا عائشة! [لا تكوني فاحشة] فإن الله لا يحب الفحش ولا التفحش. قالت: فقلت: يا رسول الله إنهم يقولون كذا وكذا. فقال: اليس قد رددت عليهم؟ فانزل الله عز وجل: * (وإذا جاؤك حيوك بما لم يحيك به الله) * إلى آخر الآية".-" كان ناس يأتون رسول الله صلى الله عليه وسلم من اليهود، فيقولون السام عليك! فيقول: وعليكم. ففطنت بهم عائشة فسبتهم، (وفي رواية: قالت عائشة: بل عليكم السام والذام) فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مه يا عائشة! [لا تكوني فاحشة] فإن الله لا يحب الفحش ولا التفحش. قالت: فقلت: يا رسول الله إنهم يقولون كذا وكذا. فقال: أليس قد رددت عليهم؟ فأنزل الله عز وجل: * (وإذا جاؤك حيوك بما لم يحيك به الله) * إلى آخر الآية".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: یہودی لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر ( «السلام عليكم» کی بجائے) «اَلسَّامُ عَلَيكُم»(تم پر ہلاکت اور موت واقع ہو) کہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواباً فرماتے: «وعليكم» اور تم پر بھی ہو۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما ان کی (یہودیوں کی) یہ بات سمجھ گئیں اور انہیں برا بھلا کہا (اور ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے کہا: بلکہ تم پر ہلاکت اور مذمت ہو)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ رہنے دو! ناپسندیدہ باتیں نہ کیا کرو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ بدگوئی اور بدزبانی کو ناپسند کرتا ہے۔“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ تو آپ کو یوں کہہ رہے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں نے ان کو (اچھے انداز میں) جواب دے نہیں دیا۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: «وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ»”اور جب وہ تیرے پاس آتے ہیں تو تجھے ان لفظوں میں سلام کہتے ہیں جن لفظوں میں اللہ تعالیٰ نے نہیں کہا“ آیت کے آخر تک (سورۃ المجادلہ: ۸)
-" رايت ليلة اسري بي رجالا تقرض شفاههم بمقاريض من نار، فقلت: من هؤلاء يا جبريل؟ فقال: الخطباء من امتك، يامرون الناس بالبر وينسون انفسهم، وهم يتلون الكتاب، افلا يعقلون؟!".-" رأيت ليلة أسري بي رجالا تقرض شفاههم بمقاريض من نار، فقلت: من هؤلاء يا جبريل؟ فقال: الخطباء من أمتك، يأمرون الناس بالبر وينسون أنفسهم، وهم يتلون الكتاب، أفلا يعقلون؟!".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک یہودی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور (السلام علیکم کی بجائے) کہا: اے محمد! «اَلسَّامُ عَلَيكُم»(یعنی آپ پر موت اور ہلاکت ہو)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں جواب دیا: ” «وَ عَلَيكَ» اور تجھ پر بھی ہو۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے بات تو کرنا چاہی لیکن مجھے معلوم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناپسند کریں گے، اس لیے میں خاموش رہی۔ دوسرا یہودی آیا اور کہا: «اَلسَّامُ عَلَيكُم»(آپ پر موت ہلاکت پڑے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «وعليك»(اور تجھ پر بھی ہو)۔“ اب کی بار بھی میں نے کچھ کہنا چاہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناپسند کرنے کی وجہ سے (خاموش رہی)۔ پھر تیسرا یہودی آیا اور کہا: «اَلسَّامُ عَلَيكُم» ۔ مجھ سے صبر نہ ہو سکا اور میں یوں بول اٹھی: بندرو اور خنزیرو! تم پر ہلاکت ہو، اللہ کا غضب ہو اور اس کی لعنت ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جس انداز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام نہیں کہا، کیا تم وہ انداز اختیار کرنا چاہتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ بدزبانی اور فحش گوئی کو پسند نہیں کرتا، ان (یہودیوں) نے «اَلسَّامُ عَلَيكُم» کہا اور ہم نے بھی (بدگوئی سے بچتے ہوئے صرف «وعليك»، کہہ کر) جواب دے دیا۔ دراصل یہودی حاسد قوم ہے اور (ہماری کسی) خصلت پر اتنا حسد نہیں کرتے جتنا کہ سلام اور آمین پر کرتے ہیں۔“
-" إذا انتهى احدكم إلى المجلس فإن وسع له فليجلس وإلا فلينظر اوسع مكان يراه فليجلس فيه".-" إذا انتهى أحدكم إلى المجلس فإن وسع له فليجلس وإلا فلينظر أوسع مكان يراه فليجلس فيه".
مصعب بن شیبہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی آدمی مجلس میں پہنچے اور اس کے لیے وسعت پیدا کر دی جائے تو وہ بیٹھ جائے، بصورت دیگر دیکھے کہ کون سی جگہ زیادہ وسیع ہے، وہاں جا کر بیٹھ جائے۔“
- (إذا قام احدكم من مجلسه ثم رجع إليه؛ فهو احق به).- (إذا قامَ أحدُكم من مجلِسه ثمّ رجعَ إليهِ؛ فهو أحقُّ به).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص کسی مجلس سے اٹھے اور پھر واپس آ جائے تو وہی اس جگہ کا زیادہ حقدار ہو گا۔“
-" إذا تناجى اثنان فلا تجلس إليهما حتى تستاذنهما".-" إذا تناجى اثنان فلا تجلس إليهما حتى تستأذنهما".
سعید مقبر ی کہتے ہیں: ایک آدمی، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے گفتگو کر ر ہا تھا، میں بھی وہاں جا کر بیٹھ گیا، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنا ہاتھ میر ے سینے میں مارا اور کہا: کیا تجھے علم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو آدمی علیحدہ گفتگو کر رہے ہوں تو اجازت کے بغیر ان کے پاس مت بیٹھو۔“
-" لا يقوم الرجل للرجل من مجلسه، ولكن افسحوا يفسح الله لكم".-" لا يقوم الرجل للرجل من مجلسه، ولكن افسحوا يفسح الله لكم".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی آدمی کسی کے لیے اپنی نشست سے کھڑا نہ ہو، بلکہ مجلس میں گنجائش پیدا کر لیا کرو، اللہ تعالیٰ تمہارے لیے وسعت پیدا کر دے گا۔“