سلسله احاديث صحيحه
الاداب والاستئذان
آداب اور اجازت طلب کرنا
غیرمسلموں کے سلام یا بددعاؤں کا جواب کیسے دیا جائے؟
حدیث نمبر: 2666
-" رأيت ليلة أسري بي رجالا تقرض شفاههم بمقاريض من نار، فقلت: من هؤلاء يا جبريل؟ فقال: الخطباء من أمتك، يأمرون الناس بالبر وينسون أنفسهم، وهم يتلون الكتاب، أفلا يعقلون؟!".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک یہودی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور (السلام علیکم کی بجائے) کہا: اے محمد! «اَلسَّامُ عَلَيكُم» (یعنی آپ پر موت اور ہلاکت ہو)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں جواب دیا: ” «وَ عَلَيكَ» اور تجھ پر بھی ہو۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے بات تو کرنا چاہی لیکن مجھے معلوم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناپسند کریں گے، اس لیے میں خاموش رہی۔ دوسرا یہودی آیا اور کہا: «اَلسَّامُ عَلَيكُم» (آپ پر موت ہلاکت پڑے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «وعليك» (اور تجھ پر بھی ہو)۔“ اب کی بار بھی میں نے کچھ کہنا چاہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناپسند کرنے کی وجہ سے (خاموش رہی)۔ پھر تیسرا یہودی آیا اور کہا: «اَلسَّامُ عَلَيكُم» ۔ مجھ سے صبر نہ ہو سکا اور میں یوں بول اٹھی: بندرو اور خنزیرو! تم پر ہلاکت ہو، اللہ کا غضب ہو اور اس کی لعنت ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جس انداز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام نہیں کہا، کیا تم وہ انداز اختیار کرنا چاہتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ بدزبانی اور فحش گوئی کو پسند نہیں کرتا، ان (یہودیوں) نے «اَلسَّامُ عَلَيكُم» کہا اور ہم نے بھی (بدگوئی سے بچتے ہوئے صرف «وعليك»، کہہ کر) جواب دے دیا۔ دراصل یہودی حاسد قوم ہے اور (ہماری کسی) خصلت پر اتنا حسد نہیں کرتے جتنا کہ سلام اور آمین پر کرتے ہیں۔“