-" يخرج عنق من النار يوم القيامة لها عينان تبصران واذنان تسمعان ولسان ينطق يقول: إني وكلت بثلاثة: بكل جبار عنيد وبكل من دعا مع الله إلها آخر وبالمصورين".-" يخرج عنق من النار يوم القيامة لها عينان تبصران وأذنان تسمعان ولسان ينطق يقول: إني وكلت بثلاثة: بكل جبار عنيد وبكل من دعا مع الله إلها آخر وبالمصورين".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روز قیامت آگ کی ایک لپٹ نکلے گی، اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھے گی، اس کے دو کان ہوں جن کے ذریعے وہ سنے گی اور ایک زبان ہو گی جس کے ذریعے وہ بولے گی۔ وہ کہے گی: تین قسم کے آدمی میرے سپرد کر دیے گئے ہیں: (۱) سرکش اور متکبر، (۲) جس نے اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو بھی پکارا اور (۳) تصویر بنانے والا۔“
-" يخرج عنق من النار يوم القيامة لها عينان تبصران واذنان تسمعان ولسان ينطق يقول: إني وكلت بثلاثة: بكل جبار عنيد وبكل من دعا مع الله إلها آخر وبالمصورين".-" يخرج عنق من النار يوم القيامة لها عينان تبصران وأذنان تسمعان ولسان ينطق يقول: إني وكلت بثلاثة: بكل جبار عنيد وبكل من دعا مع الله إلها آخر وبالمصورين".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روز قیامت آگ کی ایک لپیٹ نکلے گی، اس کی دو آنکھیں ہوں گی جس سے وہ دیکھے گی، اس کے دو کان ہوں جن کے ذریعے وہ سنے گی اور ایک زبان ہو گی جس کے ذریعے وہ بولے گی۔ وہ کہے گی: تین قسم کے آدمی میرے سپرد کر دیے گئے ہیں: (۱) سرکش اور متکبر (۲) جس نے اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو بھی پکارا اور (۳) تصویر بنانے والا۔“
-" والذي نفسي بيده لا يضع الله رحمته إلا على رحيم، قالوا: كلنا يرحم، قال: ليس برحمة احدكم صاحبه، يرحم الناس كافة".-" والذي نفسي بيده لا يضع الله رحمته إلا على رحيم، قالوا: كلنا يرحم، قال: ليس برحمة أحدكم صاحبه، يرحم الناس كافة".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اللہ تعالیٰ صرف رحمدل بندے پر اپنی رحمت نچھاور کرتا ہے۔“ اس نے کہا: ہم میں سے ہر کوئی رحم کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(میرا یہ مطلب) نہیں کہ اپنے دوست کے حق میں رحمدل بن جاؤ، بلکہ تمام لوگوں پر رحم کرنا ہو گا۔“
- (لا تاكل متكئا، ولا على غربال، ولا تتخذن من المسجد مصلى لا تصلي إلا فيه، ولا تخط رقاب الناس يوم الجمعة؛ فيجعلك الله لهم جسرا يوم القيامة).- (لا تأكل متَّكِئاً، ولا على غِرْبَالٍ، ولا تتخِذَنَّ مِنَ المسجدِ مُصلىً لا تصلِّي إلا فيهِ، ولا تَخَطَّ رِقابَ الناسِ يومَ الجُمُعَةِ؛ فيجعلَكَ الله لُهمْ جسراً يوم القيامة).
سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹیک لگا کر نہیں کھانا، چھانے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھانا، مسجد میں کوئی جگہ مقرر نہیں کرنا کہ تو اسی میں ہی نماز پڑھے اور جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں نہیں پھلانگتا، وگرنہ اللہ تعالیٰ روز قیامت تجھے لوگوں کے لیے پل بنا دے گا۔“
-" لا تجمعوا بين اسمي وكنيتي، [انا ابو القاسم، والله يعطي، وانا اقسم]".-" لا تجمعوا بين اسمي وكنيتي، [أنا أبو القاسم، والله يعطي، وأنا أقسم]".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے نام ( محمد) اور میری کنیت ( ابوالقاسم) کو جمع نہ کرو، میں ابوالقاسم ہوں، اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں۔“
-" لا تسبن احدا ولا تحقرن شيئا من المعروف وان تكلم اخاك وانت منبسط إليه وجهك إن ذلك من المعروف، وارفع إزارك إلى نصف الساق، فإن ابيت فإلى الكعبين وإياك وإسبال الإزار فإنها من المخيلة وإن الله لا يحب المخيلة وإن امرؤ شتمك وعيرك بما يعلم فيك فلا تعيره بما تعلم فيه، فإنما وبال ذلك عليه".-" لا تسبن أحدا ولا تحقرن شيئا من المعروف وأن تكلم أخاك وأنت منبسط إليه وجهك إن ذلك من المعروف، وارفع إزارك إلى نصف الساق، فإن أبيت فإلى الكعبين وإياك وإسبال الإزار فإنها من المخيلة وإن الله لا يحب المخيلة وإن امرؤ شتمك وعيرك بما يعلم فيك فلا تعيره بما تعلم فيه، فإنما وبال ذلك عليه".
سیدنا ابوجری جابر بن سیلم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے ایک ایسے آدمی کو دیکھا کہ لوگ اس کی رائے کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتے تھے، وہ جو کچھ بھی کہتا، وہ اسے تسلیم کر لیتے، میں نے پوچھا: یہ آدمی کون ہے؟ انہوں نے کہا: یہ اللہ کے رسول ہیں۔ میں نے دو دفعہ کہا: اے اللہ کے رسول! «عليك السلام» آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «عليك السلام» مت کہہ، یہ تو مردوں کا سلام ہے، ( زندوں کو سلام دینے کے لیے) «السلام عليك» کہا کر۔ میں نے کہا: کیا آپ اللہ کے رسول ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس اللہ کا رسول ہوں، کہ اگر تجھے کوئی تکلیف لاحق ہو اور تو اسے پکارے تو وہ تیری تکلیف دور کر دے گا، اگر تو قحط سالی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اسے پکارتا ہے تو وہ تیرے لیے زمین سے (انگوریاں) اگائے گا اور اگر تو کسی بے آب و گیاہ اور بیابان جنگل میں ہو اور تیری سواری گم ہو جائے اور پھر تو اس سے دعا کرے تو وہ تیری سواری لوٹا دے گا۔“ میں نے کہا: مجھے کوئی وصیت ہی فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی کو گالی نہ دینا، کسی نیکی کو حقیر و معمولی مت سمجھنا، اگرچہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ کلام کرنے کی صورت میں ہو، اپنی چادر کو پنڈلی کے نصف تک بلند رکھنا، اگر تو ایسا نہ کرے تو ٹخنوں تک رکھ لینا، ٹخنوں سے نیچے چادر ( اور شلوار وغیرہ) لٹکانے سے بچنا، کیونکہ ایسا کرنا غرور (اور تکبر) ہے اور اللہ تعالیٰ غرور کو پسند نہیں کرتا۔ اگر کوئی آدمی تیرے کسی برے فعل، جسے وہ جانتا ہے، کی وجہ سے تجھے عار دلائے، تو تو اسے اس کے عیب، جسے تو جانتا ہے، کی بنا پر طعنہ نہ دینا، کیونکہ اس چیز کا وبال اس پر ہو گا۔“ ایک روایت میں ان الفاظ کی زیادتی بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی کو گالی نہ دینا“ تو ابوجری نے کہا: میں نے اس وصیت کے بعد کسی آزاد یا غلام بلکہ اونٹ یا بکری تک کو برا بھلا نہیں کہا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چھپکلی معمولی قسم کا فاسق ( موذی) جانور ہے۔“ یہ حدیث سیدہ عائشہ اور سیدنا سعد بن ابووقاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔
-" لا تلاعنوا بلعنة الله ولا بغضبه ولا بالنار. وفي رواية: بجهنم".-" لا تلاعنوا بلعنة الله ولا بغضبه ولا بالنار. وفي رواية: بجهنم".
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ایک دوسرے پر اللہ کی لعنت، اس کے غضب اور جہنم کی آگ کے ساتھ لعن طعن نہ کرو۔“
-" لا تلعن الريح فإنها مامورة وإنه من لعن شيئا ليس له باهل رجعت اللعنة عليه".-" لا تلعن الريح فإنها مأمورة وإنه من لعن شيئا ليس له بأهل رجعت اللعنة عليه".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک آدمی کی چادر ہوا سے اڑنے لگی، اس نے ہوا کو لعن طعن کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہوا کو ملعون مت ٹھہرا، یہ تو (اللہ کے حکم کی) پابند ہے، (یاد رہے کہ) جس آدمی نے کسی ایسی چیز پر لعنت کی جو اس کی مستحق نہ ہو تو وہ لعنت پلٹ کر اسی پر پڑتی ہے۔“
-" لا يحل لمسلم ان يهجر مسلما فوق ثلاث، فإنهما ناكبان عن الحق ما دام على حرامهما، فاولهما فيئا، سبقه بالفيء كفارة، فإن سلم ولم يرد عليه سلامه ردت عليه الملائكة ورد على الآخر الشيطان، فإن ماتا على صرامهما لم يجتمعا في الجنة ابدا".-" لا يحل لمسلم أن يهجر مسلما فوق ثلاث، فإنهما ناكبان عن الحق ما دام على حرامهما، فأولهما فيئا، سبقه بالفيء كفارة، فإن سلم ولم يرد عليه سلامه ردت عليه الملائكة ورد على الآخر الشيطان، فإن ماتا على صرامهما لم يجتمعا في الجنة أبدا".
سیدنا ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ تین ایام سے زیادہ اپنے بھائی سے تعلق منقطع رکھے۔ جب تک وہ اس حرام کام کے مرتکب رہیں گے راہ حق سے منحرف رہیں گے۔ جو (اپنے جرم سے) باز آنے میں سبقت کرے گا تو اس کا سبقت کرنا اس کے جرم کا کفارہ بن جائے گا۔ اگر اس نے سلام کیا لیکن دوسرے نے جواب نہ دیا تو اسے فرشتے جواب دیں گے اور دوسرے پر شیطان وارد ہوں گے، اگر وہ اسی قطع تعلقی کی صورت میں مر گئے تو کبھی بھی جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔“