- (كان يوم الاحزاب (وفي رواية: يوم الخندق) (¬1) ينقل معنا التراب، ولقد وارى التراب بياض بطنه (وفي رواية: شعر صدره) (¬2) [وكان رجلا كثير الشعر] (¬3)، وهو [يرتجز برجز عبد الله بن رواحة] (¬4)، وهو: والله لولا انت ما اهتدينا ولاتصدقنا ولا صلينا فانزلن سكينة علينا [وثبت الاقدام إن لاقينا] (¬5) إن الالى قد ابوا (وفي رواية: بغوا) (¬6) علينا إذا ارادوافتنة ابينا [ابينا] (¬7) ويرفع بها صوته).- (كان يوم الأحزابِ (وفي رواية: يوم الخندق) (¬1) ينقلُ معنا التراب، ولقد وارى التُّرابُ بياض بطنِه (وفي رواية: شعر صدرِه) (¬2) [وكان رجُلاً كثير الشَّعرِ] (¬3)، وهو [يرتجزُ برجزِ عبدِ اللهِ بن رواحة] (¬4)، وهو: والله لولا أنت ما اهتدينا ولاتصدَّقنا ولا صلينا فأنزِلن سكِينةً علينا [وثبت الأقدام إن لاقينا] (¬5) إن الأُلى قد أبوا (وفي رواية: بغوا) (¬6) علينا إذا أرادُوافتنةً أبينا [أبينا] (¬7) ويرفعُ بها صوته).
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احزاب اور ایک روایت کے مطابق غزوہ خندق والے دن ہمارے ساتھ مٹی اٹھا رہے تھے، مٹی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیٹ مبارک کی سفیدی کو (اور ایک روایت کے مطابق سینہ مبارک کے بالوں کو) چھپا دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ بالوں والے تھے اور اس وقت آپ سیدنا عبداللہ بن رواحہ کے (درج ذیل) رجزیہ اشعار پڑھ رہے تھے: ”اللہ کی قسم! اگر آپ نہ ہوتے تو ہمیں ہدایت نہ ملتی، نہ ہم صدقہ کرتے اور نہ ہی نماز پڑھتے (اے اللہ!) ہم پر سکینت نازل فرما اور اگر (دشمن سے) مڈبھیڑ ہو جائے تو ہمیں ثابت قدم رکھنا، بےشک ظالموں نے ہم پر زیادتی کی ہے، جب وہ (ہمارے دین میں) فتنہ ڈالنا چاہیں گے، تو ہم انکار کر دیں گے، انکار کر دیں گے۔“ یہ جملہ کہتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آواز بلند کرتے تھے۔
- (كفوا صبيانكم عند فحمة العشاء، وإياكم والسمر بعد هداة الرجل؛ فإنكم لا تدرون ما يبث الله من خلقه؟! فاغلقوا الابواب، واطفئوا المصباح، واكفئوا الإناء، واوكوا السقاء).- (كفّوا صِبْيانَكم عند فَحْمةِ العِشاءِ، وإيّاكُم والسّمر بعد هَدْأةِ الرّجلِ؛ فإنّكم لا تدرُون ما يَبُثُّ اللهُ من خَلقِه؟! فأغْلِقوا الأبوابَ، وأطفِئُوا المصْباحَ، وأكفئوا الإناء، وأوكوا السّقاء).
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی ابتدائی تاریکی کے وقت اپنے بچوں کو (گھروں میں) روکے رکھو اور رات کو لوگوں کے سو چکنے کے بعد گفتگو سے بچو، کیونکہ تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ اپنی کون سی مخلوق کو (زمین پر) پھیلا دیتا ہے۔ (رات کو) دروازے بند کر دیا کرو، چراغ بجھا دیا کرو اور برتن الٹے کر دیا کرو اور مشکیزے کا منہ بند کر دیا کرو۔“
- (كنا نصلي مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - العشاء، فإذا سجد وثب الحسن والحسين على ظهره، وإذا رفع راسه اخذهما [بيده من خلفه اخذا رفيقا]، فوضعهما وضعا رفيقا، فإذا عاد، عادا، فلما صلى [وضعهما على فخذيه] واحدا ههنا، وواحدا ههنا، قال ابو هريرة رضي الله عنه: فجئته، فقلت: يا رسول الله! الا اذهب بهما إلى امهما؟! قال: لا، فبرقت برقة، فقال: الحقا بامكما. فما زالا يمشيان في ضوئها، حتى دخلا [إلى امهما]).- (كنّا نصلِّي مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - العِشاء، فإذا سجد وثب الحسن والحسين على ظهره، وإذا رفع رأسَه أخذهما [بيده من خلفه أخذاً رفيقاً]، فوضعهما وضعاً رفيقاً، فإذا عاد، عادا، فلمّا صلَّى [وضعهما على فخذيه] واحداً ههنا، وواحداً ههنا، قال أبو هريرة رضي الله عنه: فجئته، فقلت: يا رسول الله! ألا أذهب بهما إلى أمهما؟! قال: لا، فبرقت برقة، فقال: الحقا بأمكما. فما زالا يمشيان في ضوئها، حتى دخلا [إلى أمهما]).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز عشاء ادا کر رہے تھے، اچانک سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہما آپ کی پشت پر چڑھ گئے۔ جب آپ سر مبارک اٹھاتے تو ان کو پیچھے سے نرمی سے پکڑ لیتے اور بڑی ہی شفقت سے ان کو زمین پر رکھ دیتے۔ پھر جب آپ سجدہ کرتے تو وہ پھر چڑھ جاتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ لیتے تو ان کو اپنی ران پر بٹھا لیتے، یعنی ایک کو (ایک ران پر) اور دوسرے کو (دوسری ران پر)۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں ان دونوں کو ان کی ماں کے پاس نہ لے جاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“۔ اتنے میں جب بجلی چمکنے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دونوں اپنی ماں کے پاس چلے جاؤ۔“ پھر وہ بجلی کی روشنی میں چلتے رہے یہاں تک کہ اپنی ماں کے پاس چلے گئے۔
-" افضل الناس كل مخموم القلب صدوق اللسان، قالوا: صدوق اللسان نعرفه فما مخموم القلب؟ قال: التقي النقي، لا إثم فيه ولا بغي ولا غل ولا حسد".-" أفضل الناس كل مخموم القلب صدوق اللسان، قالوا: صدوق اللسان نعرفه فما مخموم القلب؟ قال: التقي النقي، لا إثم فيه ولا بغي ولا غل ولا حسد".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول! کون سے لوگ افضل ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مخموم القلب اور سچی زبان والا۔“ صحابہ نے کہا: ہم سچی زبان والے کو تو پہچانتے ہیں، مخموم القلب سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ایسا دل (جو اللہ سے) ڈرنے والا اور صاف ہو، اس میں گناہ، بغاوت، خیانت اور حسد نہ ہو۔“
-" لا يستقيم إيمان عبد حتى يستقيم قلبه ولا يستقيم قلبه حتى يستقيم لسانه ولا يدخل رجل الجنة لا يامن جاره بوائقه".-" لا يستقيم إيمان عبد حتى يستقيم قلبه ولا يستقيم قلبه حتى يستقيم لسانه ولا يدخل رجل الجنة لا يأمن جاره بوائقه".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی آدمی کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا، جب تک اس کا دل درست نہیں ہوتا اور کسی کا دل اس وقت تک صحیح نہیں ہو سکتا، جب تک اس کی زبان راہ راست پر نہیں آ جاتی اور ایسا شخص تو جنت میں داخل نہیں ہو گا کہ جس کے شرور سے اس کا ہمسایہ امن میں نہیں ہوتا۔“
-" كم من جار متعلق بجاره يقول: يا رب! سل هذا لم اغلق عني بابه، ومنعني فضله؟".-" كم من جار متعلق بجاره يقول: يا رب! سل هذا لم أغلق عني بابه، ومنعني فضله؟".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کتنے ہی پڑوسی (ایسے ہوں گے جو) اپنے پڑوسی (کے حقوق کے سلسلے میں) لٹکے ہوئے ہوں گے۔ پڑوسی کہے گا: اے میرے رب! اس سے سوال کر کہ اس نے اپنا دروازہ مجھ سے کیوں بند کر دیا تھا اور بچا ہوا مال مجھ سے کیوں روک لیا تھا۔“
-" من بنى بناء فليدعمه حائط جاره. وفي لفظ: من ساله جاره ان يدعم على حائطه فليدعه".-" من بنى بناء فليدعمه حائط جاره. وفي لفظ: من سأله جاره أن يدعم على حائطه فليدعه".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو آدمی کوئی عمارت تعمیر کرے تو وہ اپنے پڑوسی (کے گھر) کی دیوار پر تعمیر کر لے۔“ اور ایک روایت کے لفظ یہ ہیں: ”جو آدمی اپنے پڑوسی سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ اس کی دیوار پر (اپنی عمارت کو) سہارا دینا چاہتا ہے تو وہ اس کو (یہ کام) کرنے دے۔“
-" كنا إذا راينا الرجل يلعن اخاه راينا ان قد اتى بابا من الكبائر".-" كنا إذا رأينا الرجل يلعن أخاه رأينا أن قد أتى بابا من الكبائر".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب ہم کسی آدمی کو دیکھتے کہ وہ اپنے بھائی پر لعنت کر رہا ہو تو ہمارا خیال ہوتا تھا کہ اس نے کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔
ـ (لعن الله من ذبح لغير الله، لعن الله من غير تخوم الارض، لعن الله من كمه الاعمى عن السبيل، لعن الله من سب (وفي رواية: عق) والديه، لعن الله من تولى غير مواليه، [لعن الله من وقع على بهيمة]، لعن الله من عمل عمل قوم لوط، [لعن الله من عمل عمل قوم لوط، لعن الله من عمل عمل قوم لوط]).ـ (لعنَ اللهُ مَنْ ذبَحَ لغيرِ اللهِ، لعَنَ اللهُ مَن غيَّرَ تُخُومَ الأرْضِ، لعَنَ اللهُ من كَمَه الأَعْمى عن السّبيلِ، لعَنَ اللهُ من سبَّ (وفي رواية: عقَّ) والديهِ، لعَنَ اللهُ مَنْ تولَّى غيْرَ موالِيه، [لعَنَ اللهُ مَنْ وَقَعَ على بهيمةٍ]، لَعَنَ اللهُ من عمِلَ عَمَلَ قومِ لُوطٍ، [لعَنَ اللهُ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قوْمِ لوطٍ، لعَنَ اللهُ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قومِ لوطٍ]).
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ایسے شخص پر لعنت کرے جس نے غیر اللہ کیلے ذبح کیا، اللہ ایسے شخص پر لعنت کرے جس نے زمین کے نشانات کے بدلے، اللہ ایسے شخص پر لعنت کرے جس نے اندھے کو رستے سے بھٹکا دیا، اللہ ایسے شخص پر لعنت کرے جس نے اپنے والدین کی نافرمانی کی یا ان کو گالی دی، اللہ ایسے غلام پر لعنت کرے جس نے اپنے آقا کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا مالک بنایا، اللہ ایسے شخص پر لعنت کرے جس نے چوپائے سے بدفعلی کی، اللہ ایسے شخص پر لعنت کرے جس نے قوم لوط والا عمل کیا، اللہ ایسے آدمی پر لعنت کرے جس نے قوم لوط والا عمل کیا اور اللہ ایسے فرد پر لعنت کرے جس نے قوم لوط والا عمل کیا۔“