- (ابشر يا كعب! فقالت امه: هنيئا لك الجنة يا كعب! فقال: من هذه المتالية على الله؟! قال: هي امي يا رسول الله! فقال: وما يدريك يا ام كعب؟! لعل كعبا قال ما لا يعنيه، او منع ما لا يغنيه).- (أَبشرْ يا كعبُ! فقالَتْ أمُّه: هنيئاً لكَ الجنَّةُ يا كعبُ! فقال: من هذه المتألّيةُ على الله؟! قالَ: هيَ أمِّي يا رسول الله! فقال: وما يدريك يا أمَّ كعب؟! لعلَّ كعباً قال ما لا يعنيه، أو منعَ ما لا يُغنيهِ).
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب کو گم پایا، تو ان کے بارے میں پوچھا (کہ وہ کہاں ہے)۔ صحابہ نے کہا: وہ بیمار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدل نکل پڑے حتیٰ کہ اس کے پاس پہنچ گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر داخل ہوئے، تو فرمایا: ”اے کعب! خوش ہو جاؤ۔“(یہ سن کر) اس کی ماں نے کہا: اے کعب! تجھے جنت مبارک ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ پر قسم اٹھانے والی یہ عورت کون ہے؟“ کعب نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ میری ماں ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اے ام کعب! ممکن ہے کہ کعب نے کوئی بے مقصد بات کہی ہو یا ایسی چیز ( کو خرچ کرنے سے) رک گیا ہو جو اسے غنی نہ کرتی ہو۔“
- (ابغض الرجال إلى الله: الالد الخصم).- (أَبغضُ الرّجالِ إلى اللهِ: الألدُّ الخصِمُ).
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں میں سے الله تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ وہ آدمی ہے جو سخت جھگڑالو ہو۔“
-" اتدرون ما العضه؟ قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: نقل الحديث من بعض الناس إلى بعض ليفسدوا بينهم".-" أتدرون ما العضه؟ قالوا: الله ورسوله أعلم، قال: نقل الحديث من بعض الناس إلى بعض ليفسدوا بينهم".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو کہ چغل خوری کیا ہے؟“ صحابہ نے عرض کی: الله اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کے درمیان فساد ڈالنے کے لیے بعض کی باتیں بعض کو بیان کرنا۔“
-" الا انبئكم ما العضه؟ هي النميمة القالة بين الناس، وفي رواية: النميمة التي تفسد بين الناس".-" ألا أنبئكم ما العضه؟ هي النميمة القالة بين الناس، وفي رواية: النميمة التي تفسد بين الناس".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: بلاشبہ محمد صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تم کو نہ بتلاؤں کہ «عضه» کیا ہے؟ یہ لوگوں کے درمیان چغلی کرنا ہے۔“ اور ایک روایت میں ہے: ”وہ چغلی جو لوگوں کے درمیان فساد برپا کر دے۔“
-" الغيبة ان تذكر من المرء ما يكره ان يسمع".-" الغيبة أن تذكر من المرء ما يكره أن يسمع".
سیدنا مطلب بن عبدالملک بن حنطب سے مرسلاً روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: غیبت کیا ہے؟ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی آدمی کی ایسی بات بیان کرنا، جس کو وہ سننا ناپسند کرے۔“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگرچہ وہ بات حق (اور درست) ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو نے (کسی کے بارے میں) غیر حق بات کی تو وہ تو بہتان ہو گا (نہ کہ غیبت)۔“
-" حسبك إذا ذكرت اخاك بما فيه".-" حسبك إذا ذكرت أخاك بما فيه".
عمرو بن شعیب اپنے باپ سے، وہ ان کے دادا سے اور وہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کا ذکر کرتے ہوئے کہا: وہ اس وقت تک نہیں کھاتا جب تک اسے کھلایا نہ جائے اور جب تک اسے سوار نہ کیا جائے وہ سوار بھی نہیں ہوتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اس کی غیبت کی ہے۔“ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے وہی (عیب) بیان کیا ہے جو اس میں موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(کسی کی غیبت کے لیے) تجھے یہی کافی ہے کہ تو اپنے بھائی کے اس (عیب) کا ذکر کرے جو اس میں ہے۔“
-" والذي نفسي بيده إني لارى لحمه بين انيابكما. يعني لحم الذي استغاباه".-" والذي نفسي بيده إني لأرى لحمه بين أنيابكما. يعني لحم الذي استغاباه".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عرب کے لوگ سفر میں ایک دوسرے کی خدمت کیا کرتے تھے۔ سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک آدمی تھا جو ان دونوں کی خدمت کیا کرتا تھا۔ (ایک دن) وہ دونوں سو کر بیدار ہوئے تو خادم نے ان کے کھانا تیار نہیں کیا تھا۔ ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا: یہ خادم تمہارے نبی کی نیند کی موافقت کرتا ہے۔ اور ایک روایت میں ہے: تمہارے گھر کی نیند کی موافقت کرتا ہے۔ دونوں نے اسے جگایا اور کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا اور آپ کو کہہ کہ ابوبکر اور عمر آپ کو سلام کہتے ہیں اور وہ آپ سے سالن طلب کر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری طرف سے ان دونوں کو سلام کہنا اور ان کو بتلانا کہ تم دونوں نے سالن کھا لیا ہے۔ پس ابوبکر و عمر یہ سن کر گھبرا گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے (فلاں آدمی کو) آپ کی طرف سالن لینے کے لیے بھیجا تھا اور آپ نے فرمایا کہ تم دونوں سالن کھا چکے ہو، (بھلا) ہم نے کس چیز کا سالن کھا لیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اپنے بھائی کے گوشت کا، قسم ہے مجھے اس ذات کی کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ میں اس کا گوشت تمہاری کچلیوں کے درمیان دیکھ رہا ہوں۔ ”سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: ہمارے لیے، بخشش طلب فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس خادم کو ہی تمہارے لیے بخشش طلب کرنا چاہیئے۔“
-" حسبك إذا ذكرت اخاك بما فيه".-" حسبك إذا ذكرت أخاك بما فيه".
عمرو بن شعیب اپنے باپ سے، وہ ان کے دادا سے اور وہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کا ذکر کرتے ہوئے کہا: وہ اس وقت تک نہیں کھاتا جب تک اسے کھلایا نہ جائے اور جب تک اسے سوار نہ کبا جائے وہ سوار بھی نہیں ہوتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم نے اس کی غیبت کی ہے۔“ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے وہی (عیب) بیان کیا ہے جو اس میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(کسی کی غیبت کے لیے) تجھے یہی کافی ہے کہ تو اپنے بھائی کے اس (عیب) کا ذکر کرے جو اس میں ہے۔“
- (1- تعبد (وفي رواية: اعبد) الله ولا تشرك به شيئا. 2- وتقيم الصلاة المكتوبة. 3- وتؤدي الزكاة المفروضة. 4- وتصوم رمضان. 5- وتحج وتعتمر. 6- وانظر ما تحب من الناس ان ياتوه إليك؛ فافعله بهم، وما كرهت ان ياتوه إليك؛ فذرهم منه).- (1- تعبدُ (وفي رواية: اعبد) الله ولا تشركُ به شيئاً. 2- وتقيمُ الصلاة المكتوبة. 3- وتؤدّي الزكاة المفروضة. 4- وتصومُ رمضان. 5- وتحجّ وتعتمرُ. 6- وانظر ما تحبّ من النّاس أن يأتوه إليك؛ فافعله بهم، وما كرهت أن يأتوه إليك؛ فذرهم منه).
محمد بن جحادہ ایک آدمی سے، وہ بنو عنبر قبیلہ والے اپنے ساتھی سے، وہ اپنے باپ ابومنتفق سے روایت کرتا ہے، وہ کہتے ہیں: میں مکہ آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دریافت کیا۔ لوگوں نے کہا وہ عرفہ میں ہیں، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہاں پہنچ گیا، جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہونے کا ارادہ کرتا تو صحابہ مجھے روک دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو چھوڑ دو۔“ میں آپ کے اتنا قریب ہو گیا کہ آپ کی سواری کی گردن میری سواری کی گردن سے مل گئی۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے ایسا عمل بتائیں جو مجھے اللہ کے عذاب سے دور کر دے اور جنت میں داخل کر دے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(۱) اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ (۲) فرض نماز قائم کرو (۳) زکوٰۃ ادا کرو (۴) ماہ رمضان کے روزے رکھو (۵) حج و عمرہ ادا کرو (۶)(نیز اپنا) جائزہ لو کہ جو تم اپنے حق میں پسند کرو کہ لوگ تمہارے ساتھ ایسا سلوک کریں، تم بھی وہی (سلوک) ان کے ساتھ کرو اور جو تم ناپسند کرتے ہو کہ وہ تمہارے ساتھ ایسا کریں، تم بھی ان کے ساتھ ویسا (سلوک) نہ کرو۔“