سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کا اپنے بھائی کو گالی دینا فسق ہے اور اس کو قتل کرنا کفر ہے اور اس کے مال کی حرمت اس کے خون کی حرمت کی طرح ہے۔“
-" طائر كل إنسان في عنقه".-" طائر كل إنسان في عنقه".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”ہر انسان کے خیر یا شر کا حصہ اس کے گلے میں لگا دیا گیا ہے۔“ یہ اللہ کے فرمان «وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ»”اور ہم نے ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کے گلے لگا دیا ہے“ کی تفسیر ہے۔
- (غيروا سيما اليهود، ولا تغيروا بسواد).- (غيِّروا سِيما اليهود، ولا تغيِّروا بسواد).
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: کچھ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں دریافت کیا، صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ یہودی ہیں اور یہ اپنے بالوں کو نہیں رنگتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہودیوں کی نشانی کو بدل دو، لیکن سیاہ رنگ سے مت بدلو۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، اس کے پاس اس کا بیٹا آیا، اس نے اس کو بوسہ دیا اور اسے اپنی ران پر بٹھا لیا، پھر اس کی بیٹی پہنچ گئی، اس نے اس کو اپنے پہلو میں بیٹھا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے ان دونوں کے درمیان انصاف کیوں نہیں کیا؟“
-" في المنافق ثلاث، إذا حدث كذب وإذا وعد اخلف وإذا ائتمن خان".-" في المنافق ثلاث، إذا حدث كذب وإذا وعد أخلف وإذا ائتمن خان".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”منافق میں تین (خامیاں) ہوتی ہیں: جب وہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو خلاف ورزی کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے۔“
-" كافل اليتيم له او لغيره، انا وهو كهاتين في الجنة إذا اتقى الله. واشار مالك: بالسبابة والوسطى".-" كافل اليتيم له أو لغيره، أنا وهو كهاتين في الجنة إذا اتقى الله. وأشار مالك: بالسبابة والوسطى".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے یا کسی غیر کے یتیم کی پرورش کرنے والا اور میں جنت میں ان دو انگلیوں کی طرح (قریب قریب) ہوں گے، بشرطیکہ وہ اللہ سے ڈرنے والا ہو“۔ امام مالک نے انگشت شہادت اور درمیان والی انگلی سے اشارہ کیا۔
- (كان ابغض الحديث إليه. يعني: الشعر).- (كان أبْغَضَ الحديث إليهِ. يعني: الشِّعْرَ).
نوفل بن ابوعقرب کہتے ہیں: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اشعار سنے جاتے تھے؟ انہوں نے کہا: یہ تو آپ کے نزدیک سب سے زیادہ نفرت والی بات تھی۔
- (كان إذا جاء الباب يستاذن لم يستقبله، يقول: يمشي مع الحائط حتى يستاذن فيؤذن له او ينصرف).- (كانَ إذا جاءَ البابَ يستأذِنُ لم يستقبِلْهُ، يقولُ: يمشي مع الحائطِ حتى يستأذِنَ فَيُؤذنُ لهُ أو ينصرِفُ).
صحابی رسول سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب آپ دروازے کے پاس آتے تو اجازت طلب کرتے اور سامنے کھڑے نہیں ہوتے تھے۔ وہ کہتے ہیں: آپ دیوار کے ساتھ چلتے، حتیٰ کہ اجازت لے لیتے، پھر یا تو آپ کو اجازت دی جاتی یا پھر آپ پلٹ جاتے تھے۔