- (إن المؤمن خلق مفتنا توابا نساء؛ إذا ذكر تذكر).- (إن المؤمن خُلقَ مُفَتَّناَ توَّاباً نسَّاءً؛ إذا ذُكِّر تذكَّر).
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک مومن کو اس حال میں پیدا کیا گیا کہ وہ فتنے میں مبتلا ہونے والا اور بہت زیادہ توبہ کرنے اور بھولنے والا ہے، جب اسے نصیحت کی جائے تو وہ نصیحت قبول کر لیتا ہے۔“
-" إن مثل الذي يعمل السيآت ثم يعمل الحسنات كمثل رجل كانت عليه درع ضيقة قد خنقته، ثم عمل حسنة فانفكت حلقة، ثم عمل حسنة اخرى فانفكت حلقة اخرى حتى يخرج إلى الارض".-" إن مثل الذي يعمل السيآت ثم يعمل الحسنات كمثل رجل كانت عليه درع ضيقة قد خنقته، ثم عمل حسنة فانفكت حلقة، ثم عمل حسنة أخرى فانفكت حلقة أخرى حتى يخرج إلى الأرض".
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشہ برائیاں کرنے کے بعد نیکیاں کرنے والے شخص کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جس پر ایسی تنگ زرہ ہو، کہ اس نے اس کا گلا گھونٹ رکھا ہو، (ایسا برا آدمی جب) نیکی کرتا ہے تو ایک کڑا ٹوٹ جاتا ہے، پھر وہ دوسری نیکی کرتا ہے تو دوسرا کڑا ٹوٹ جاتا ہے، (یہی سلسلہ جاری رہتا ہے) یہاں تک کہ (وہ زرہ) زمین پر گر جاتی ہے۔“
- (إنكم لتعملون اعمالا هي ادق في اعينكم من الشعر؛ كنا نعدها على عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من الموبقات).- (إنَّكم لتعملونَ أعمالاً هي أَدَقُّ في أَعْيُنِكُمْ مِنَ الشِّعَرِ؛ كُنَّا نَعُدُّها على عَهْدِ رسولِ اللِه - صلى الله عليه وسلم - من المُوبقات).
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بلاشبہ تم ایسے اعمال بھی سر انجام دے رہے ہو جو تمہارے نزدیک بال سے بھی زیادہ باریک ہیں (یعنی تم ان کو نہایت معمولی سمجھتے ہو) حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہم ان کو ہلاک کر دینے والے امور میں شمار کرتے تھے۔
- (إياك والذنوب التي لا تغفر، (وفي رواية: وما لا كفارة من الذنوب)، فمن غل شيئا اتي به يوم القيامة، وآكل الربا؛ فمن اكل الربا بعث يوم القيامة مجنونا يتخبط، ثم قرا: (الذين ياكلون الربا لا يقومون إلا كما يقوم الذي يتخبطه الشيطان من المس) [البقرة: 275]).- (إياك والذنوب التي لا تُغفر، (وفي رواية: وما لا كفارة من الذنوب)، فمن غل شيئاً أُتيَ به يوم القيامة، وآكل الربا؛ فمن أكل الربا بُعِث يوم القيامة مجنوناً يتخبط، ثم قرأ: (الذين يأكلون الربا لا يقومون إلا كما يقوم الذي يتخبطه الشيطان من المس) [البقرة: 275]).
سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو ایسے گناہوں سے بچ جو معاف نہیں کئے جاتے اور ایک روایت میں ہے: جن گناہوں کا کفارہ نہیں ہوتا۔ جس نے جو چیز خیانت کی، روز قیامت اسے اس کے ہمراہ لایا جائے گا اور سود کھانے والے (کے بارے میں یہ وعید ہے کہ) جس نے سود کھایا وہ اس کی وجہ سے قیامت کے روز دیوانہ اور بدحواس اٹھایا جائے گا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی آیت پڑھی: ”جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ ان لوگوں کی طرح کھڑے ہوں گے جن کو شیطان نے چھو کر خبطی (اور دیوانہ) بنا رکھا ہو۔“
-" إياكم ومحقرات الذنوب كقوم نزلوا في بطن واد فجاء ذا بعود وجاء ذا بعود حتى انضجوا خبزتهم وإن محقرات الذنوب متى يؤخذ بها صاحبها تهلكه".-" إياكم ومحقرات الذنوب كقوم نزلوا في بطن واد فجاء ذا بعود وجاء ذا بعود حتى أنضجوا خبزتهم وإن محقرات الذنوب متى يؤخذ بها صاحبها تهلكه".
سیدنا سہل بن سعد رضی اللٰہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” صغیرہ گناہوں سے گریز کرو۔ (اور ان کو حقیر مت سمجھو، غور فرماؤ کہ) کی کچھ لوگ ایک وادی میں پڑاؤ ڈالتے ہیں، ایک آدمی ایک لکڑی لاتا ہے اور دوسرا ایک لاتا ہے . . . (ایک ایک کر کے اتنی لکڑیاں جمع ہو جاتی ہیں کہ) وہ آگ جلا کر روٹی پکا لیتے ہیں۔ اسی طرح اگر صغیرہ گناہوں کی بنا پر مؤاخذہ ہوا تو وہ بھی ہلاک کر سکتے ہیں۔“
- (إياكم ومحقرات الذنوب، كقوم نزلوا في بطن واد فجاء ذا بعود، وجاء ذا بعود حتى انضجوا خبزتهم، وإن محقرات الذنوب متى يؤخذ بها صاحبها تهلكه).- (إياكم ومُحقراتُ الذنُوبِ، كقَومٍ نَزلُوا في بطْنِ وادٍ فجاءَ ذا بعودٍ، وجاء ذا بعودٍ حتى أنضَجُوا خبزتهم، وإنَّ محقَّراتِ الذُّنوب متى يُؤخذ بها صاحبُها تُهلِكْهُ).
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم ان گناہوں سے بچو جن کو معمولی سمجھا جاتا ہے۔ جن گناہوں کو حقیر سمجھا جاتا ہے، ان کی مثال ایسے لوگوں کی مانند ہے جنہوں نے ایک وادی میں پڑاؤ ڈالا، ایک آدمی ایک لکڑی لے آیا، دوسرا ایک اور لے آیا، حتیٰ کہ (اتنی لکڑیاں جمع ہو گئیں کہ) انہوں نے اپنی روٹی پکا لی اور بے شک جب حقیر گناہوں کے مرتکب کا مؤاخذہ کیا جائے گا تو وہ اس کو ہلاک کر دیں گے۔“
-" يا عائشة! إياك ومحقرات الذنوب، فإن لها من الله طالبا".-" يا عائشة! إياك ومحقرات الذنوب، فإن لها من الله طالبا".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”اے عائشہ! حقیر سمجھے جانے والے گناہوں سے گریز کرنا، یقیناً ان کے متعلق بھی اللہ کی طرف سے باز پرس ہو گی۔“
-" الإثم حواز القلوب، وما من نظرة إلا وللشيطان فيها مطمع".-" الإثم حواز القلوب، وما من نظرة إلا وللشيطان فيها مطمع".
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گناہ دلوں پر غلبہ پانے والا ہے اور ہر نظر میں شیطان کی (گمراہ کرنے کی) حرص ہوتی ہے۔“
- (ثكلتك امك [يا معاذ] بن جبل! وهل يكب الناس على مناخرهم في جهنم إلا حصائد السنتهم؟!).- (ثكِلتكَ أمُّك [يا معاذُ] بن جَبَل! وهل يكبُّ الناسَ على مناخرِهم في جهنَّم إلا حصائدُ ألسنتِهم؟!).
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! جو باتیں ہم کرتے ہیں، کیا ان میں سے ہر بات پر ہمارا مؤاخذہ ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اے معاذ بن جبل! تیری ماں تجھے گم پائے، لوگوں کو جہنم میں ان کی نتھنوں کے بل گرانے والی چیز ان کی زبانوں کی فضول باتیں ہوں گی۔“
- (عليك بتقوى الله ما استطعت، واذكر الله عز وجل عند كل حجر وشجر.! اذا عملت سيئة فاحدث عندها توبة؛ السر بالسر، والعلانية بالعلانية).- (عليك بتقوى الله ما استطعت، واذكر الله عز وجل عند كل حجر وشجر.! اذا عملت سيئةً فأحدثْ عندها توبةً؛ السرُّ بالسرِّ، والعلانيةُ بالعلانيةِ).
عطا بن یسار کہتے ہیں: بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی وصیت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” حسب استطاعت تقویٰ اختیار کر، ہر پتھر اور درخت کے پاس اللہ کا ذکر کر اور جب تو کوئی برائی کرے تو اسی وقت توبہ کر۔ مخفی برائی کی توبہ مخفی انداز میں اور علانیہ برائی کی توبہ علانیہ انداز میں ہونی چاہئے۔“