- (الآن (وفي رواية: اليوم) نغزوهم (يعني: مشركي مكة الذين انهزموا في غزوة الخندق) ولا يغزونا، [نحن نسير إليهم]).- (الآن (وفي رواية: اليوم) نغزوهُم (يعني: مشركي مكة الذين انهزمُوا في غزوةِ الخندقِ) ولا يغزُونا، [نحنُ نسيرُ إليهم]).
سیدنا سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب غزوہ خندق والے دن لشکروں کو بھگا دیا گیا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ” اب ہم (غزوہ خندق میں شکست سے دو چار ہونے والے مشرکین مکہ سے) سے لڑنے کے لیے ان کے علاقے میں گھسیں گے، وہ ہم پر چڑھائی نہیں کریں گے، اب ہم ان کی طرف پیش قدمی کریں گے۔“
- (ما كان لي ولبني عبد المطلب؛ فهو لكم).- (ما كان لي ولبني عبدِ المطّلبِ؛ فَهُو لكم).
ابوجرول زہیر بن صرد جشمی کہتے ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں غزوہ حنین (ہوازن) کے دن قیدی بنایا، تو آپ نے نوجوانوں اور عورتوں کو علیحدہ علیحدہ تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ میں نے اس وقت یہ اشعار پڑھے: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم پر احسان کیجئیے مہربانی ہو گی آپ ایسی شخصیت ہیں، جن سے ہمیں امید ہے اور (اپنی درخواست پوری ہونے کا) انتظار ہے۔ باعصمت عورتوں پر احسان کیجئیے، جنہیں تقدیر نے پابند کر دیا ہے جن کی شیرازہ بندی زمانے میں بکھر چکی ہے۔ زمانے نے ہمیں غمگین ہو کر چلانے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہمارے دلوں پر سختی و مصیبت چھائی ہوئی ہے۔ اگر ان پر احسان نہیں کریں گے تو وہ بکھر جائیں گی۔ اے وہ ہستی جو کٹھن مراحل میں بردباری میں راجح ترین ہوتی ہے ان عورتوں پر رحم کرو کہ جن کا تم دودھ پیتے تھے وہ تمہیں اس وقت مزین کر رہی تھیں، جب کچھ چیزیں اختیار کی جاتی ہیں اور کچھ کو ترک کر دیا جاتا ہے۔ تم ان کو اس طرح نہ کر دو کہ جن کا شیرازہ بکھر چکا ہوتا ہے۔ تم ہم پر احسان کرنے میں ہم سے سبقت لے جاؤ، ہم تو ایک ہی قوم ہیں۔ جن نعمتوں کی ناشکری کی جاتی ہے، ہم ان کا شکریہ ادا کریں گے اور ہم آج کے بعد آپ کے احسان مند ہوں گے ان کو معاف کر دو کہ جن کا تم دودھ پیتے تھے یعنی اپنی ماؤں کو، بے شک اس معافی کو شہرت ملے گی۔ اے وہ بہترین شخصیت کہ سیاہ و سرخ گھوڑوں (کے سوار حفاظت کے لیے) جن کو گھیر لیتے ہیں اس وقت جب (جنگ میں) جوش و خروش اور چنگاریاں اٹھ رہی ہوتی ہیں تم سے معافی (کے لباس) کی امید رکھتے ہیں، ہم وہ پہنیں گے۔ اے مخلوق کے ہادی! جب تم معاف کرو گے اور بازی مار جاؤ گے۔ تم معاف کرو، اللہ تمہارے لیے روز قیامت وہ امور معاف کر دے جس سے ڈرتے ہو، جب کامیابی تمہارے ہمرکاب ہو گی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اشعار سنے تو فرمایا: ”جو میرا اور عبدالمطلب کا حصہ ہے، وہ تم لوگوں کا ہے۔ قریشیوں نے کہا: جو ہمارے حصے میں آیا، وہ بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لیے ہے۔ اور انصاریوں نے کہا: جو کچھ ہمارے حصے میں آیا وہ بھی اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔
-" ما من آدمي إلا في راسه حكمة بيد ملك، فإذا تواضع قيل للملك: ارفع حكمته وإذا تكبر قيل للملك: ضع حكمته".-" ما من آدمي إلا في رأسه حكمة بيد ملك، فإذا تواضع قيل للملك: ارفع حكمته وإذا تكبر قيل للملك: ضع حكمته".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر آدمی کے سر میں قدر و منزلت، جو فرشتے کے ہاتھ میں ہوتی ہے، پائی جاتی ہے۔ جب بندہ عاجزی اختیار کرتا ہے تو فرشتے سے کہا جاتا ہے کہ اس کی قدر و منزلت کو بلند کر دے اور جب وہ تکبر کرتا ہے تو فرشتے کو کہا جاتا ہے کہ اس کی قدر و منزلت کو پست کر دے۔“
-" ما من رجل يجرح في جسده جراحة، فيتصدق بها، إلا كفر الله عنه مثل ما تصدق به".-" ما من رجل يجرح في جسده جراحة، فيتصدق بها، إلا كفر الله عنه مثل ما تصدق به".
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جب کوئی آدمی زخمی ہو جاتا ہے اور پھر وہ (زیادتی کرنے والے کو) معاف کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی معافی کے بقدر (اس کے گناہوں کو) مٹا دیتا ہے۔“
-" من اطرق فرسه مسلما كان له كاجر سبعين فرسا حمل عليه في سبيل الله فإن لم تعقب كان له كاجر فرس يحمل عليها في سبيل الله".-" من أطرق فرسه مسلما كان له كأجر سبعين فرسا حمل عليه في سبيل الله فإن لم تعقب كان له كأجر فرس يحمل عليها في سبيل الله".
سیدنا ابوکبشہ انماری رضی اللہ عنہ ایک آدمی کے پاس آئے اور کہا: مجھے جفتی کے لیے گھوڑا عاریۃ دو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”جس نے جفتی کے لیے کسی مسلمان کو عاریۃ گھوڑا دیا تو اسے اللہ کے راستے میں دیے جانے والے ستر گھوڑوں کے ثواب جتنا اجر ملے گا۔ اگر اس جفتی کی وجہ سے اولاد نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے راستے میں دیے جانے والے ایک گھوڑے کے ثواب کے برابر اجر ملے گا۔“
-" النصر مع الصبر والفرج مع الكرب وإن مع العسر يسرا وإن مع العسر يسرا".-" النصر مع الصبر والفرج مع الكرب وإن مع العسر يسرا وإن مع العسر يسرا".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدد، صبر کے ساتھ ہوتی ہے، کشادگی، رنج و غم کے ساتھ ہوتی ہے اور بلاشبہ تنگی کے ساتھ آسانی ہوتی ہے اور بیشک تنگی کے ساتھ آسانی ہوتی ہے۔“
-" لا تقاتل قوما حتى تدعوهم".-" لا تقاتل قوما حتى تدعوهم".
یحییٰ بن اسحاق بن عبداللہ بن ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا تو ان کے پیچھے ایک اور آدمی کو بھیجا اور اسے فرمایا: ”اس کے پیچھے چلتا رہ اور اس کے پیچھے ہی رہنا ہے (بلکہ) تو اس کا تعاقب کر، ان کو پکڑ لے اور کہہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں: ”ٹھہر جاؤ، یہاں تک میں پہنچ جاؤں۔“ وہ ٹھہر گئے، حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور فرمایا: ”اس وقت تک کسی قوم سے نہیں لڑنا، جب تک (اسلام کی) دعوت نہ پہنچا دو۔“
-" يا ايها الناس إني لم اعلم بهذا حتى سمعتموه، الا وإنه يجير على المسلمين ادناهم".-" يا أيها الناس إني لم أعلم بهذا حتى سمعتموه، ألا وإنه يجير على المسلمين أدناهم".
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے (مدینہ) چلے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند ابوالعاص بن ربیع سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے کی اجازت طلب کی، اس نے اجازت دے دی۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئیں، پھر ابوالعاص بھی مدینہ پہنچ گیا سیدہ زینب کی طرف پیغام بھیجا کہ اپنے باپ سے میرے لیے امان حاصل کرو۔ میں نکلی اور اپنے حجرے سے جھانکا، تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھا رہے تھے۔ میں نے کہا: لوگو! میں زینب بنت رسول ہوں، میں نے ابوالعاص کو پناہ دے دی ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”لوگو! مجھے اس بات کا پتہ نہیں تھا، حتی کہ تم نے خود سن لی۔ آگاہ ہو جاؤ! ادنیٰ (اور کم مرتبہ) مسلمان بھی کسی کو مسلمانوں پر پناہ دے سکتا ہے۔“