-" إن الناس إذا راوا الظالم فلم ياخذوه بيده، اوشك ان يعمهم الله بعقاب منه".-" إن الناس إذا رأوا الظالم فلم يأخذوه بيده، أوشك أن يعمهم الله بعقاب منه".
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ»”اے ایمان والو! اپنی فکر کرو، جب تم راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ رہے، اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں۔“(۵-المائدة:۱۰۵) اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جب لوگ ظالم کو دیکھ کر اسے ظلم سے باز نہیں رکھیں گے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عام عذاب مسلط کر دے۔“
سیدنا ثعلبہ بن حکم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: دشمن کی بکریاں ہمارے ہاتھ لگ گئیں، ہم نے وہ لوٹ لیں اور اپنی ہانڈیاں چڑھا دیں، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہانڈیوں کے پاس سے گزرے تو (انہیں انڈیلنے کا) حکم دیا، پس وہ انڈیل دی گئیں، پھر فرمایا: ”لوٹنا حلال نہیں ہے۔“
- (انا آخذ بحجزكم عن النار؛ اقول: إياكم وجهنم! إياكم والحدود! فإذا مت فانا فرطكم وموعدكم على الحوض، فمن ورد افلح. وياتي قوم فيؤخ بهم ذات الشمال، فاقول: يا رب امتي! فيقال: لا تدري ما احدثوا بعدك مرتدين على اعقابهم).- (أنا آخذ بِحُجَزِكُم عن النار؛ أقولُ: إيَّاكم وجهنم! إياكم والحدود! فإذا متُّ فأنا فَرَطُكُم ومَوْعِدُكُم على الحوضِ، فَمَن وَرَدَ أفلح. ويأتي قومٌ فيُؤخَُ بهم ذات الشمال، فأقول: يا ربِّ أمتي! فيقال: لا تدري ما أحدثوا بعدك مُرتدِّين على أعقابهم).
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں آگ سے بچانے کے لیے تمہاری کمروں سے پکڑ کر (پیچھے کھینچتا ہوں) اور کہتا ہوں: جہنم سے بچو، حدود (کو پھلانگنے) سے بچو۔ جب میں فوت ہو جاؤں گا تو تمہارا پیش رو ہوں گا اور حوض پر تم سے ملوں گا، جو وہاں آ گیا، وہ کامیاب ہو جائے گا۔ کچھ لوگ وہاں پہنچیں گے تو سہی لیکن انہیں بائیں جانب دھکیل دیا جائے گا۔ میں کہوں گا: اے میرے رب! یہ تو میری امت ہے۔ سو کہا جائے گا: آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے کون کون سی بدعات کو فروغ دیا، یہ اپنی ایڑیوں پر پلٹ کر مرتد ہوگئے تھے۔“
- (إن رسول الله يفعل ذلك (يعني: تقبيل الزوجة وهو صائم)، انا اتقاكم لله، واعلمكم بحدود الله).- (إنَّ رسولَ الله يفعلُ ذلكَ (يعني: تقبيلَ الزوجةِ وهو صائمٌ)، أنا أتقاكم للهِ، وأعلمُكم بحدودِ اللهِ).
عطا بن یسار، ایک انصاری آدمی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک انصاری نے اسے بیان کرتے ہوئے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لے لیا، سو میں نے اپنی بیوی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی بابت سوال کرنے کے لیے بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رسول اللہ خود اس طرح کر لیتے ہیں۔“ جب میری بیوی نے واپس آ کر مجھے یہ حدیث سنائی تو میں نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو بعض چیزوں کی (بطور خاص) رخصت دے دی جاتی ہے، لہٰذا تو واپس جا اور (ذرا وضاحت کے ساتھ) دریافت کر۔ سو اس نے واپس جا کر کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض چیزوں میں (بطور خاص) رخصتیں دی جاتی ہیں، (ہم کیا کریں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا اور اس کی حدود کو سب سے زیادہ جاننے والا ہوں۔“
-" إنكم تختصمون إلي، وإنما انا بشر، ولعل بعضكم ان يكون الحن بحجته من بعض وإنما اقضي لكم على نحو مما اسمع منكم، فمن قضيت له من حق اخيه شيئا فلا ياخذه، فإنما اقطع له قطعة من النار ياتي بها يوم القيامة".-" إنكم تختصمون إلي، وإنما أنا بشر، ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض وإنما أقضي لكم على نحو مما أسمع منكم، فمن قضيت له من حق أخيه شيئا فلا يأخذه، فإنما أقطع له قطعة من النار يأتي بها يوم القيامة".
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ میرے پاس جھگڑا لے کر آتے ہو اور میں تو محض ایک بشر ہوں، ممکن ہے کہ ایک آدمی دوسرے کی بہ نسبت اپنی دلیل کو وضاحت کے ساتھ پیش کر لیتا ہو اور میں تو اپنی شنید کے مطابق ہی فیصلہ کروں گا۔ (تم یاد رکھو) اگر میں اس کے بھائی کے حق کا فیصلہ اس کے حق میں کر دیتا ہوں تو وہ اس چیز کو وصول نہ کرے کیونکہ وہ تو آگ کا ٹکڑا ہے جو میں اسے کاٹ کر دے رہا ہوں اور وہ اسے قیامت کے روز بھی اپنے ساتھ لائے گا۔“
-" إنما انا بشر وإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم ان يكون الحن بحجته من بعض فاقضي له على نحو ما اسمع منه. فمن قضيت له من حق اخيه بشيء فلا ياخذ منه شيئا فإنما اقطع له قطعة من النار".-" إنما أنا بشر وإنكم تختصمون إلي ولعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض فأقضي له على نحو ما أسمع منه. فمن قضيت له من حق أخيه بشيء فلا يأخذ منه شيئا فإنما أقطع له قطعة من النار".
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”محض میں ایک بشر ہوں، تم میرے پاس جھگڑا لے کر آتے ہو اور ممکن ہے کہ ایک آدمی دوسرے کی بہ نسبت دلائل کو وضاحت کے ساتھ پیش کر سکتا ہو میں تو جیسے بات سنوں گا اسی کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ (تم یاد رکھو کہ) اگر میں نے کسی کے حق میں دوسرے کے حق کا فیصلہ کر دیا تو وہ اسے وصول نہ کرے، کیونکہ میں (اس صورت میں) اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں گا۔
-" إنه راس قومه، فانا اتالفهم فيه".-" إنه رأس قومه، فأنا أتألفهم فيه".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”فلاں مزدور کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے؟“ میں نے کہا: مسکین سا ہے، بس عام لوگوں کی طرح۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فلاں آدمی کے بارے میں تیرا کیا خیال ہے؟“ میں نے کہا: وہ تو اعلیٰ قسم کا سردار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس قسم کا ایک مزدور فلاں قسم کے زمین بھر یا ہزاروں سادات سے بہتر ہے۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! فلاں آدمی بھی تو (اسی قسم کا سردار ہے) اور آپ اس کی بڑی آؤ بھگت کرتے ہیں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اپنی قوم کا سردار ہے، میں اس کی تالیف قلبی کے لیے (اس سے حسن سلوک سے پیش آتا ہوں)۔“
-" ايحسب احدكم متكئا على اريكته قد يظن ان الله لم يحرم شيئا إلا ما في هذا القرآن؟! الا وإني والله قد امرت ووعظت ونهيت عن اشياء إنها لمثل هذا القرآن او اكثر وإن الله عز وجل لم يحل لكم ان تدخلوا بيوت اهل الكتاب إلا بإذن ولا ضرب نسائهم ولا اكل ثمارهم، إذا اعطوكم الذي عليهم".-" أيحسب أحدكم متكئا على أريكته قد يظن أن الله لم يحرم شيئا إلا ما في هذا القرآن؟! ألا وإني والله قد أمرت ووعظت ونهيت عن أشياء إنها لمثل هذا القرآن أو أكثر وإن الله عز وجل لم يحل لكم أن تدخلوا بيوت أهل الكتاب إلا بإذن ولا ضرب نسائهم ولا أكل ثمارهم، إذا أعطوكم الذي عليهم".
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر میں پڑاؤ ڈالا، صحابہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ خیبر کا سردار بڑا سرکش اور دھوکہ باز آدمی تھا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: اے محمد! کیا تم ہو جو ہمارے گدھے ذبح کرو گے، ہمارے پھل کھاؤ گے اور ہماری عورتوں پر قبضہ کرو گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آ گئے اور فرمایا: ”اے ابن عوف! گھوڑے پر سوار ہو کر اعلان کر: خبردار! جنت میں داخل ہونے والا صرف مومن ہو گا اور یہ (منادی بھی کرو کہ) نماز کے لیے جمع ہو جاؤ۔“ لوگ جمع ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی، پھر کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”کیا کوئی آدمی اپنے تیکے پر ٹیک لگا کر یہ گمان کر سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وہی چیزیں حرام کی ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے؟ آگاہ ہو جاؤ! اللہ کی قسم! میں نے کچھ حکم دیے ہیں اور وعظ و نصیحت کی ہے اور کچھ چیزوں سے منع کیا ہے۔ (میرے بیان کردہ احکام) قرآن مجید کے احکام جتنے یا ان سے بھی زیادہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بغیر اجازت کے اہل کتاب کے گھروں میں داخل ہونے، ان کی عورتوں کو مارنے اور ان کے پھل کھانے کو حلال نہیں کیا، بشرطیکہ وہ ان امور کی ادائیگی کرتے رہیں۔ جو ان کی ذمہ داری میں ہیں۔“
سیدنا عبداللہ بن معاویہ بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اے اللہ کے رسول! حرام کردہ چیزوں میں سے کون سی چیزیں میرے لیے حلال ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، اس نے تین دفعہ سوال دوہرایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ پھر فرمایا: ”سوال کرنے والا کون ہے؟“ اس آدمی نے جواباً عرض کیا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! میں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی کی ٹھونگ ماری اور فرمایا: ”جو چیز تیرے دل کو ناپسند لگے، اسے چھوڑ دے۔“
-" ايما رجل ظلم شبرا من الارض كلفه الله عز وجل ان يحفره حتى يبلغ آخر سبع ارضين، ثم يطوقه إلى يوم القيامة حتى يقضى بين الناس".-" أيما رجل ظلم شبرا من الأرض كلفه الله عز وجل أن يحفره حتى يبلغ آخر سبع أرضين، ثم يطوقه إلى يوم القيامة حتى يقضى بين الناس".
سیدنا یعلیٰ بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس آدمی نے زمین پر ایک بالشت کے بقدر ناجائز قبضہ کیا، اللہ تعالیٰ اسے اس بات کا مکلف ٹھہرائیں گے کہ وہ کھدائی کرے، یہاں تک کہ ساتویں زمین کی آخری (تہہ) تک پہنچ جائے، پھر اسے قیامت کے روز لوگوں کا فیصلہ ہونے تک اس کا طوق پہنایا جائے گا۔“