سیدہ ام الفضل رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک بدو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر پر تھے، اس نے کہا: اے اللہ کے نبی! میری ایک بیوی تھی، میں نے اس پر ایک اور شادی کر لی، اب میری سابقہ بیوی کا یہ خیال ہے کہ اس نے میری نئی بیوی کو ایک یا دو دفعہ دودھ پلایا تھا، (اب میں کیا کروں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک دفعہ یا دو دفعہ دودھ پلانا (رشتوں کو) حرام نہیں کرتا۔“
-" لا تضربه، فإني نهيت عن ضرب اهل الصلاة".-" لا تضربه، فإني نهيت عن ضرب أهل الصلاة".
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں سے دو غلاموں سمیت تشریف لائے، ان میں سے ایک سیدنا علی صلوات اللہ علیہ کو ہبہ کرتے ہوئے فرمایا: ”اس کو مارنا نہیں۔ کیونکہ مجھے نمازیوں کو مارنے سے منع کیا گیا ہے اور ہم جب سے وہاں روانہ ہوئے ہیں، میں اس کو نماز پڑھتے دیکھ رہا ہوں۔“ دوسرا غلام سیدنا ابوزر رضی اللہ عنہ کو دیا اور فرمایا: ”اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔“ انہوں نے اسے آزاد کر دیا۔ (ایک دن) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے (غلام کے بارے میں پوچھا: کہ)”وہ کیسا چل رہا ہے؟“ انہوں نے کہا: آپ نے مجھے وصیت کی تھی کہ میں اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤں، (اس وصیت پر عمل کرے ہوئے) میں نے اسے آزاد کر دیا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرے جو مینڈھے پر تیر پھینک رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس فعل کو ناپسند کیا اور فرمایا: ”جانوروں کا مثلہ نہ کیا کرو۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اپنے بھائی کو اس کے حق میں کمی کر دینے والا) نقصان پہنچانا اور (پہنچائی گئی اذیت سے) زیادہ ضرر پہنچانا جائز نہیں۔“یہ حدیث سیدنا ابوسعید خدری، سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا عبادہ بن صامت، سیدہ عائشہ، سیدنا ابوہریرہ، سیدنا جابر بن عبداللہ اور سیدنا ثعلبہ بن مالک رضی اللہ عنہم سے موصولاً اور مرسلاً روایت کی گئی ہے۔
-" لا يقتل بعضكم بعضا [ولا يصب بعضكم (بعضا) ]، وإذا رميتم الجمرة فارموا بمثل حصا الخذف".-" لا يقتل بعضكم بعضا [ولا يصب بعضكم (بعضا) ]، وإذا رميتم الجمرة فارموا بمثل حصا الخذف".
سلیمان بن عمرو بن احوص اپنی ماں سیدہ ام جندب رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے وادی کے اندر سے جمرے کو کنکریاں ماریں، اس حال میں کہ آپ سوار تھے، ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے، ایک آدمی آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا جو آپ پر پردہ کر رہا تھا۔ میں نے اس آدمی کے بارے میں دریافت کیا کہ وہ کون تھا؟ انہوں نے کہا: کہ وہ فضل بن عباس تھا۔ لوگ بری تعداد میں اکٹھے ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی کسی کو قتل نہ کرے اور نہ کوئی کسی کو زخمی کرے اور جب تم لوگ جمرے کو کنکریاں مارو تو وہ (سائز میں اس کنکری کے برابر ہوں جو) بیچ کی دو انگلیوں میں رکھ کر پھینکی جاتی ہے (یعنی لوہے اور چنے وغیرہ کے دانے کے برابر ہو)۔“
-" لا، ولكن نهيت عن صوتين احمقين فاجرين: صوت عند مصيبة، خمش وجوه، وشق جيوب، ورنة شيطان".-" لا، ولكن نهيت عن صوتين أحمقين فاجرين: صوت عند مصيبة، خمش وجوه، وشق جيوب، ورنة شيطان".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف کا ہاتھ پکڑا اور اپنے بیٹے ابراہیم کی طرف چل پڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا دیکھتے ہیں کہ وہ جان بلب تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اٹھایا، اپنی گود میں رکھا اور رونے لگ گئے۔ سیدنا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے آپ کو کہا: کیا آپ رو رہے ہیں، آپ نے تو رونے سے منع نہیں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، میں نے تو دو بری اور بدکار آوازوں سے منع کیا ہے: ?? مصیبت کے وقت آواز نکالنے، چہرہ نوچنے، گریبان چاک کرنے اور ② شیطان کی جھنکار (یا زوردار چیخ)۔“
-" لا يمنعن رجلا هيبة الناس ان يقول بحق إذا علمه (او شهده او سمعه)".-" لا يمنعن رجلا هيبة الناس أن يقول بحق إذا علمه (أو شهده أو سمعه)".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کسی آدمی کو حق کا علم ہو یا اس نے دیکھا ہو یا اس نے سنا ہو تو لوگوں کا ہیبت و جلال اسے اس حق کی وضاحت کرنے سے نہ روکنے پائے۔“