-" نضر الله امرءا سمع منا حديثا فحفظه حتى يبلغه غيره، فإنه رب حامل فقه ليس بفقيه، ورب حامل فقه إلى من هو افقه منه، ثلاث خصال لا يغل عليهن قلب مسلم ابدا: إخلاص العمل لله، ومناصحة ولاة الامر، ولزوم الجماعة، فإن دعوتهم تحيط من ورائهم، وقال: من كان همه الآخرة، جمع الله شمله، وجعل غناه في قلبه، واتته الدنيا وهي راغمة، ومن كانت نيته الدنيا، فرق الله عليه ضيعته، وجعل فقره بين عينيه، ولم ياته من الدنيا إلا ما كتب له".-" نضر الله امرءا سمع منا حديثا فحفظه حتى يبلغه غيره، فإنه رب حامل فقه ليس بفقيه، ورب حامل فقه إلى من هو أفقه منه، ثلاث خصال لا يغل عليهن قلب مسلم أبدا: إخلاص العمل لله، ومناصحة ولاة الأمر، ولزوم الجماعة، فإن دعوتهم تحيط من ورائهم، وقال: من كان همه الآخرة، جمع الله شمله، وجعل غناه في قلبه، وأتته الدنيا وهي راغمة، ومن كانت نيته الدنيا، فرق الله عليه ضيعته، وجعل فقره بين عينيه، ولم يأته من الدنيا إلا ما كتب له".
ابان بن عثمان کہتے ہیں: سیدنا زید بن ثابت رضی الله عنہ تقریباً نصف النہار کو مروان کے پاس سے نکلے۔ ہم نے کہا: اس وقت مروان نے ان سے کوئی سوال کرنے کے لئے ان کو بلایا ہو گا۔ میں ان کے پاس چلا گیا اور یہی بات پوچھی۔ انہوں نے کہا: جی ہاں، اس نے ہم سے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی چند احادیث کے بارے میں سوال کیا. میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”الله تعالیٰ اس آدمی کو خوشنما اور ترو تازہ رکھے جو میری حدیث سنتا ہے، اس کی حفاظت کرتا ہے اور اسے دوسروں تک پہنچا دیتا ہے. کئی حاملین حدیث فقیہ نہیں ہوتے اور کئی حاملین فقہ اپنے سے زیادہ فقیہ آدمی تک (میری احادیث) پہنچا دیتے ہیں. تین خصائل پر مومن کا دل کبھی بھی خیانت نہیں کرتا: خلوص کے ساتھ الله تعالیٰ کے لئے عمل کرنا، ارباب حل و عقد کی خیر خواہی کرنا اور جماعت کو لازم پکڑنا، کیونکہ ان کی دعا سب کو شامل ہوتی ہے۔“ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس آدمی کی فکر آخرت ہو، الله تعالیٰ اس کے امور کی شیرازہ بندی کر دیتا ہے، اس کے دل کو غنی کر دیتا ہے اور دنیا ذلیل ہو کر اس کے پاس آ جاتی ہے اور جس کا ہدف دنیا ہو، الله تعالیٰ اس کے منافعوں کا شیرازہ منتشر کر دیتا ہے، اس کی فقیری کو اس کی پیشانی پر رکھ دیتا ہے اور اس کے پاس دنیا بھی اس کے مقدر کے مطابق پہنچتی ہے۔“
-" الناس اربعة والاعمال ستة، فالناس: 1 - موسع عليه في الدنيا والآخرة،-" الناس أربعة والأعمال ستة، فالناس: 1 - موسع عليه في الدنيا والآخرة،
سیدنا خریم بن فاتک اسدی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کی چار اور اعمال کی چھ اقسام ہیں: لوگوں (کی چار اقسام یہ ہیں:)(۱) دنیا و آخرت میں خوشحال، (۲) دنیا میں خوشحال اور آخرت میں بدحال، (۳) دنیا میں تنگ حال اور آخرت میں خوشحال، (۴) دنیا و آخرت میں بدبخت۔ اعمال (کی اقسام یہ ہیں:)(۱، ۲) واجب کرنے والے دو اعمال، (۳، ۴) برابر سرابر، (۵) دس گنا اور (۶) سات سو گنا۔ (ان کی تفصیل یہ ہے:) واجب کرنے والے دو اعمال سے مراد یہ ہے: جو مسلمان و مومن اس حال میں فوت ہوتا ہے کہ وہ الله کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا، اس کے لئے جنت واجب ہو جاتی ہے۔ اور جو کافر کفر کی حالت میں مرتا ہے، اس کے لئے جہنم واجب ہو جاتی ہے۔ (۳، ۴) جس نے نیکی کرنے کا رادہ کیا اور عملاً نہ کر سکا، لیکن اس کے دل نے اس نیکی کو محسوس کیا اور اس کی طرف راغب ہوا تو ایک نیکی لکھی جائے گی اور جس نے برائی کا رادہ کیا تو اسے اس وقت تک نہیں لکھا جاتا جب تک وہ عملاً کر نہیں لیتا اور اگر کر بھی لیتا ہے تو ایک برائی لکھی جاتی ہے، (نیکی کی طرح) بڑھا چڑھا کر نہیں لکھا جاتا۔ (۵) جس نے عملاً نیکی کی اسے دس گنا ثواب ملے گا اور (۶) جس نے الله تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیا اسے سات سو گنا تک اجر ملے گا۔“
- (هل لك ان اريك آية؟ وعنده نخل وشجرة، فدعا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عذقا منها، فاقبل إليه، وهو يسجد ويرفع راسه، حتى انتهى إليه، فقام بين يديه، فقال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم -:"ارجع إلى مكانك"، فرجع إلى مكانه).- (هل لك أن أريك آية؟ وعنده نخل وشجرة، فدعا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عِذقاً منها، فأقبل إليه، وهو يسجد ويرفعُ رأسه، حتى انتهى إليه، فقام بين يديه، فقال له رسول الله - صلى الله عليه وسلم -:"ارجع إلى مكانك"، فرجع إلى مكانه).
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: بنو عامر قبیلے کا ایک معالج آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے محمد! آپ عجیب و غریب باتیں کرتے ہیں، تو کیا میں آپ کا علاج کر سکتا ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی اور فرمایا: ”کیا میں تجھے کوئی (خاص) نشانی دکھاؤں؟ آپ کے قریب کھجوروں کے اور دوسرے درخت تھے . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوروں کے گچھے کو بلایا، وہ آپ کی طرف متوجہ ہوا، سجدہ کرتے کرتے اور سر اٹھاتے اٹھاتے آپ کے پاس پہنچ گیا اور آپ کے سامنے کھڑا ہو گیا. پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی جگہ کی طرف لوٹ جا.“ وہ لوٹ گیا . یہ علامت دیکھ کر عامری نے کہا: اللہ کی قسم! میں آپ کو کبھی بھی نہیں جھٹلاؤں گا۔ پھر فرمایا: اے آل بنی صعصہ! آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جو کہتے رہیں، میں آپ کو کبھی نہیں جھٹلاؤں گا۔
- (لا تتهم الله تبارك وتعالى في شيء قضى لك به).- (لا تتَّهم الله تباركَ وتعالى في شيء قضى لك به).
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے نبی! کون سا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ پر ایمان لانا، اس کی تصدیق کرنا اور اس کے راستے میں جہاد کرنا۔“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اس سے آسان عمل چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” عفو و درگزر کرنا اور صبر کرنا۔“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرا ارادہ تو اس سے بھی آسان عمل کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تیرے بارے میں جو فیصلہ کر دے اس پر ناخوش نہ ہونا (بلکہ راضی ہو جانا)۔“
-" قال الله عز وجل: يؤذيني ابن آدم يقول: يا خيبة الدهر (وفي رواية: يسب الدهر) فلا يقولن احدكم: يا خيبة الدهر، فإني انا الدهر: اقلب ليله ونهاره فإذا شئت قبضتهما".-" قال الله عز وجل: يؤذيني ابن آدم يقول: يا خيبة الدهر (وفي رواية: يسب الدهر) فلا يقولن أحدكم: يا خيبة الدهر، فإني أنا الدهر: أقلب ليله ونهاره فإذا شئت قبضتهما".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آدم کا بیٹا مجھے تکلیف دیتا ہے، وہ کہتا ہے: ہائے زمانے کی ناکامی و نامرادی! اور ایک روایت میں ہے کہ وہ زمانے کو برا بھلا کہتا ہے، تم میں سے کوئی بھی ایسے نہ کہا کرے کہ ہائے زمانے کی ناکامی، کیونکہ میں (اللہ) زمانہ ہوں، میں دن اور رات کو الٹ پلٹ کرتا ہوں اور جب میں چاہوں گا ان کا سلسلہ ختم کر دوں گا۔“
ـ (يقول الله عز وجل: استقرضت عبدي فلم يقرضني، وشتمني عبدي وهو لا يدري (وفي رواية: ولا ينبغي له شتمي)، يقول: وادهراه! وادهراه! [ثلاثا]، وانا الدهر).ـ (يقولُ اللهُ عزّ وجلّ: استقرضْتُ عبدِي فلم يُقرضْنِي، وشتمَني عبدِي وهو لا يدْري (وفي روايةٍ: ولا ينبغِي له شتْمِي)، يقولُ: وادهْراه! وادهراه! [ثلاثاً]، وأنا الدهرُ).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے اپنے بندے سے قرضے کا سوال کیا، لیکن اس نے مجھے قرضہ نہیں دیا اور میرا بندہ مجھے لاشعوری کیفیت میں گالی دے رہا ہوتا ہے، حالانکہ اسے یہ زیب نہیں دیتا۔ وہ کہتا ہے: ہائے! افسوس زمانے پر، ہائے! افسوس زمانے پر، ہائے افسوس زمانے پر، جبکہ میں (اللہ) زمانہ ہوں۔“
-" لا تسبوا الدهر، فإن الله عز وجل قال: انا الدهر: الايام والليالي لي اجددها وابليها وآتي بملوك بعد ملوك".-" لا تسبوا الدهر، فإن الله عز وجل قال: أنا الدهر: الأيام والليالي لي أجددها وأبليها وآتي بملوك بعد ملوك".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زمانے کو برا بھلا نہ کہا: کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں زمانہ ہوں، میں دنوں اور راتوں کی تجدید کرتا ہوں اور پھر بوسیدہ کر دیتا ہوں اور بادشاہوں کو بھی یکے بعد دیگر بدلا بدلا کر لاتا ہوں۔“
-" لا نعلم شيئا خيرا من مائة مثله إلا الرجل المؤمن".-" لا نعلم شيئا خيرا من مائة مثله إلا الرجل المؤمن".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سوائے مومن کے کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اپنی مثل کی سو چیزوں سے بہتر ہو.“
-" لا يؤمن احدكم حتى يحب لاخيه ما يحب لنفسه (من الخير)".-" لا يؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه (من الخير)".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی آدمی اس وقت (مکمل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی خیر و بھلائی پسند نہیں کرتا جو اپنے لئے کرتا ہے۔“
-" لا يجتمع الإيمان والكفر في قلب امرئ، ولا يجتمع الكذب والصدق جميعا، ولا تجتمع الخيانة والامانة جميعا".-" لا يجتمع الإيمان والكفر في قلب امرئ، ولا يجتمع الكذب والصدق جميعا، ولا تجتمع الخيانة والأمانة جميعا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی کے دل میں ایمان اور کفر دونوں جمع نہیں ہو سکتے اور اسی طرح سچ اور جھوٹ بھی جمع نہیں ہو سکتے اور خیانت اور امانت کا اکٹھ بھی نہیں ہو سکتا.“