-" لو قلت:" بسم الله" لطارت بك الملائكة والناس ينظرون إليك. قاله لطلحة حين قطعت اصابعه فقال: حس".-" لو قلت:" بسم الله" لطارت بك الملائكة والناس ينظرون إليك. قاله لطلحة حين قطعت أصابعه فقال: حس".
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو ”بسم اللہ“ کہتا، تو فرشتے تجھے لے کر اڑ جاتے اور لوگ دیکھ رہے ہوتے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کو اس وقت ارشاد فرمائی تھی جب انہوں نے (ایک تکلیف کی وجہ سے)”ہائے“ کہا تھا۔ یہ حدیث سیدنا جابر، سیدنا انس رضی اللہ عنہما اور ابن شہاب سے مرسلاً مروی ہے۔
-" لو لم تكله لاكلتم منه، ولقام لكم".-" لو لم تكله لأكلتم منه، ولقام لكم".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کھانا طلب کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جو کا آدھا وسق دیا۔ وہ آدمی، اس کی بیوی اور اس کا مہمان اس سے کھاتے رہے، وہ (اتنا بابرکت تھا کہ ختم ہی نہیں ہو رہا تھا)، ایک دن اس نے اس کا وزن کر دیا، تو وہ ختم ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو اس کا وزن نہ کرتا تو تم کھاتے رہتے اور وہ تمہارے لئے باقی رہتا۔“
-" ليس احد احب إليه المدح من الله عز وجل، ولا احد اكثر معاذير من الله عز وجل".-" ليس أحد أحب إليه المدح من الله عز وجل، ولا أحد أكثر معاذير من الله عز وجل".
سیدنا اسود بن سریع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ہی ہے جسے سب سے زیادہ تعریف پسند ہے اور اللہ ہی ہے جو سب سے زیادہ عذر قبول کرنے والا ہے۔“
-" ليس احد اصبر على اذى سمعه من الله، إنهم ليدعون له ولدا (ويجعلون له ندا) وإنه ليعافيهم (ويدفع عنهم) ويرزقهم (ويعطيهم)".-" ليس أحد أصبر على أذى سمعه من الله، إنهم ليدعون له ولدا (ويجعلون له ندا) وإنه ليعافيهم (ويدفع عنهم) ويرزقهم (ويعطيهم)".
سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تکلیف والی بات سن کر سب سے زیادہ صبر کرنے والا اللہ ہے، لوگ اس کا بیٹا ہونے کا دعوی کر دیتے ہیں اور کسی کو اس کا ہمسر بنا دیتے ہیں، لیکن وہ (فوراً انتقام لینے کی بجائے) ان کو عافیت دیتا ہے، ان کی حفاظت کرتا ہے، انہیں رزق عطا کرتا ہے اور انہیں (کئی نعمتیں) عطا کرتا ہے۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کے پاس ہمارے (ایمان و اسلام) کی کیفیت اور ہوتی ہے اور دوسروں کے پاس اور (ہمیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ نفاق ہے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اپنے رب اور اپنے نبی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟“، انہوں نے کہا: ہم جلوتوں اور خلوتوں میں (یہ اقرار تو کرتے ہیں کہ) اللہ ہمارا رب ہے اور آپ ہمارے نبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو نفاق نہیں ہے۔“ راوی حدیث ابویعلی کی روایت میں ”اپنے نبی“ کے الفاظ ہیں۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم ایک غزوے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ایک مہاجر نے ایک انصاری کے سرین پر ہاتھ یا لات ماری۔ انصاری نے (خاندانی غیرت و حمیت کا مسئلہ سمجھ کر) انصار کو یوں پکارا: او انصاریو! اور مقابلے میں مہاجر نے کہا: او مہاجرو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سن کر) فرمایا: ”یہ جاہلیت کی پکاریں کیسے؟“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایک مہاجر نے ایک انصاری کو چھیڑا ہے، (اس کی وجہ سے یہ للکاریں شروع ہو گئیں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان (نسبتوں) کو ترک کر دو، یہ گندی ہیں۔“ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو انصار کی تعداد زیادہ تھی، بعد میں مہاجرین کی تعداد بھی بڑھ گئی۔ جب عبداللہ بن ابی منافق نے یہ بات سنی تو اس نے کہا: کیا یہ لوگ اس حد تک پہنچ گئے ہیں؟ جب ہم مدینہ کی طرف واپس جائیں گے تو ہم عزت والے ان ذلیلوں کو مدینہ سے نکال دیں گے . سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: (اے اللہ کے رسول!) مجھے اجازت دیجئے، میں اس منافق کا سر قلم کر دیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہنے دو، کہیں لوگ یہ کہنا شروع نہ کر دیں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے صحابہ کو بھی قتل کر دیتا ہے۔“
-" مثل المؤمن مثل النحلة، لا تاكل إلا طيبا، ولا تضع إلا طيبا".-" مثل المؤمن مثل النحلة، لا تأكل إلا طيبا، ولا تضع إلا طيبا".
سیدنا ابورزین اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کی مثال شہد کی مکھی کی طرح ہے، جو (زمین سے بطور خوراک) پاکیزہ چیزیں استعمال میں لاتی ہے اور پاکیزہ پھل دیتی ہے۔“
-" مثل المؤمن مثل النخلة، ما اخذت منها من شيء نفعك".-" مثل المؤمن مثل النخلة، ما أخذت منها من شيء نفعك".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کی مثال کھجور کے درخت کی ہے کہ اس کی ہر چیز فائدہ دیتی ہے۔“
-" والله لقد بعث الله النبي صلى الله عليه وسلم على اشد حال بعث عليها فيه نبي من الانبياء في فترة وجاهلية، ما يرون ان دينا افضل من عبادة الاوثان، فجاء بفرقان فرق به بين الحق والباطل وفرق بين الوالد وولده حتى إن كان الرجل ليرى والده وولده او اخاه كافرا، وقد فتح الله قفل قلبه للإيمان، يعلم انه إن هلك دخل النار، فلا تقر عينه وهو يعلم ان حبيبه في النار، وإنها للتي قال الله عز وجل: * (الذين يقولون ربنا هب لنا من ازواجنا وذرياتنا قرة اعين) *".-" والله لقد بعث الله النبي صلى الله عليه وسلم على أشد حال بعث عليها فيه نبي من الأنبياء في فترة وجاهلية، ما يرون أن دينا أفضل من عبادة الأوثان، فجاء بفرقان فرق به بين الحق والباطل وفرق بين الوالد وولده حتى إن كان الرجل ليرى والده وولده أو أخاه كافرا، وقد فتح الله قفل قلبه للإيمان، يعلم أنه إن هلك دخل النار، فلا تقر عينه وهو يعلم أن حبيبه في النار، وإنها للتي قال الله عز وجل: * (الذين يقولون ربنا هب لنا من أزواجنا وذرياتنا قرة أعين) *".
عبد الرحمن بن جبیر بن نفیر اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: ایک دن ہم سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں وہاں سے ایک آدمی کا گزر ہوا۔ اس نے سیدنا مقداد کو دیکھ کر کہا: ان دو آنکھوں کے لئے خوشخبری ہے، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا، ہم چاہتے ہیں کہ جو کچھ آپ نے دیکھا، ہم بھی دیکھتے اور جہاں جہاں آپ حاضر ہوئے، ہم بھی وہاں پہنچتے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہوتی)۔ سیدنا مقداد غصہ میں آ گئے . مجھے بڑا تعجب ہوا کہ اس آدمی نے خیر و بھلائی والی بات ہی کی ہے، (یہ غصہ کیوں ہو رہے ہیں)؟ اتنے میں وہ اس آدمی کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: کون سی چیز بندے کو اس بات پر اکساتی ہے کہ وہ ایسے مشہد کی تمنا کرے، جہاں سے اللہ تعالیٰ نے اسے غائب رکھا ہو، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اگر وہ اس وقت ہوتا تو کس حالت میں ہوتا؟ (ذرا غور کرو) ایسے لوگ بھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے نتھنوں کے بل جہنم میں گرا دیا، انہوں نے آپ کی دعوت قبول کی نہ آپ کی تصدیق کی۔ کیا تم اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے کہ جب اس نے تمہیں پیدا کیا تو تم اپنے رب کو پہنچانتے تھے، نبی کی تعلم کی تصدیق کرتے تھے اور دوسروے لوگوں کی تکالایف تمہیں کفایت کر گئیں؟ (یعنی تم مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے اور تم سے پہلے والے لوگوں نے ابتلا و آزمائش میں پڑ کر تمہارے لئے دین کو محفوظ اور غالب کر دیا)۔ جب اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، تو اہل حق کے لئے حالات اتنے سنگین تھے، کہ ماضی کے فتروں اور جاہلیتوں میں تشریف لانے والے انبیائے کرام میں ان کی مثال نہیں ملتی، مخالف لوگ یہ سمجھتے تھے کہ بتوں کی عبادت افضل دین ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرقان مجید لے کر آئے، جس نے حق و باطل میں امتیاز کیا اور والد اور اولاد میں ایسی تفریق ڈال دی، کہ آدمی اپنے والد، اپنے بیٹے یا اپنے بھائی کو کافر سمجھنے لگا، اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر لگے ہوئے تالے کھول دئیے۔ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ ایسے ہی ہلاک ہو گیا تو وہ جہنم میں داخل ہو جائے گا اور اسے اس طرح سکون کیسے ملے گا کہ اس کا محبوب جہنم میں ہو اور یہی چیز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما۔“(سورہ الفرقان: ۷۴)
-" ملعون من سال بوجه (الله) وملعون من يسال بوجه الله ثم منع سائله ما لم يساله هجرا".-" ملعون من سأل بوجه (الله) وملعون من يسأل بوجه الله ثم منع سائله ما لم يسأله هجرا".
یزید بن مہلب کہتے ہیں: جب میں خراسان کا حاکم بنا تو میں نے کہا: مجھے ایسے آدمی کے پاس لے جاؤ جو خصائل خیر سے بدرجہ اکمل متصف ہو۔ سو مجھے ابوبردہ بن ابوموسی اشعری کے پاس لایا گیا۔ جب میں نے ان کو دیکھا تو انھیں فائق پایا اور جب ان سے کلام کی تو ان کے باطن کو ظاہر سے افضل پایا۔ میں نے کہا: میں تجھے اپنی فلاں فلاں ڈیوٹی کا امیر بناتا ہوں۔ انہوں نے معذرت کرنا چاہی، لیکن میں نے ان کی معذرت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا: اے امیر! کیا میں تجھے ایک حدیث بیان نہ کروں جو میرے باپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی؟ میں نے کہا: بیان کیجئے۔ انہوں نے کہا: میرے باپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جس آدمی نے ایسے کام کی ذمہ داری قبول کی، جس کا وہ اہل نہیں تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں تیار کر لے۔“ امیر صاحب! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اس ذمہ داری کا اہل نہیں ہوں، جو آپ مجھے سونپنا چاہتے ہیں . میں نے اسے کہا: تیری اس ساری گفتگو نے مجھے مزید آمادہ کیا ہے اور رغبت دلائی ہے کہ یہ عہدہ تجھے ہی سونپا جائے، لہذا جا اور یہ ذمہ داری سنبھال لے، اب میں تجھے معاف نہیں کروں گا. یہ سن کر وہ چلے گئے، کچھ وقت وہاں ٹھہرے رہے (اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے)۔ ایک دن امیر یزید کے پاس آنے کی اجازت طلب کی۔ جب اجازت ملی تو انہوں نے آ کر کہا: اے امیر! کیا میں تجھے ایسی حدیث بیان نہ کروں جو مجھے میرے باپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کی؟ انہوں نے کہا: بیان کیجئے۔ ابوبردہ نے کہا: وہ حدیث یہ ہے: ”وہ آدمی ملعون ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی ذات کا واسطہ دے کر سوال کیا اور وہ بھی ملعون ہے جس سے اللہ کی ذات کے واسطے سے سوال کیا گیا اور اس نے سائل کو کچھ نہ دیا، الا یہ کہ وہ کسی بیہودہ چیز کا سوال کرے۔“ اب میں اللہ تعالیٰ کی ذات کا واسطہ دے کر آپ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ اے امیر! اس عہدے کے سلسلہ میں میری معذرت قبول کرو، پس انہوں نے ان کی معذرت قبول کر لی۔