-" قال الله عز وجل: انا عند ظن عبدي، وانا معه إذا دعاني".-" قال الله عز وجل: أنا عند ظن عبدي، وأنا معه إذا دعاني".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی نے فرمایا: میں اپنے بندے کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہوں جو وہ مجھ سے گمان کرتا ہے اور جب وہ مجھے پکارتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔“
80. «ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الكافرون» (سورہ مائدہ: ۴۴) «ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الظالمون» (سورہ مائدہ: ۴۵) «ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الفاسقون» (سورہ مائدہ: ۴۷) کی تفسیر
-" إن الله عز وجل انزل: * (ومن لم يحكم بما انزل الله فاولئك هم الكافرون) * و* (اولئك هم الظالمون) * و * (اولئك هم الفاسقون) *. قال ابن عباس: انزلها الله في الطائفتين من اليهود، وكانت إحداهما قد قهرت الاخرى في الجاهلية حتى ارتضوا واصطلحوا على ان كل قتيل قتله (العزيزة) من (الذليلة) فديته خمسون وسقا، وكل قتيل قتله (الذليلة) من (العزيزة) فديته مائة وسق، فكانوا على ذلك، حتى قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة، فذلت الطائفتان كلتاهما لمقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، ويؤمئذ لم يظهر ولم يوطئهما عليه (¬1) وهو في الصلح، فقتلت الذليلة من العزيزة قتيلا، فارسلت (العزيزة) إلى (الذليلة) ان ابعثوا إلينا بمائة وسق، فقالت (الذليلة): وهل كان هذا في حيين قط دينهما واحد، ونسبهما واحد، وبلدهما واحد، دية بعضهم نصف دية بعض؟! إنا إنما اعطيناكم هذا ضيما ¬ (¬1) لفظ الطبراني:" ورسول الله صلى الله عليه وسلم يؤمئذ لم يظهر عليهم ولم يوطئهما، وهو الصلح". اهـ. منكم لنا، وفرقا منكم، فاما إذ قدم محمد فلا نعطيكم ذلك، فكادت الحرب تهيج بينهما، ثم ارتضوا على ان يجعلوا رسول الله صلى الله عليه وسلم بينهما، ثم ذكرت (العزيزة) فقالت: والله ما محمد بمعطيكم منهم ضعف ما يعطيهم منكم، ولقد صدقوا، ما اعطونا هذا إلا ضيما منا وقهرا لهم، فدسوا إلى محمد من يخبر لكم رايه، إن اعطاكم ما تريدون حكمتموه وإن لم يعطكم حذرتم فلم تحكموه. فدسوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ناسا من المنافقين ليخبروا لهم راي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم اخبر الله رسوله بامرهم كله وما ارادوا، فانزل الله عز وجل: * (يا ايها الرسول لا يحزنك الذين يسارعون في الكفر من الذين قالوا: آمنا) * إلى قوله: * (ومن لم يحكم بما انزل الله فاولئك هم الفاسقون) *، ثم قال: فيهما والله نزلت، وإياهما عنى الله عز وجل".-" إن الله عز وجل أنزل: * (ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الكافرون) * و* (أولئك هم الظالمون) * و * (أولئك هم الفاسقون) *. قال ابن عباس: أنزلها الله في الطائفتين من اليهود، وكانت إحداهما قد قهرت الأخرى في الجاهلية حتى ارتضوا واصطلحوا على أن كل قتيل قتله (العزيزة) من (الذليلة) فديته خمسون وسقا، وكل قتيل قتله (الذليلة) من (العزيزة) فديته مائة وسق، فكانوا على ذلك، حتى قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة، فذلت الطائفتان كلتاهما لمقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، ويؤمئذ لم يظهر ولم يوطئهما عليه (¬1) وهو في الصلح، فقتلت الذليلة من العزيزة قتيلا، فأرسلت (العزيزة) إلى (الذليلة) أن ابعثوا إلينا بمائة وسق، فقالت (الذليلة): وهل كان هذا في حيين قط دينهما واحد، ونسبهما واحد، وبلدهما واحد، دية بعضهم نصف دية بعض؟! إنا إنما أعطيناكم هذا ضيما ¬ (¬1) لفظ الطبراني:" ورسول الله صلى الله عليه وسلم يؤمئذ لم يظهر عليهم ولم يوطئهما، وهو الصلح". اهـ. منكم لنا، وفرقا منكم، فأما إذ قدم محمد فلا نعطيكم ذلك، فكادت الحرب تهيج بينهما، ثم ارتضوا على أن يجعلوا رسول الله صلى الله عليه وسلم بينهما، ثم ذكرت (العزيزة) فقالت: والله ما محمد بمعطيكم منهم ضعف ما يعطيهم منكم، ولقد صدقوا، ما أعطونا هذا إلا ضيما منا وقهرا لهم، فدسوا إلى محمد من يخبر لكم رأيه، إن أعطاكم ما تريدون حكمتموه وإن لم يعطكم حذرتم فلم تحكموه. فدسوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ناسا من المنافقين ليخبروا لهم رأي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم أخبر الله رسوله بأمرهم كله وما أرادوا، فأنزل الله عز وجل: * (يا أيها الرسول لا يحزنك الذين يسارعون في الكفر من الذين قالوا: آمنا) * إلى قوله: * (ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الفاسقون) *، ثم قال: فيهما والله نزلت، وإياهما عنى الله عز وجل".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اللہ تعالی نے یہ آیات نازل کیں: ”اور جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلہ نہ کریں وہ کافر ہیں“ اور ”وہ لوگ ظالم ہیں“ اور ”وہ لوگ فاسق ہیں“ انہوں نے کہا: اللہ تعالی نے یہ آیات یہودیوں کے دو گروہوں کے بارے میں نازل کیں، ان میں سے ایک نے دور جاہلیت میں دوسرے کو زیر کر لیا تھا، حتی کہ وہ راضی ہو گئے اور اس بات پر صلح کر لی کہ عزیزہ قبیلے نے ذلیلہ قبیلے کا جو آدمی قتل کیا، اس کی دیت پچاس وسق ہو گی اور ذلیلہ کا جو آدمی قتل کیا اس کی دیت سو (۱۰۰) وسق ہو گی، وہ اسی معاہدے پر برقرار تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے وہ دونوں قبیلے بے وقعت ہو گئے، حالانکہ ابھی تک آپ ان پر و صفائی کا زمانہ تھا۔ ادھر ذلیلہ نے عزیزہ کا بندہ قتل کر دیا، عزیزہ نے ذلیلہ کی طرف پیغام بھیجا کہ سو وسق ادا کرو۔ ذلیلہ والوں نے کہا: جن قبائل کا دین ایک ہو اور شہر ایک ہو، تو کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ایک کی دیت دوسرے کی بہ نسبت نصف ہو؟ ہم تمہارے ظلم و ستم کی وجہ سے تمہیں (سو وسق) دیتے رہے، اب جبکہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) آ چکے ہیں، ہم تمہیں نہیں دیں گے۔ ان کے مابین جنگ کے شعلے بھڑکنے والے ہی تھے کہ وہ آپس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بحیثیت فیصل راضی ہو گئے۔ عزیزہ کے ورثا آپس میں کہنے لگے: اللہ کی قسم! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہارے حق میں دو گنا کا فیصلہ نہیں کرے گا، ذلیلہ والے ہیں بھی سچے کہ وہ ہمارے ظلم و ستم اور قہر و جبر کی وجہ سے دو گناہ دیتے رہے، اب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس کسی آدمی کو بطور جاسوس بھیجو جو تمہیں اس کے فیصلے سے آگاہ کر سکے، اگر وہ تمہارے ارادے کے مطابق فیصلہ کر دے تو تم اسے حاکم تسلیم کر لینا اور اگر اس نے ایسے نہ کیا تو محتاط رہنا اور اسے فیصل تسلیم نہیں کرنا۔ سو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ منافق لوگوں کو بطور جاسوس بھیجا، جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو اللہ تعالی نے اپنے رسول کو ان کی تمام سازشوں اور ارادوں سے آگاہ کر دیا اور یہ آیات نازل فرمائیں: ”اے رسول! آپ ان کے پیچھے نہ کڑھیے جو کفر میں سبقت کر رہے ہیں خواہ وہ ان میں سے ہوں جو زبانی تو ایمان کا دعوہ تو کرتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کے دل با ایمان نہیں۔۔۔۔ اور جو اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلہ نہ کریں وہ کافر ہیں۔“(سورہ مائدہ: 41-44) پھر کہا: اللہ کی قسم! یہ آیتیں انہی دونوں کے بارے میں نازل ہوئیں اور اللہ تعالی کی مراد یہی لوگ تھے۔
-" قوله: * (ومن لم يحكم بما انزل الله فاولئك هم الكافرون) *، * (ومن لم يحكم بما انزل الله فاولئك هم الظالمون) *، * (ومن لم يحكم بما انزل الله فاولئك هم الفاسقون) *، قال: هي في الكفار كلها".-" قوله: * (ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الكافرون) *، * (ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الظالمون) *، * (ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الفاسقون) *، قال: هي في الكفار كلها".
سیدنا برا بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور جو لوگ اللہ تعالی کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وہ پورے اور پختہ کافر ہیں (سورہ مائدہ:۴۴) اور جو لوگ اللہ تعالی کے نازل کئے ہوئے کے مطابق حکم نہ کریں وہی لوگ ظالم ہیں (سورہ مائدہ: ۴۵) اور جو اللہ تعالی کے نازل کردہ سے ہی حکم نہ کریں وہ بدکار فاسق ہیں (سورہ مائدہ: ۴۷) یہ تمام آیات کفار کے بارے میں نازل ہوئیں۔“
-" إن الله عز وجل يضحك من رجلين يقتل احدهما الآخر فيدخلهما الله الجنة، يكون احدهما كافرا فيقتل الآخر، ثم يسلم فيغزو في سبيل الله فيقتل".-" إن الله عز وجل يضحك من رجلين يقتل أحدهما الآخر فيدخلهما الله الجنة، يكون أحدهما كافرا فيقتل الآخر، ثم يسلم فيغزو في سبيل الله فيقتل".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی ایسے دو آدمیوں پر ہنستا ہے، جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے اور وہ ان دونوں کو جنت میں داخل کرتا ہے۔ ان میں سے ایک کافر ہوتا ہے، جو دوسرے مومن کو شہید کر دیتا ہے، پھر وہ مسلمان ہو کر اللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے اور شہید ہو جاتا ہے۔“
-" إن الله يبعث لهذه الامة على راس كل مائة سنة من يجدد لها دينها".-" إن الله يبعث لهذه الأمة على رأس كل مائة سنة من يجدد لها دينها".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ اس امت میں ہر سو سال کے بعد دین کی تجدید کرنے کے لئے بعض افراد کو بھیجتا رہے گا۔“
-" إن الله يصنع كل صانع وصنعته".-" إن الله يصنع كل صانع وصنعته".
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی ہر قسم کا کاریگر (یا صنعت کار) اور اس کا ہنر (یا صنعت) پیدا کرتا ہے۔“
-" إن الله يقول: انا خير شريك، فمن اشرك بي احدا فهو لشريكي! يا ايها الناس! اخلصوا الاعمال لله، فإن الله عز وجل لا يقبل من العمل إلا ما خلص له، ولا تقولوا: هذا لله وللرحم وليس لله منه شيء! ولا تقولوا: هذا لله ولوجوهكم، فإنه لوجوهكم، وليس لله منه شيء".-" إن الله يقول: أنا خير شريك، فمن أشرك بي أحدا فهو لشريكي! يا أيها الناس! أخلصوا الأعمال لله، فإن الله عز وجل لا يقبل من العمل إلا ما خلص له، ولا تقولوا: هذا لله وللرحم وليس لله منه شيء! ولا تقولوا: هذا لله ولوجوهكم، فإنه لوجوهكم، وليس لله منه شيء".
سیدنا ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ فرماتا ہے: میں بہتریں حصہ دار ہوں اور وہ اس طرح جو میرے ساتھ کسی کو حصہ دار بنائے گا، میں اپنا سارے کا سارا حصہ اپنے حصے دار کو دے دوں گا (اور خود کچھ نہیں لوں گا)۔ لوگو! اللہ تعالی کے لئے خالص عمل کرو، کیونکہ اللہ تعالی وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالص اسی کے لئے کیا گیا ہو۔ یہ نہ کہا کرو: یہ اللہ تعالی کے لئے ہے اور یہ رشتہ و قرابت کے لئے ہے، ایسی (تقسیم) میں سے اللہ تعالی کے لئے کچھ نہیں ہوتا اور یہ بھی نہ کہا کرو: یہ اللہ کے لئے ہے اور یہ جناب کے لئے ہے، کیونکہ یہ سارے کا سارہ جنابوں کو ہی مل جاتا ہے اللہ تعالی کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔“
-" إن اخوف ما اخاف عليكم الشرك الاصغر، قالوا: وما الشرك الاصغر؟ قال الرياء، يقول الله عز وجل لاصحاب ذلك يوم القيامة إذا جازى الناس: اذهبوا إلى الذين كنتم تراءون في الدنيا، فانظروا هل تجدون عندهم جزاء؟!".-" إن أخوف ما أخاف عليكم الشرك الأصغر، قالوا: وما الشرك الأصغر؟ قال الرياء، يقول الله عز وجل لأصحاب ذلك يوم القيامة إذا جازى الناس: اذهبوا إلى الذين كنتم تراءون في الدنيا، فانظروا هل تجدون عندهم جزاء؟!".
سیدنا محمود بن لبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے تمہارے حق میں سب سے زیادہ ڈر شرک اصغر کا ہے۔“ صحابہ نے عرض کیا: شرک اصغر کیا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ریاکاری کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالی قیامت والے دن جب لوگوں کو بدلہ دے گا تو ریاکاروں سے کہے گا: ان ہستیوں کی طرف چلے جاؤ، جن کے سامنے دنیا میں ریاکاری کرتے تھے اور دیکھ آؤ آیا ان کے پاس کوئی بدلہ ہے؟“
- (إن اول الناس يقضى يوم القيامة عليه: رجل استشهد، فاتي به، فعرفه نعمه فعرفها. قال: فما عملت فيها؟ قال: قاتلت فيك حتى استشهدت. قال: كذبت، ولكنك قاتلت ليقال: جريء؛ فقد قيل. ثم امربه؛ فسحب على وجهه حتى القي في النار. ورجل تعلم العلم وعلمه، وقرا القرآن، فاتي به، فعرفه نعمه فعرفها. قال: فما عملت فيها؟ قال: تعلمت العلم وعلمته، وقرات فيك القرآن. قال: كذبت، ولكنك تعلمت العلم ليقال: عالم، وقرات القرآن ليقال: هو قارئ، فقد قيل. ثم امر به؛ فسحب على وجهه حتى القي في النار. ورجل وسع الله عليه، واعطاه من اصناف المال كله، فاتي به، فعرفه نعمه فعرفها، قال: فما عملت فيها؟ قال: ما تركت من سبيل تحب ان ينفق فيها إلا انفقت فيها لك. قال: كذبت، ولكئك فعلت ليقال: هو جواد، فقد قيل. ثم امر به؛ فسحب على وجهه ثم القي في النار).- (إنّ أول الناس يقضى يوم القيامة عليه: رجل استشهد، فأتي به، فعرفه نعمه فعرفها. قال: فما عملت فيها؟ قال: قاتلت فيك حتى استشهدت. قال: كذبت، ولكنك قاتلت ليقال: جريءٌ؛ فقد قيل. ثم أمربه؛ فسحب على وجهه حتى ألقي في النار. ورجلٌ تعلم العلم وعلمه، وقرأ القرآن، فأتي به، فعرفه نعمه فعرفها. قال: فما عملت فيها؟ قال: تعلمت العلم وعلمته، وقرأت فيك القرآن. قال: كذبت، ولكنك تعلمت العلم ليقال: عالمٌ، وقرأت القرآن ليقال: هو قارئٌ، فقد قيل. ثم أمر به؛ فسحب على وجهه حتى ألقي في النار. ورجل وسع الله عليه، وأعطاهُ من أصناف المال كله، فأُتي به، فعرفه نعمه فعرفها، قال: فما عملت فيها؟ قال: ما تركتُ من سبيل تحبُّ أن يُنفق فيها إلا أنفقت فيها لك. قال: كذبت، ولكئك فعلت ليقال: هو جوادٌ، فقد قيل. ثم اُمر به؛ فسحب على وجهه ثم ألقي في النار).
سلیمان بن یسار کہتے ہیں: جب لوگ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اردگرد سے بکھر گئے تو اہل شام کے ایک سرکردہ آدمی نے کہا: محترم! ہمیں کوئی حدیث بیان کرو، جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ انہوں نے کہا: جی ہاں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”قیامت کے دن سب سے پہلے (تین قسم کے) افراد کا فیصلہ کیا جائے گا: (۱) جس آدمی کو شہید کیا گیا، اسے لایا جائے گا، اللہ تعالی اسے اپنی نعمتوں کا تعارف کرائے گا، وہ پہچان لے گا۔ پھر اللہ تعالی پوچھے گا: تو کیا عمل کر کے لایا ہے؟ وہ کہے گا: میں نے تیرے راستے میں جہاد کیا، حتی کے شہید ہو گیا۔ اللہ تعالی فرمائے گا: تو جھوٹ بول رہا ہے، تو نے اس لئے جہاد کیا تھا تاکہ تجھے بہادر کہا جائے اور ایسے (دنیا میں) کہا جا چکا ہے۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (۲) علم سیکھنے سکھانے اور قرآن مجید پڑھنے والا آدمی، اسے لایا جائے گا، اللہ تعالی اسے اپنی نعمتوں کا تعارف کرائے گا، وہ اقرار کرے گا۔ اللہ تعالی فرمائے گا: تو کون سا عمل کر کے لایا ہے؟ وہ کہے گا: میں تیری خاطر علم سیکھا سکھایا اور قرآن مجید پڑھا۔ اللہ تعالی فرمائے گا: تو جھوٹ بول رہا ہے، حصول علم سے تیرا مقصد یہ تھا کہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس لیے پڑھا کہ قاری کہا جائے، سو ایسے تو کہا جا چکا ہے۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا کہ اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (۳) وہ آدمی جسے اللہ تعالی نے خوشحال اور مالدار بنایا اور اسے مال کی تمام اقسام عطا کیں، اسے لایا جائے گا، اللہ تعالی اسے اپنی نعمتوں کا تعارف کروائے گا، وہ پہچان لے گا۔ پھر اللہ تعالی فرمائے گا: تو کون سا عمل کر کے لایا ہے؟ وہ کہے گا: جن مصارف میں خرچ کرنا تجھے پسند تھا، میں نے ان تمام مصارف میں تیرے لیے خرچ کیا۔ اللہ تعالی فرمائے گا: تو جھوٹ بول رہا ہے، تیرا خرچ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ تجھے سخی کہا جائے اور وہ تو کہہ دیا گیا ہے۔ پھر اس کے بارے میں حکم ہو گا، جس کے مطابق اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔“