(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن سلمة بن كهيل، سمعت ابا سلمة بن عبد الرحمن، عن ابي هريرة رضي الله عنه،" ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم يتقاضاه، فاغلظ فهم به اصحابه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: دعوه فإن لصاحب الحق مقالا، ثم قال: اعطوه سنا مثل سنه، قالوا: يا رسول الله، لا نجد إلا امثل من سنه، فقال: اعطوه، فإن من خيركم احسنكم قضاء".(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَقَاضَاهُ، فَأَغْلَظَ فَهَمَّ بِهِ أَصْحَابُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: دَعُوهُ فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا، ثُمَّ قَالَ: أَعْطُوهُ سِنًّا مِثْلَ سِنِّهِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَا نَجِدُ إِلَّا أَمْثَلَ مِنْ سِنِّهِ، فَقَالَ: أَعْطُوهُ، فَإِنَّ مِنْ خَيْرِكُمْ أَحْسَنَكُمْ قَضَاءً".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے سنا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (اپنے قرض کا) تقاضا کرنے آیا، اور سخت گفتگو کرنے لگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم غصہ ہو کر اس کی طرف بڑھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو۔ کیونکہ جس کا کسی پر حق ہو تو وہ (بات) کہنے کا بھی حق رکھتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے قرض والے جانور کی عمر کا ایک جانور اسے دے دو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس سے زیادہ عمر کا جانور تو موجود ہے۔ (لیکن اس عمر کا نہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے وہی دے دو۔ کیونکہ سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو دوسروں کا حق پوری طرح ادا کر دے۔
Narrated Abu Huraira: A man came to the Prophet demanding his debts and behaved rudely. The companions of the Prophet intended to harm him, but Allah's Apostle said (to them), "Leave him, for the creditor (i.e. owner of a right) has the right to speak." Allah's Apostle then said, "Give him a camel of the same age as that of his." The people said, "O Allah's Apostle! There is only a camel that is older than his." Allah's Apostle said, "Give (it to) him, for the best amongst you is he who pays the rights of others handsomely."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 38, Number 502
لقول النبي صلى الله عليه وسلم لوفد هوازن حين سالوه المغانم فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «نصيبي لكم» .لِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِوَفْدِ هَوَازِنَ حِينَ سَأَلُوهُ الْمَغَانِمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَصِيبِي لَكُمْ» .
کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ہوازن کے وفد سے فرمایا، جب انہوں نے غنیمت کا مال واپس کرنے کے لیے کہا تھا۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”میرا حصہ تم لے سکتے ہو۔“
(مرفوع) حدثنا سعيد بن عفير، قال: حدثني الليث، قال: حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال: وزعم عروة، ان مروان بن الحكم، والمسور بن مخرمة اخبراه،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قام حين جاءه وفد هوازن مسلمين، فسالوه ان يرد إليهم اموالهم وسبيهم، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: احب الحديث إلي اصدقه، فاختاروا إحدى الطائفتين: إما السبي، وإما المال، وقد كنت استانيت بهم، وقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم انتظرهم بضع عشرة ليلة حين قفل من الطائف، فلما تبين لهم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم غير راد إليهم إلا إحدى الطائفتين، قالوا: فإنا نختار سبينا، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم: في المسلمين فاثنى على الله بما هو اهله، ثم قال: اما بعد، فإن إخوانكم هؤلاء قد جاءونا تائبين، وإني قد رايت ان ارد إليهم سبيهم، فمن احب منكم ان يطيب بذلك فليفعل، ومن احب منكم ان يكون على حظه حتى نعطيه إياه من اول ما يفيء الله علينا فليفعل، فقال الناس: قد طيبنا ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم لهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنا لا ندري من اذن منكم في ذلك ممن لم ياذن، فارجعوا حتى يرفعوا إلينا عرفاؤكم امركم، فرجع الناس فكلمهم عرفاؤهم، ثم رجعوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبروه انهم قد طيبوا واذنوا".(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: وَزَعَمَ عُرْوَةُ، أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَاهُ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ مُسْلِمِينَ، فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ، فَاخْتَارُوا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ: إِمَّا السَّبْيَ، وَإِمَّا الْمَالَ، وَقَدْ كُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ بِهِمْ، وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتَظَرَهُمْ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حِينَ قَفَلَ مِنْ الطَّائِفِ، فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ، قَالُوا: فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فِي الْمُسْلِمِينَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ هَؤُلَاءِ قَدْ جَاءُونَا تَائِبِينَ، وَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ بِذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ، فَقَالَ النَّاسُ: قَدْ طَيَّبْنَا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّا لَا نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ فِي ذَلِكَ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ، فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعُوا إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ، فَرَجَعَ النَّاسُ فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا".
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہ عروہ یقین کے ساتھ بیان کرتے تھے اور انہیں مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (غزوہ حنین کے بعد) جب قبیلہ ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر حاضر ہوا تو انہوں نے درخواست کی کہ ان کے مال و دولت اور ان کے قیدی انہیں واپس کر دیئے جائیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ سچی بات مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے۔ تمہیں اپنے دو مطالبوں میں سے صرف کسی ایک کو اختیار کرنا ہو گا، یا قیدی واپس لے لو، یا مال لے لو، میں اس پر غور کرنے کی وفد کو مہلت بھی دیتا ہوں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے واپسی کے بعد ان کا (جعرانہ میں) تقریباً دس رات تک انتظار کیا۔ پھر جب قبیلہ ہوازن کے وکیلوں پر یہ بات واضح ہو گئی کہ آپ ان کے مطالبہ کا صرف ایک ہی حصہ تسلیم کر سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم صرف اپنے ان لوگوں کو واپس لینا چاہتے ہیں جو آپ کی قید میں ہیں۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو خطاب فرمایا۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا، امابعد! یہ تمہارے بھائی توبہ کر کے مسلمان ہو کر تمہارے پاس آئے ہیں۔ اس لیے میں نے مناسب جانا کہ ان کے قیدیوں کو واپس کر دوں۔ اب جو شخص اپنی خوشی سے ایسا کرنا چاہے تو اسے کر گزرے۔ اور جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کا حصہ باقی رہے اور ہم اس کے اس حصہ کو (قیمت کی شکل میں) اس وقت واپس کر دیں جب اللہ تعالیٰ (آج کے بعد) سب سے پہلا مال غنیمت کہیں سے دلا دے تو اسے بھی کر گزرنا چاہئے۔ یہ سن کر سب لوگ بولے پڑے کہ ہم بخوشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ان کے قیدیوں کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح ہم اس کی تمیز نہیں کر سکتے کہ تم میں سے کس نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی ہے۔ اس لیے تم سب (اپنے اپنے ڈیروں میں) واپس جاؤ اور وہاں سے تمہارے وکیل تمہارا فیصلہ ہمارے پاس لائیں۔ چنانچہ سب لوگ واپس چلے گئے۔ اور ان کے سرداروں نے (جو ان کے نمائندے تھے) اس صورت حال پر بات کی پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو بتایا کہ سب نے بخوشی دل سے اجازت دے دی ہے۔
Narrated Marwan bin Al-Hakam and Al-Miswar bin Makhrama: When the delegates of the tribe of Hawazin after embracing Islam, came to Allah's Apostle, he got up. They appealed to him to return their properties and their captives. Allah's Apostle said to them, "The most beloved statement to me is the true one. So, you have the option of restoring your properties or your captives, for I have delayed distributing them." The narrator added, Allah's Apostle c had been waiting for them for more than ten days on his return from Taif. When they realized that Allah's Apostle would return to them only one of two things, they said, "We choose our captives." So, Allah's Apostle got up in the gathering of the Muslims, praised Allah as He deserved, and said, "Then after! These brethren of yours have come to you with repentance and I see it proper to return their captives to them. So, whoever amongst you likes to do that as a favor, then he can do it, and whoever of you wants to stick to his share till we pay him from the very first booty which Allah will give us then he can do so." The people replied, "We agree to give up our shares willingly as a favor for Allah's Apostle." Then Allah's Apostle said, "We don't know who amongst you has agreed and who hasn't. Go back and your chiefs may tell us your opinion." So, all of them returned and their chiefs discussed the matter with them and then they (i.e. their chiefs) came to Allah's Apostle to tell him that they (i.e. the people) had given up their shares gladly and willingly.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 38, Number 503
(مرفوع) حدثنا سعيد بن عفير، قال: حدثني الليث، قال: حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال: وزعم عروة، ان مروان بن الحكم، والمسور بن مخرمة اخبراه،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قام حين جاءه وفد هوازن مسلمين، فسالوه ان يرد إليهم اموالهم وسبيهم، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: احب الحديث إلي اصدقه، فاختاروا إحدى الطائفتين: إما السبي، وإما المال، وقد كنت استانيت بهم، وقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم انتظرهم بضع عشرة ليلة حين قفل من الطائف، فلما تبين لهم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم غير راد إليهم إلا إحدى الطائفتين، قالوا: فإنا نختار سبينا، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم: في المسلمين فاثنى على الله بما هو اهله، ثم قال: اما بعد، فإن إخوانكم هؤلاء قد جاءونا تائبين، وإني قد رايت ان ارد إليهم سبيهم، فمن احب منكم ان يطيب بذلك فليفعل، ومن احب منكم ان يكون على حظه حتى نعطيه إياه من اول ما يفيء الله علينا فليفعل، فقال الناس: قد طيبنا ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم لهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنا لا ندري من اذن منكم في ذلك ممن لم ياذن، فارجعوا حتى يرفعوا إلينا عرفاؤكم امركم، فرجع الناس فكلمهم عرفاؤهم، ثم رجعوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبروه انهم قد طيبوا واذنوا".(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: وَزَعَمَ عُرْوَةُ، أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَاهُ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ مُسْلِمِينَ، فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ، فَاخْتَارُوا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ: إِمَّا السَّبْيَ، وَإِمَّا الْمَالَ، وَقَدْ كُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ بِهِمْ، وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتَظَرَهُمْ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حِينَ قَفَلَ مِنْ الطَّائِفِ، فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ، قَالُوا: فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فِي الْمُسْلِمِينَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ هَؤُلَاءِ قَدْ جَاءُونَا تَائِبِينَ، وَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ بِذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ، فَقَالَ النَّاسُ: قَدْ طَيَّبْنَا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّا لَا نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ فِي ذَلِكَ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ، فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعُوا إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ، فَرَجَعَ النَّاسُ فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا".
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہ عروہ یقین کے ساتھ بیان کرتے تھے اور انہیں مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (غزوہ حنین کے بعد) جب قبیلہ ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر حاضر ہوا تو انہوں نے درخواست کی کہ ان کے مال و دولت اور ان کے قیدی انہیں واپس کر دیئے جائیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ سچی بات مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے۔ تمہیں اپنے دو مطالبوں میں سے صرف کسی ایک کو اختیار کرنا ہو گا، یا قیدی واپس لے لو، یا مال لے لو، میں اس پر غور کرنے کی وفد کو مہلت بھی دیتا ہوں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے واپسی کے بعد ان کا (جعرانہ میں) تقریباً دس رات تک انتظار کیا۔ پھر جب قبیلہ ہوازن کے وکیلوں پر یہ بات واضح ہو گئی کہ آپ ان کے مطالبہ کا صرف ایک ہی حصہ تسلیم کر سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم صرف اپنے ان لوگوں کو واپس لینا چاہتے ہیں جو آپ کی قید میں ہیں۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو خطاب فرمایا۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا، امابعد! یہ تمہارے بھائی توبہ کر کے مسلمان ہو کر تمہارے پاس آئے ہیں۔ اس لیے میں نے مناسب جانا کہ ان کے قیدیوں کو واپس کر دوں۔ اب جو شخص اپنی خوشی سے ایسا کرنا چاہے تو اسے کر گزرے۔ اور جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کا حصہ باقی رہے اور ہم اس کے اس حصہ کو (قیمت کی شکل میں) اس وقت واپس کر دیں جب اللہ تعالیٰ (آج کے بعد) سب سے پہلا مال غنیمت کہیں سے دلا دے تو اسے بھی کر گزرنا چاہئے۔ یہ سن کر سب لوگ بولے پڑے کہ ہم بخوشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ان کے قیدیوں کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح ہم اس کی تمیز نہیں کر سکتے کہ تم میں سے کس نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی ہے۔ اس لیے تم سب (اپنے اپنے ڈیروں میں) واپس جاؤ اور وہاں سے تمہارے وکیل تمہارا فیصلہ ہمارے پاس لائیں۔ چنانچہ سب لوگ واپس چلے گئے۔ اور ان کے سرداروں نے (جو ان کے نمائندے تھے) اس صورت حال پر بات کی پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو بتایا کہ سب نے بخوشی دل سے اجازت دے دی ہے۔
Narrated Marwan bin Al-Hakam and Al-Miswar bin Makhrama: When the delegates of the tribe of Hawazin after embracing Islam, came to Allah's Apostle, he got up. They appealed to him to return their properties and their captives. Allah's Apostle said to them, "The most beloved statement to me is the true one. So, you have the option of restoring your properties or your captives, for I have delayed distributing them." The narrator added, Allah's Apostle c had been waiting for them for more than ten days on his return from Taif. When they realized that Allah's Apostle would return to them only one of two things, they said, "We choose our captives." So, Allah's Apostle got up in the gathering of the Muslims, praised Allah as He deserved, and said, "Then after! These brethren of yours have come to you with repentance and I see it proper to return their captives to them. So, whoever amongst you likes to do that as a favor, then he can do it, and whoever of you wants to stick to his share till we pay him from the very first booty which Allah will give us then he can do so." The people replied, "We agree to give up our shares willingly as a favor for Allah's Apostle." Then Allah's Apostle said, "We don't know who amongst you has agreed and who hasn't. Go back and your chiefs may tell us your opinion." So, all of them returned and their chiefs discussed the matter with them and then they (i.e. their chiefs) came to Allah's Apostle to tell him that they (i.e. the people) had given up their shares gladly and willingly.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 38, Number 503
8. باب: ایک شخص نے کسی دوسرے شخص کو کچھ دینے کے لیے وکیل کیا، لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ کتنا دے، اور وکیل نے لوگوں کے جانے ہوئے دستور کے مطابق دے دیا۔
(8) Chapter. If someone deputes a person to give something but does not mention how much to give, it is permissible for the deputy to distribute it amongst the people according to the conventional custom.
(مرفوع) حدثنا المكي بن إبراهيم، حدثنا ابن جريج، عن عطاء بن ابي رباح وغيره، يزيد بعضهم على بعض، ولم يبلغه كلهم رجل واحد منهم، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنه، قال:" كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، فكنت على جمل ثفال، إنما هو في آخر القوم، فمر بي النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: من هذا؟ قلت: جابر بن عبد الله، قال: ما لك؟ قلت: إني على جمل ثفال، قال: امعك قضيب؟ قلت: نعم، قال: اعطنيه، فاعطيته فضربه فزجره فكان من ذلك المكان من اول القوم، قال: بعنيه، فقلت: بل، هو لك يا رسول الله، قال: بل بعنيه قد اخذته باربعة دنانير، ولك ظهره إلى المدينة، فلما دنونا من المدينة اخذت ارتحل، قال: اين تريد؟ قلت: تزوجت امراة قد خلا منها، قال: فهلا جارية تلاعبها وتلاعبك، قلت: إن ابي توفي وترك بنات، فاردت ان انكح امراة قد جربت خلا منها، قال: فذلك، فلما قدمنا المدينة، قال: يا بلال اقضه، وزده، فاعطاه اربعة دنانير وزاده قيراطا، قال جابر: لا تفارقني زيادة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلم يكن القيراط يفارق جراب جابر بن عبد الله".(مرفوع) حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ وَغَيْرِهِ، يزيد بعضهم على بعض، ولم يبلغه كلهم رجل واحد منهم، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَكُنْتُ عَلَى جَمَلٍ ثَفَالٍ، إِنَّمَا هُوَ فِي آخِرِ الْقَوْمِ، فَمَرَّ بِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قُلْتُ: جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: مَا لَكَ؟ قُلْتُ: إِنِّي عَلَى جَمَلٍ ثَفَالٍ، قَالَ: أَمَعَكَ قَضِيبٌ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: أَعْطِنِيهِ، فَأَعْطَيْتُهُ فَضَرَبَهُ فَزَجَرَهُ فَكَانَ مِنْ ذَلِكَ الْمَكَانِ مِنْ أَوَّلِ الْقَوْمِ، قَالَ: بِعْنِيهِ، فَقُلْتُ: بَلْ، هُوَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: بَلْ بِعْنِيهِ قَدْ أَخَذْتُهُ بِأَرْبَعَةِ دَنَانِيرَ، وَلَكَ ظَهْرُهُ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ الْمَدِينَةِ أَخَذْتُ أَرْتَحِلُ، قَالَ: أَيْنَ تُرِيدُ؟ قُلْتُ: تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً قَدْ خَلَا مِنْهَا، قَالَ: فَهَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ، قُلْتُ: إِنَّ أَبِي تُوُفِّيَ وَتَرَكَ بَنَاتٍ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَنْكِحَ امْرَأَةً قَدْ جَرَّبَتْ خَلَا مِنْهَا، قَالَ: فَذَلِكَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، قَالَ: يَا بِلَالُ اقْضِهِ، وَزِدْهُ، فَأَعْطَاهُ أَرْبَعَةَ دَنَانِيرَ وَزَادَهُ قِيرَاطًا، قَالَ جَابِرٌ: لَا تُفَارِقُنِي زِيَادَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَكُنِ الْقِيرَاطُ يُفَارِقُ جِرَابَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ".
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے عطاء بن ابی رباح اور کئی لوگوں نے ایک دوسرے کی روایت میں زیادتی کے ساتھ۔ سب راویوں نے اس حدیث کو جابر رضی اللہ عنہ تک نہیں پہنچایا بلکہ ایک راوی نے ان میں سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ وہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا اور میں ایک سست اونٹ پر سوار تھا اور وہ سب سے آخر میں رہتا تھا۔ اتفاق سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر میری طرف سے ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کون صاحب ہیں؟ میں نے عرض کیا جابر بن عبداللہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہوئی (کہ اتنے پیچھے رہ گئے ہو) میں بولا کہ ایک نہایت سست رفتار اونٹ پر سوار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تمہارے پاس کوئی چھڑی بھی ہے؟ میں نے کہا کہ جی ہاں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ مجھے دیدے۔ میں نے آپ کی خدمت میں وہ پیش کر دی۔ آپ نے اس چھڑی سے اونٹ کو جو مارا اور ڈانٹا تو اس کے بعد وہ سب سے آگے رہنے لگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ یہ اونٹ مجھے فروخت کر دے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مجھے فروخت کر دے۔ یہ بھی فرمایا کہ چار دینار میں اسے میں خریدتا ہوں ویسے تم مدینہ تک اسی پر سوار ہو کر چل سکتے ہو۔ پھر جب مدینہ کے قریب ہم پہنچے تو میں (دوسری طرف) جانے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کہاں جا رہے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے ایک بیوہ عورت سے شادی کر لی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی باکرہ سے کیوں نہ کی کہ تم بھی اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ بھی تمہارے ساتھ کھیلتی۔ میں نے عرض کیا کہ والد شہادت پا چکے ہیں۔ اور گھر میں کئی بہنیں ہیں۔ اس لیے میں نے سوچا کہ کسی ایسی خاتون سے شادی کروں جو بیوہ اور تجربہ کار ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تو ٹھیک ہے، پھر مدینہ پہنچنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال! ان کی قیمت ادا کر دو اور کچھ بڑھا کر دے دو۔ چنانچہ انہوں نے چار دینار بھی دئیے۔ اور فالتو ایک قیراط بھی دیا۔ جابر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انعام میں اپنے سے کبھی جدا نہیں کرتا، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قیراط جابر رضی اللہ عنہ ہمیشہ اپنی تھیلی میں محفوظ رکھا کرتے تھے۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: I was accompanying the Prophet on a journey and was riding a slow camel that was lagging behind the others. The Prophet passed by me and asked, "Who is this?" I replied, "Jabir bin `Abdullah." He asked, "What is the matter, (why are you late)?" I replied, "I am riding a slow camel." He asked, "Do you have a stick?" I replied in the affirmative. He said, "Give it to me." When I gave it to him, he beat the camel and rebuked it. Then that camel surpassed the others thenceforth. The Prophet said, "Sell it to me." I replied, "It is (a gift) for you, O Allah's Apostle." He said, "Sell it to me. I have bought it for four Dinars (gold pieces) and you can keep on riding it till Medina." When we approached Medina, I started going (towards my house). The Prophet said, "Where are you going?" I Sa`d, "I have married a widow." He said, "Why have you not married a virgin to fondle with each other?" I said, "My father died and left daughters, so I decided to marry a widow (an experienced woman) (to look after them)." He said, "Well done." When we reached Medina, Allah's Apostle said, "O Bilal, pay him (the price of the camel) and give him extra money." Bilal gave me four Dinars and one Qirat extra. (A sub-narrator said): Jabir added, "The extra Qirat of Allah's Apostle never parted from me." The Qirat was always in Jabir bin `Abdullah's purse.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 38, Number 504
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، اخبرنا مالك، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد، قال: جاءت امراة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله،" إني قد وهبت لك من نفسي، فقال رجل: زوجنيها، قال: قد زوجناكها بما معك من القرآن".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ،" إِنِّي قَدْ وَهَبْتُ لَكَ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ رَجُلٌ: زَوِّجْنِيهَا، قَالَ: قَدْ زَوَّجْنَاكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں ابوحازم نے، انہیں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے بیان کیا کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے خود کو آپ کو بخش دیا۔ اس پر ایک صحابی نے کہا کہ آپ میرا ان سے نکاح کر دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہارا نکاح ان سے اس مہر کے ساتھ کیا جو تمہیں قرآن یاد ہے۔
Narrated Sahl bin Sad: A woman came to Allah's Apostle and said, "O Allah's Apostle! I want to give up myself to you." A man said, "Marry her to me." The Prophet said, "We agree to marry her to you with what you know of the Qur'an by heart."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 38, Number 505
10. باب: کسی نے ایک شخص کو وکیل بنایا پھر وکیل نے (معاملہ میں) کوئی چیز (خود اپنی رائے سے) چھوڑ دی (اور بعد میں خبر ہونے پر) موکل نے اس کی اجازت دے دی تو جائز ہے اسی طرح اگر مقرر مدت تک کے لیے قرض دے دیا تو یہ بھی جائز ہے۔
(10) Chapter. If a person deputes somebody, and the deputy leaves something, and the owner agrees that, then it is allowed, and the deputy lends something of what is in his custody, for a specific time, it is permissible (if the owner agrees).
وقال عثمان بن الهيثم ابو عمرو: حدثنا عوف، عن محمد بن سيرين، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال:" وكلني رسول الله صلى الله عليه وسلم بحفظ زكاة رمضان، فاتاني آت فجعل يحثو من الطعام فاخذته، وقلت: والله لارفعنك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: إني محتاج، وعلي عيال، ولي حاجة شديدة، قال: فخليت عنه فاصبحت، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: يا ابا هريرة، ما فعل اسيرك البارحة، قال: قلت: يا رسول الله، شكا حاجة شديدة وعيالا، فرحمته فخليت سبيله، قال: اما إنه قد كذبك وسيعود، فعرفت انه سيعود لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنه سيعود فرصدته، فجاء يحثو من الطعام فاخذته، فقلت: لارفعنك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: دعني فإني محتاج وعلي عيال لا اعود، فرحمته فخليت سبيله فاصبحت، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا ابا هريرة، ما فعل اسيرك؟ قلت: يا رسول الله، شكا حاجة شديدة وعيالا فرحمته فخليت سبيله، قال: اما إنه قد كذبك وسيعود فرصدته الثالثة، فجاء يحثو من الطعام فاخذته، فقلت: لارفعنك إلى رسول الله، وهذا آخر ثلاث مرات انك تزعم لا تعود ثم تعود، قال: دعني اعلمك كلمات ينفعك الله بها، قلت: ما هو؟ قال: إذا اويت إلى فراشك فاقرا آية الكرسي: الله لا إله إلا هو الحي القيوم سورة البقرة آية 255، حتى تختم الآية، فإنك لن يزال عليك من الله حافظ، ولا يقربنك شيطان حتى تصبح، فخليت سبيله فاصبحت، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما فعل اسيرك البارحة؟ قلت: يا رسول الله، زعم انه يعلمني كلمات ينفعني الله بها فخليت سبيله، قال: ما هي؟ قلت: قال لي: إذا اويت إلى فراشك، فاقرا آية الكرسي من اولها حتى تختم الآية: الله لا إله إلا هو الحي القيوم سورة البقرة آية 255، وقال لي: لن يزال عليك من الله حافظ، ولا يقربك شيطان حتى تصبح، وكانوا احرص شيء على الخير، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: اما إنه قد صدقك وهو كذوب، تعلم من تخاطب منذ ثلاث ليال يا ابا هريرة، قال: لا، قال: ذاك شيطان".وَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ الْهَيْثَمِ أَبُو عَمْرٍو: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" وَكَّلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِفْظِ زَكَاةِ رَمَضَانَ، فَأَتَانِي آتٍ فَجَعَلَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ فَأَخَذْتُهُ، وَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنِّي مُحْتَاجٌ، وَعَلَيَّ عِيَالٌ، وَلِي حَاجَةٌ شَدِيدَةٌ، قَالَ: فَخَلَّيْتُ عَنْهُ فَأَصْبَحْتُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ الْبَارِحَةَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، شَكَا حَاجَةً شَدِيدَةً وَعِيَالًا، فَرَحِمْتُهُ فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، قَالَ: أَمَا إِنَّهُ قَدْ كَذَبَكَ وَسَيَعُودُ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ سَيَعُودُ لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهُ سَيَعُودُ فَرَصَدْتُهُ، فَجَاءَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ فَأَخَذْتُهُ، فَقُلْتُ: لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: دَعْنِي فَإِنِّي مُحْتَاجٌ وَعَلَيَّ عِيَالٌ لَا أَعُودُ، فَرَحِمْتُهُ فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ فَأَصْبَحْتُ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ؟ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، شَكَا حَاجَةً شَدِيدَةً وَعِيَالًا فَرَحِمْتُهُ فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، قَالَ: أَمَا إِنَّهُ قَدْ كَذَبَكَ وَسَيَعُودُ فَرَصَدْتُهُ الثَّالِثَةَ، فَجَاءَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ فَأَخَذْتُهُ، فَقُلْتُ: لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ، وَهَذَا آخِرُ ثَلَاثِ مَرَّاتٍ أَنَّكَ تَزْعُمُ لَا تَعُودُ ثُمَّ تَعُودُ، قَالَ: دَعْنِي أُعَلِّمْكَ كَلِمَاتٍ يَنْفَعُكَ اللَّهُ بِهَا، قُلْتُ: مَا هُوَ؟ قَالَ: إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ فَاقْرَأْ آيَةَ الْكُرْسِيِّ: اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ سورة البقرة آية 255، حَتَّى تَخْتِمَ الْآيَةَ، فَإِنَّكَ لَنْ يَزَالَ عَلَيْكَ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ، وَلَا يَقْرَبَنَّكَ شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ فَأَصْبَحْتُ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ الْبَارِحَةَ؟ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، زَعَمَ أَنَّهُ يُعَلِّمُنِي كَلِمَاتٍ يَنْفَعُنِي اللَّهُ بِهَا فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، قَالَ: مَا هِيَ؟ قُلْتُ: قَالَ لِي: إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ، فَاقْرَأْ آيَةَ الْكُرْسِيِّ مِنْ أَوَّلِهَا حَتَّى تَخْتِمَ الْآيَةَ: اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ سورة البقرة آية 255، وَقَالَ لِي: لَنْ يَزَالَ عَلَيْكَ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ، وَلَا يَقْرَبَكَ شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ، وَكَانُوا أَحْرَصَ شَيْءٍ عَلَى الْخَيْرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَا إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكَ وَهُوَ كَذُوبٌ، تَعْلَمُ مَنْ تُخَاطِبُ مُنْذُ ثَلَاثِ لَيَالٍ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَا، قَالَ: ذَاكَ شَيْطَانٌ".
اور عثمان بن ہیثم ابوعمرو نے بیان کیا کہ ہم سے عوف نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے رمضان کی زکوٰۃ کی حفاظت پر مقرر فرمایا۔ (رات میں) ایک شخص اچانک میرے پاس آیا اور غلہ میں سے لپ بھربھر کر اٹھانے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ قسم اللہ کی! میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے چلوں گا۔ اس پر اس نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں بہت محتاج ہوں۔ میرے بال بچے ہیں اور میں سخت ضرورت مند ہوں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا (اس کے اظہار معذرت پر) میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا، اے ابوہریرہ! گذشتہ رات تمہارے قیدی نے کیا کیا تھا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! اس نے سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا، اس لیے مجھے اس پر رحم آ گیا۔ اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے۔ اور وہ پھر آئے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانے کی وجہ سے مجھ کو یقین تھا کہ وہ پھر ضرور آئے گا۔ اس لیے میں اس کی تاک میں لگا رہا۔ اور جب وہ دوسری رات آ کے پھر غلہ اٹھانے لگا تو میں نے اسے پھر پکڑا اور کہا کہ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کروں گا، لیکن اب بھی اس کی وہی التجا تھی کہ مجھے چھوڑ دے، میں محتاج ہوں۔ بال بچوں کا بوجھ میرے سر پر ہے۔ اب میں کبھی نہ آؤں گا۔ مجھے رحم آ گیا اور میں نے اسے پھر چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوہریرہ! تمہارے قیدی نے کیا کیا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! اس نے پھر اسی سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا۔ جس پر مجھے رحم آ گیا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے اور وہ پھر آئے گا۔ تیسری مرتبہ میں پھر اس کے انتظار میں تھا کہ اس نے پھر تیسری رات آ کر غلہ اٹھانا شروع کیا، تو میں نے اسے پکڑ لیا، اور کہا کہ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچانا اب ضروری ہو گیا ہے۔ یہ تیسرا موقع ہے۔ ہر مرتبہ تم یقین دلاتے رہے کہ پھر نہیں آؤ گے۔ لیکن تم باز نہیں آئے۔ اس نے کہا کہ اس مرتبہ مجھے چھوڑ دے تو میں تمہیں ایسے چند کلمات سکھا دوں گا جس سے اللہ تعالیٰ تمہیں فائدہ پہنچائے گا۔ میں نے پوچھا وہ کلمات کیا ہیں؟ اس نے کہا، جب تم اپنے بستر پر لیٹنے لگو تو آیت الکرسی «الله لا إله إلا هو الحي القيوم» پوری پڑھ لیا کرو۔ ایک نگراں فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برابر تمہاری حفاظت کرتا رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے پاس کبھی نہیں آ سکے گا۔ اس مرتبہ بھی پھر میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، گذشتہ رات تمہارے قیدی نے تم سے کیا معاملہ کیا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس نے مجھے چند کلمات سکھائے اور یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے گا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے دریافت کیا کہ وہ کلمات کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ اس نے بتایا تھا کہ جب بستر پر لیٹو تو آیت الکرسی پڑھ لو، شروع «الله لا إله إلا هو الحي القيوم» سے آخر تک۔ اس نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر (اس کے پڑھنے سے) ایک نگراں فرشتہ مقرر رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آ سکے گا۔ صحابہ خیر کو سب سے آگے بڑھ کر لینے والے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کی یہ بات سن کر) فرمایا کہ اگرچہ وہ جھوٹا تھا۔ لیکن تم سے یہ بات سچ کہہ گیا ہے۔ اے ابوہریرہ! تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ تین راتوں سے تمہارا معاملہ کس سے تھا؟ انہوں نے کہا نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شیطان تھا۔
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle deputed me to keep Sadaqat (al-Fitr) of Ramadan. A comer came and started taking handfuls of the foodstuff (of the Sadaqa) (stealthily). I took hold of him and said, "By Allah, I will take you to Allah's Apostle ." He said, "I am needy and have many dependents, and I am in great need." I released him, and in the morning Allah's Apostle asked me, "What did your prisoner do yesterday?" I said, "O Allah's Apostle! The person complained of being needy and of having many dependents, so, I pitied him and let him go." Allah's Apostle said, "Indeed, he told you a lie and he will be coming again." I believed that he would show up again as Allah's Apostle had told me that he would return. So, I waited for him watchfully. When he (showed up and) started stealing handfuls of foodstuff, I caught hold of him again and said, "I will definitely take you to Allah's Apostle. He said, "Leave me, for I am very needy and have many dependents. I promise I will not come back again." I pitied him and let him go. In the morning Allah's Apostle asked me, "What did your prisoner do." I replied, "O Allah's Apostle! He complained of his great need and of too many dependents, so I took pity on him and set him free." Allah's Apostle said, "Verily, he told you a lie and he will return." I waited for him attentively for the third time, and when he (came and) started stealing handfuls of the foodstuff, I caught hold of him and said, "I will surely take you to Allah's Apostle as it is the third time you promise not to return, yet you break your promise and come." He said, "(Forgive me and) I will teach you some words with which Allah will benefit you." I asked, "What are they?" He replied, "Whenever you go to bed, recite "Ayat-al-Kursi"-- 'Allahu la ilaha illa huwa-l-Haiy-ul Qaiyum' till you finish the whole verse. (If you do so), Allah will appoint a guard for you who will stay with you and no satan will come near you till morning. " So, I released him. In the morning, Allah's Apostle asked, "What did your prisoner do yesterday?" I replied, "He claimed that he would teach me some words by which Allah will benefit me, so I let him go." Allah's Apostle asked, "What are they?" I replied, "He said to me, 'Whenever you go to bed, recite Ayat-al-Kursi from the beginning to the end ---- Allahu la ilaha illa huwa-lHaiy-ul-Qaiyum----.' He further said to me, '(If you do so), Allah will appoint a guard for you who will stay with you, and no satan will come near you till morning.' (Abu Huraira or another sub-narrator) added that they (the companions) were very keen to do good deeds. The Prophet said, "He really spoke the truth, although he is an absolute liar. Do you know whom you were talking to, these three nights, O Abu Huraira?" Abu Huraira said, "No." He said, "It was Satan."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 38, Number 505
(مرفوع) حدثنا إسحاق، حدثنا يحيى بن صالح، حدثنا معاوية هو ابن سلام، عن يحيى، قال: سمعت عقبة بن عبد الغافر، انه سمع ابا سعيد الخدري رضي الله عنه، قال:" جاء بلال إلى النبي صلى الله عليه وسلم بتمر برني، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: من اين هذا؟ قال بلال: كان عندنا تمر ردي فبعت منه صاعين بصاع لنطعم النبي صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم عند ذلك: اوه اوه، عين الربا، عين الربا لا تفعل، ولكن إذا اردت ان تشتري فبع التمر ببيع آخر، ثم اشتره".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ هُوَ ابْنُ سَلَّامٍ، عَنْ يَحْيَى، قَالَ: سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَبْدِ الْغَافِرِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" جَاءَ بِلَالٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمْرٍ بَرْنِيٍّ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مِنْ أَيْنَ هَذَا؟ قَالَ بِلَالٌ: كَانَ عِنْدَنَا تَمْرٌ رَدِيٌّ فَبِعْتُ مِنْهُ صَاعَيْنِ بِصَاعٍ لِنُطْعِمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ: أَوَّهْ أَوَّهْ، عَيْنُ الرِّبَا، عَيْنُ الرِّبَا لَا تَفْعَلْ، وَلَكِنْ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَشْتَرِيَ فَبِعِ التَّمْرَ بِبَيْعٍ آخَرَ، ثُمَّ اشْتَرِهِ".
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن صالح نے بیان کیا، ان سے معاویہ بن سلام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہ میں نے عقبہ بن عبدالغافر سے سنا اور انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ بلال رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں برنی کھجور (کھجور کی ایک عمدہ قسم) لے کر آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہاں سے لائے ہو؟ انہوں نے کہا ہمارے پاس خراب کھجور تھی، اس کے دو صاع اس کے ایک صاع کے بدلے میں دے کر ہم اسے لائے ہیں۔ تاکہ ہم یہ آپ کو کھلائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا توبہ توبہ یہ تو سود ہے بالکل سود۔ ایسا نہ کیا کر البتہ (اچھی کھجور) خریدنے کا ارادہ ہو تو (خراب) کھجور بیچ کر (اس کی قیمت سے) عمدہ خریدا کر۔
Narrated Abu Sa`id al-Khudri: Once Bilal brought Barni (i.e. a kind of dates) to the Prophet and the Prophet asked him, "From where have you brought these?" Bilal replied, "I had some inferior type of dates and exchanged two Sas of it for one Sa of Barni dates in order to give it to the Prophet; to eat." Thereupon the Prophet said, "Beware! Beware! This is definitely Riba (usury)! This is definitely Riba (Usury)! Don't do so, but if you want to buy (a superior kind of dates) sell the inferior dates for money and then buy the superior kind of dates with that money."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 38, Number 506
12. باب: وقف کے مال میں وکالت اور وکیل کا خرچہ اور وکیل کا اپنے دوست کو کھلانا اور خود بھی دستور کے موافق کھانا۔
(12) Chapter. The deputyship for managing the Waqf (religious endowment) and the expenses of the trustee. The trustee can provide his friends and can eat from it reasonably (according to his work).
(موقوف) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا سفيان، عن عمرو، قال في صدقة عمر رضي الله عنه:" ليس على الولي جناح ان ياكل، ويؤكل صديقا له غير متاثل مالا"، فكان ابن عمر هو يلي صدقة عمر، يهدي لناس من اهل مكة، كان ينزل عليهم.(موقوف) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، قَالَ فِي صَدَقَةِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" لَيْسَ عَلَى الْوَلِيِّ جُنَاحٌ أَنْ يَأْكُلَ، وَيُؤْكِلَ صَدِيقًا لَهُ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا"، فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ هُوَ يَلِي صَدَقَةَ عُمَرَ، يُهْدِي لِنَاسٍ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، كَانَ يَنْزِلُ عَلَيْهِمْ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے صدقہ کے باب میں جو کتاب لکھوائی تھی اس میں یوں ہے کہ صدقے کا متولی اس میں سے کھا سکتا ہے اور دوست کو کھلا سکتا ہے لیکن روپیہ نہ جمع کرے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے والد عمر رضی اللہ عنہ کے صدقے کے متولی تھے۔ وہ مکہ والوں کو اس میں سے تحفہ بھیجتے تھے جہاں آپ قیام فرمایا کرتے تھے۔
Narrated `Amr: Concerning the Waqf of `Umar: It was not sinful of the trustee (of the Waqf) to eat or provide his friends from it, provided the trustee had no intention of collecting fortune (for himself). Ibn `Umar was the manager of the trust of `Umar and he used to give presents from it to those with whom he used to stay at Mecca.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 38, Number 507
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو لیث بن سعد نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عبیداللہ نے، انہیں زید بن خالد اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ضحاک اسلمی رضی اللہ عنہ سے فرمایا، اے انیس! اس خاتون کے یہاں جا۔ اگر وہ زنا کا اقرار کر لے تو اسے سنگسار کر دے۔
Narrated Zaid bin Khalid and Abu Huraira: The Prophet said, "O Unais! Go to the wife of this (man) and if she confesses (that she has committed illegal sexual intercourse), then stone her to death."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 38, Number 508