سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: مسنون ادعیہ و اذکار
Chapters on Supplication
105. باب
105. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3556
Save to word اعراب
(قدسي) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابن ابي عدي، قال: انبانا جعفر بن ميمون صاحب الانماط، عن ابي عثمان النهدي، عن سلمان الفارسي، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الله حيي كريم يستحيي إذا رفع الرجل إليه يديه ان يردهما صفرا خائبتين ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، ورواه بعضهم ولم يرفعه.(قدسي) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا جَعْفَرُ بْنُ مَيْمُونٍ صَاحِبُ الْأَنْمَاطِ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ حَيِيٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِي إِذَا رَفَعَ الرَّجُلُ إِلَيْهِ يَدَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا خَائِبَتَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.
سلمان فارسی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ «حيي كريم» ہے یعنی زندہ و موجود ہے اور شریف ہے اسے اس بات سے شرم آتی ہے کہ جب کوئی آدمی اس کے سامنے ہاتھ پھیلا دے تو وہ اس کے دونوں ہاتھوں کو خالی اور ناکام و نامراد واپس کر دے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، بعض دوسروں نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 358 (1488)، سنن ابن ماجہ/الدعاء 13 (3865) (تحفة الأشراف: 4494)، و مسند احمد (5/485) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3865)

قال الشيخ زبير على زئي: (3556) إسناده ضعيف / د 1488، جه 3865
حدیث نمبر: 3557
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا صفوان بن عيسى، حدثنا محمد بن عجلان، عن القعقاع، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، ان رجلا كان يدعو بإصبعيه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " احد احد ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب، ومعنى هذا الحديث: إذا اشار الرجل بإصبعيه في الدعاء عند الشهادة لا يشير إلا بإصبع واحدة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا كَانَ يَدْعُو بِإِصْبَعَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَحِّدْ أَحِّدْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ: إِذَا أَشَارَ الرَّجُلُ بِإِصْبَعَيْهِ فِي الدُّعَاءِ عِنْدَ الشَّهَادَةِ لَا يُشِيرُ إِلَّا بِإِصْبَعٍ وَاحِدَةٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص اپنی دو انگلیوں کے اشارے سے دعا کرتا تھا تو آپ نے اس سے کہا: ایک سے ایک سے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- یہی اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی تشہد میں انگلیوں سے اشارہ کرتے وقت صرف ایک انگلی سے اشارہ کرے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/السھو 37 (12773) (تحفة الأشراف: 12865) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: جیسا کہ مؤلف نے خود تشریح کر دی ہے کہ یہ تشہد (اولیٰ اور ثانیہ) میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے کے بارے میں ہے، تشہد کے شروع ہی سے ترپن کا حلقہ بنا کر شہادت کی انگلی کو باربار اٹھا کر توحید کی شہادت برابر دی جائے گی، نہ کہ صرف «أشہد أن لا إلہ إلا اللہ» پر جیسا کہ ہند و پاک میں رائج ہو گیا ہے، حدیث میں واضح طور پر صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ترپن کا حلقہ بناتے تھے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے، یا حرکت دیتے رہتے تھے، اس میں جگہ کی کوئی قید نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، صفة الصلاة، المشكاة (913)

قال الشيخ زبير على زئي: (3557) إسناده ضعيف / ن 1273
محمد بن عجلان عنعن (تقدم:1084) وللحديث شواهد ضعيفة
106. باب
106. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3558
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو عامر العقدي، حدثنا زهير وهو ابن محمد، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، ان معاذ بن رفاعة اخبره، عن ابيه، قال: قام ابو بكر الصديق على المنبر ثم بكى , فقال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الاول على المنبر، ثم بكى، فقال: " اسالوا الله العفو والعافية فإن احدا لم يعط بعد اليقين خيرا من العافية ". قال: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه، عن ابي بكر رضي الله عنه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ رِفَاعَةَ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَامَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ عَلَى الْمِنْبَرِ ثُمَّ بَكَى , فَقَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْأَوَّلِ عَلَى الْمِنْبَرِ، ثُمَّ بَكَى، فَقَالَ: " اسْأَلُوا اللَّهَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فَإِنَّ أَحَدًا لَمْ يُعْطَ بَعْدَ الْيَقِينِ خَيْرًا مِنَ الْعَافِيَةِ ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
رفاعہ بن رافع انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی الله عنہ منبر پر چڑھے، اور روئے، پھر کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے پہلے سال منبر پر چڑھے، روئے، پھر کہا: اللہ سے (گناہوں سے) عفو و درگزر اور مصیبتوں اور گمراہیوں سے عافیت طلب کرو کیونکہ ایمان و یقین کے بعد کسی بندے کو عافیت سے بہتر کوئی چیز نہیں دی گئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے یعنی ابوبکر رضی الله عنہ کی سند سے حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6593) (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (3849)
107. باب
107. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3559
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا حسين بن يزيد الكوفي، حدثنا ابو يحيى الحماني، حدثنا عثمان بن واقد، عن ابي نصيرة، عن مولى لابي بكر، عن ابي بكر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما اصر من استغفر ولو فعله في اليوم سبعين مرة ". قال ابو عيسى: هذا غريب، إنما نعرفه من حديث ابي نصيرة وليس إسناده بالقوي.(مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى الْحِمَّانِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ أَبِي نُصَيْرَةَ، عَنْ مَوْلًى لِأَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا أَصَرَّ مَنِ اسْتَغْفَرَ وَلَوْ فَعَلَهُ فِي الْيَوْمِ سَبْعِينَ مَرَّةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي نُصَيْرَةَ وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ.
ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص گناہ کر کے توبہ کر لے اور اپنے گناہ پر نادم ہو تو وہ چاہے دن بھر میں ستر بار بھی گناہ کر ڈالے وہ گناہ پر مُصر اور بضد نہیں مانا جائے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- ہم اسے صرف ابونصیرہ کی روایت سے جانتے ہیں
۳- اور اس کی سند زیادہ قوی نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 361 (1514) (تحفة الأشراف: 6628) (ضعیف) (اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (2340)، ضعيف أبي داود (267) // (326 / 1514)، ضعيف الجامع الصغير (5004) //
108. باب
108. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3560
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، وسفيان بن وكيع، المعنى واحد، قالا: حدثنا يزيد بن هارون، حدثنا الاصبغ بن زيد، حدثنا ابو العلاء، عن ابي امامة، قال: لبس عمر بن الخطاب رضي الله عنه ثوبا جديدا، فقال: الحمد لله الذي كساني ما اواري به عورتي واتجمل به في حياتي، ثم عمد إلى الثوب الذي اخلق فتصدق به ثم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من لبس ثوبا جديدا , فقال: الحمد لله الذي كساني ما اواري به عورتي واتجمل به في حياتي، ثم عمد إلى الثوب الذي اخلق فتصدق به، كان في كنف الله وفي حفظ الله وفي ستر الله حيا وميتا ". قال ابو عيسى: هذا غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، وَسُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، المعنى واحد، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا الْأَصْبَغُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعَلَاءِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: لَبِسَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ثَوْبًا جَدِيدًا، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي، ثُمَّ عَمَدَ إِلَى الثَّوْبِ الَّذِي أَخْلَقَ فَتَصَدَّقَ بِهِ ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ لَبِسَ ثَوْبًا جَدِيدًا , فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي، ثُمَّ عَمَدَ إِلَى الثَّوْبِ الَّذِي أَخْلَقَ فَتَصَدَّقَ بِهِ، كَانَ فِي كَنَفِ اللَّهِ وَفِي حِفْظِ اللَّهِ وَفِي سَتْرِ اللَّهِ حَيًّا وَمَيِّتًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ.
ابوامامہ الباہلی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب نے نیا کپڑا پہنا پھر یہ دعا پڑھی «الحمد لله الذي كساني ما أواري به عورتي وأتجمل به في حياتي» تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے ایسا کپڑا پہنایا جس سے میں اپنی ستر پوشی کرتا ہوں اور اپنی زندگی میں حسن و جمال پیدا کرتا ہوں، پھر انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: جس نے نیا کپڑا پہنا پھر یہ دعا پڑھی: «الحمد لله الذي كساني ما أواري به عورتي وأتجمل به في حياتي» پھر اس نے اپنا پرانا (اتارا ہوا) کپڑا لیا اور اسے صدقہ میں دے دیا، تو وہ اللہ کی حفاظت و پناہ میں رہے گا زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/اللباس 2 (3557) (تحفة الأشراف: 10467) (ضعیف) (سند میں ”ابوالعلاء الشامی“ مجہول راوی ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3557) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (782)، المشكاة (4374)، ضعيف الجامع الصغير (5827) //

قال الشيخ زبير على زئي: (3560) إسناده ضعيف / جه 3557
أبو العلاء: مجهول (تق:8288)
حدیث نمبر: 3560M
Save to word اعراب
یحییٰ بن ابی ایوب نے یہ حدیث عبیداللہ بن زحر سے، عبیداللہ بن زحر نے علی بن یزید سے اور علی بن یزید نے قاسم کے واسطہ سے ابوامامہ سے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (ضعیف)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3557) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (782)، المشكاة (4374)، ضعيف الجامع الصغير (5827) //
109. باب
109. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3561
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن الحسن الترمذي، حدثنا عبد الله بن نافع الصائغ قراءة عليه، عن حماد بن ابي حميد، عن زيد بن اسلم، عن ابيه، عن عمر بن الخطاب، ان النبي صلى الله عليه وسلم بعث بعثا قبل نجد فغنموا غنائم كثيرة واسرعوا الرجعة، فقال رجل ممن لم يخرج: ما راينا بعثا اسرع رجعة ولا افضل غنيمة من هذا البعث، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " الا ادلكم على قوم افضل غنيمة واسرع رجعة، قوم شهدوا صلاة الصبح ثم جلسوا يذكرون الله حتى طلعت عليهم الشمس فاولئك اسرع رجعة وافضل غنيمة ". قال ابو عيسى: وهذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وحماد بن ابي حميد هو محمد بن ابي حميد المدني , وهو ابو إبراهيم الانصاري المزني، وهو ضعيف في الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ التِّرْمِذِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ قِرَاءَةً عَلَيْهِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ أَبِي حُمَيْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ بَعْثًا قِبَلَ نَجْدٍ فَغَنِمُوا غَنَائِمَ كَثِيرَةً وَأَسْرَعُوا الرَّجْعَةَ، فَقَالَ رَجَلٌ مِمَّنْ لَمْ يَخْرُجْ: مَا رَأَيْنَا بَعْثًا أَسْرَعَ رَجْعَةً وَلَا أَفْضَلَ غَنِيمَةً مِنْ هَذَا الْبَعْثِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى قَوْمٍ أَفْضَلُ غَنِيمَةً وَأَسْرَعُ رَجْعَةً، قَوْمٌ شَهِدُوا صَلَاةَ الصُّبْحِ ثُمَّ جَلَسُوا يَذْكُرُونَ اللَّهَ حَتَّى طَلَعَتْ عَلَيْهِمُ الشَّمْسُ فَأُولَئِكَ أَسْرَعُ رَجْعَةً وَأَفْضَلُ غَنِيمَةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَحَمَّادُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ الْمَدَنِيُّ , وَهُوَ أَبُو إِبْرَاهِيمَ الْأَنْصَارِيُّ الْمُزَنِيُّ، وَهُوَ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف ایک فوج بھیجی تو اس نے بہت ساری غنیمت حاصل کیا اور جلد ہی لوٹ آئی، (جنگ میں) نہ جانے والوں میں سے ایک نے کہا: میں نے اس فوج سے بہتر کوئی فوج نہیں دیکھی جو اس فوج سے زیادہ جلد لوٹ آنے والی اور زیادہ مال غنیمت لے کر آنے والی ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تم لوگوں کو ایک ایسے لوگوں کی ایک جماعت نہ بتاؤں جو زیادہ غنیمت والی اور جلد واپس آ جانے والی ہو؟ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز فجر میں حاضر ہوتے ہیں پھر بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتے ہیں یہاں تک کہ سورج نکل آتا ہے یہ لوگ (ان سے) جلد لوٹ آنے والے اور (ان سے) زیادہ مال غنیمت لانے والے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
۲- حماد بن ابی حمید یہ محمد بن ابی حمید ہیں، اور یہ ابوابراہیم انصاری مدنی ہیں ۱؎۔ حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10400) (ضعیف) (سند میں ”محمد بن أبی حمید المقلب بـ ”حماد“ ضعیف ہیں)»

وضاحت:
۱؎: یعنی ان کا نام محمد ہے، حماد ان کا لقب ہے اور ابوابراہیم ان کی کنیت ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، التعليق الرغيب (1 / 166)، الصحيحة تحت الحديث (3531) // ضعيف الجامع الصغير (2164) //

قال الشيخ زبير على زئي: (3561) إسناده ضعيف
حماد بن أبى حميد: ضعيف (تقدم: 2151) وهو: محمد بن أبى حميد
110. باب
110. باب:۔۔۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3562
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا ابي، عن سفيان، عن عاصم بن عبيد الله، عن سالم، عن ابن عمر، عن عمر انه استاذن النبي صلى الله عليه وسلم في العمرة , فقال: " اي اخي اشركنا في دعائك ولا تنسنا ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعُمْرَةِ , فَقَالَ: " أَيْ أُخَيَّ أَشْرِكْنَا فِي دُعَائِكَ وَلَا تَنْسَنَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ کرنے کی اجازت مانگی تو آپ نے (اجازت دیتے ہوئے) کہا: اے میرے بھائی! اپنی دعا میں ہمیں بھی شریک رکھنا، بھولنا نہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 358 (1498)، سنن ابن ماجہ/المناسک 5 (2894) (ضعیف) (سند میں ”عاصم بن عبید اللہ“ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2894)

قال الشيخ زبير على زئي: (3562) إسناده ضعيف / د 1498، جه 2894
111. باب
111. باب: ادائیگی قرض کے لیے دعا کا باب۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3563
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا يحيى بن حسان، حدثنا ابو معاوية، عن عبد الرحمن بن إسحاق، عن سيار، عن ابي وائل، عن علي رضي الله عنه، ان مكاتبا جاءه , فقال: إني قد عجزت عن كتابتي فاعني، قال: الا اعلمك كلمات علمنيهن رسول الله صلى الله عليه وسلم لو كان عليك مثل جبل صير دينا اداه الله عنك؟ قال: " قل: اللهم اكفني بحلالك عن حرامك، واغنني بفضلك عمن سواك ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ سَيَّارٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ مُكَاتَبًا جَاءَهُ , فَقَالَ: إِنِّي قَدْ عَجَزْتُ عَنْ كِتَابَتِي فَأَعِنِّي، قَالَ: أَلَا أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ عَلَّمَنِيهِنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ كَانَ عَلَيْكَ مِثْلُ جَبَلِ صِيرٍ دَيْنًا أَدَّاهُ اللَّهُ عَنْكَ؟ قَالَ: " قُلْ: اللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ، وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ.
علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک مکاتب غلام نے ۱؎ ان کے پاس آ کر کہا کہ میں اپنی مکاتبت کی رقم ادا نہیں کر پا رہا ہوں، آپ ہماری کچھ مدد فرما دیجئیے تو انہوں نے کہا: کیا میں تم کو کچھ ایسے کلمے نہ سکھا دوں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائے تھے؟ اگر تیرے پاس «صیر» پہاڑ کے برابر بھی قرض ہو تو تیری جانب سے اللہ اسے ادا فرما دے گا، انہوں نے کہا: کہو: «اللهم اكفني بحلالك عن حرامك وأغنني بفضلك عمن سواك» اے اللہ! تو ہمیں حلال دے کر حرام سے کفایت کر دے، اور اپنے فضل (رزق، مال و دولت) سے نواز کر اپنے سوا کسی اور سے مانگنے سے بے نیاز کر دے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10128) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: مکاتب غلام سے مراد وہ غلام ہے: جس نے غلامی سے آزادی کے لیے اپنے مالک سے کسی متعین رقم کی ادائیگی کا معاہدہ کیا ہو۔

قال الشيخ الألباني: حسن، التعليق الرغيب (2 / 40)، الكلم الطيب (143 / 99)
112. باب فِي دُعَاءِ الْمَرِيضِ
112. باب: مریض کی دعا کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3564
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن عمرو بن مرة، عن عبد الله بن سلمة، عن علي، قال: كنت شاكيا فمر بي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا اقول: اللهم إن كان اجلي قد حضر فارحني وإن كان متاخرا فارفغني وإن كان بلاء فصبرني، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كيف قلت؟ قال: فاعاد عليه ما قال، فضربه برجله فقال: " اللهم عافه او اشفه " شعبة الشاك فما اشتكيت وجعي بعد. قال ابو عيسى: وهذا حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: كُنْتُ شَاكِيًا فَمَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ أَجَلِي قَدْ حَضَرَ فَأَرِحْنِي وَإِنْ كَانَ مُتَأَخِّرًا فَارْفَغنِي وَإِنْ كَانَ بَلَاءً فَصَبِّرْنِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ قُلْتَ؟ قَالَ: فَأَعَادَ عَلَيْهِ مَا قَالَ، فَضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ فَقَالَ: " اللَّهُمَّ عَافِهِ أَوِ اشْفِهِ " شُعْبَةُ الشَّاكُّ فَمَا اشْتَكَيْتُ وَجَعِي بَعْدُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھے شکایت ہوئی (بیماری ہوئی)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، اس وقت میں دعا کر رہا تھا: «اللهم إن كان أجلي قد حضر فأرحني وإن كان متأخرا فارفغني وإن كان بلاء فصبرني» اے میرے رب! اگر میری موت کا وقت آ پہنچا ہے تو مجھے (موت دے کر) راحت دے اور اور اگر میری موت بعد میں ہو تو مجھے اٹھا کر کھڑا کر دے (یعنی صحت دیدے) اور اگر یہ آزمائش ہے تو مجھے صبر دے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیسے کہا تو انہوں نے جو کہا تھا اسے دہرایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے پیر سے ٹھوکا دیا پھر آپ نے فرمایا: «اللهم عافه أو اشفه» اے اللہ! انہیں عافیت دے، یا شفاء دے، اس کے بعد مجھے اپنی تکلیف کی پھر کبھی شکایت نہیں ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 307 (1058) (تحفة الأشراف: 10187) (ضعیف) (سند میں ”عبد اللہ بن سلمہ“ حافظہ کے کمزور ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6098)

Previous    18    19    20    21    22    23    24    25    26    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.