Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: مسنون ادعیہ و اذکار
110. باب
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 3562
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعُمْرَةِ , فَقَالَ: " أَيْ أُخَيَّ أَشْرِكْنَا فِي دُعَائِكَ وَلَا تَنْسَنَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ کرنے کی اجازت مانگی تو آپ نے (اجازت دیتے ہوئے) کہا: اے میرے بھائی! اپنی دعا میں ہمیں بھی شریک رکھنا، بھولنا نہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 358 (1498)، سنن ابن ماجہ/المناسک 5 (2894) (ضعیف) (سند میں ”عاصم بن عبید اللہ“ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2894)

قال الشيخ زبير على زئي: (3562) إسناده ضعيف / د 1498، جه 2894

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3562 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3562  
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں عاصم بن عبید اللہ ضعیف ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3562   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1498  
´دعا کا بیان۔`
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ کرنے کی اجازت طلب کی، جس کی آپ نے مجھے اجازت دے دی اور فرمایا: میرے بھائی! مجھے اپنی دعاؤں میں نہ بھولنا، آپ نے یہ ایسی بات کہی جس سے مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ اگر ساری دنیا اس کے بدلے مجھے مل جاتی تو اتنی خوشی نہ ہوتی۔ (راوی حدیث) شعبہ کہتے ہیں: پھر میں اس کے بعد عاصم سے مدینہ میں ملا۔ انہوں نے مجھے یہ حدیث سنائی اور اس وقت «لا تنسنا يا أخى من دعائك» کے بجائے «أشركنا يا أخى في دعائك» کے الفاظ کہے اے میرے بھائی ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں شریک رکھنا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1498]
1498. اردو حاشیہ:
➊ یہ روایت سندا اگرچہ ضعیف ہے۔ لیکن معنًا صحیح ہے۔ یعنی اس سے جو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ دوسرے دلائل سے بھی وہ ثابت ہیں۔ مثلا رسول اللہ ﷺ کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا بھائی کہنا۔
➋ اجتماعی زندگی میں کسی بڑے اہم کام کے اقدام کےلئے بزرگوں سے اجازت لینا۔
➌ اہل فضل سے دعائے خیر کی درخواست کرنا بالخصوص جب وہ کسی فضیلت والے عمل میں ہوں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1498